"ننھا سرمچار: روس کا سب سے کم عمر مجاہد — سروژا الیشکوف”

تحریر و ترجمہ۔ فیصل بلوچ

زرمبش مضمون

یہ افسانہ نہیں، ایک سچ ہے۔آپ جو پڑھنے جا رہے ہیں، وہ نہ تو افسانہ ہے اور نہ ہی کوئی فرضی کہانی، بلکہ انسانی تاریخ میں جرات و بہادری کی اُن لازوال داستانوں میں سے ایک ہے، جو آج بھی مغربی دنیا کے دفاعی اداروں میں سنی اور پڑھی جاتی ہے۔ یہ کہانی سابقہ سویت یونین کے سرسبز جنگلات میں واقع ایک خوبصورت گاؤں "کالوگا اوبلاست” میں پیدا ہونے والے ننھے سرمچار سروژا الیشکوف کی ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنی ذہانت، جرات اور بے مثال بہادری کی بدولت مغربی دنیا میں "ننھا سرمچار” (Little Partisan) کے طور پر مشہور ہوا۔سروژا الیشکوف کے متعلق دستیاب محدود معلومات کے مطابق، وہ 1936 میں کالوگا اوبلاست کے ایک غریب مگر وطن سے محبت کرنے والے خاندان میں پیدا ہوا۔ زندگی کے ابتدائی سال ہی میں، اس نے اپنے والد کی ناگہانی وفات کے بعد باپ کی شفقت سے محرومی اور غربت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی زندگی کا سامنا کیا۔ اُس کی والدہ، ایک بہادر خاتون، اپنے تین بچوں کے ہمراہ شدید معاشی مشکلات کے باوجود سربراہی کی ذمے داریاں نبھاتی رہیں۔

یہ خاندان اپنے وطن، اُس کی آزادی، اور اُس کے دفاع سے بے پناہ محبت رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پوری تحصیل میں الیشکوف خاندان کی وطن دوستی ایک مثال سمجھی جاتی تھی۔ سروژا کا دس سالہ بھائی "پیتیا الیشکوف” بھی اپنی ماں کی طرح بہادری اور قربانی کی علامت تھا۔22 جون 1941 کو نازی جرمنی نے "آپریشن بارباروسا” کے کوڈ نام سے سوویت یونین پر حملہ کیا۔ اس جنگ کو وسائل اور افرادی قوت کے لحاظ سے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ مانا جاتا ہے۔

جب بغیر کسی اشتعال انگیزی کے اچانک کوئی فوج جارحیت کا ارتکاب کرتی ہے، تو متاثرہ خطے کے عوام اُسے نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف ردِعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ سویت روس کے دیگر علاقوں کی طرح، وسطی روس کا یورپی خطہ کالوگا اوبلاست بھی اُس وقت اپنی روزمرہ زندگی کے معمولات میں مصروف تھا۔اکتوبر 1941 میں جب نازی جرمنی نے روس کے اس خطے پر قبضہ کیا، تو صورتِ حال اچانک سنگین ہو گئی۔ نازی افواج کے ہاتھوں عام روسی شہریوں کے قتلِ عام نے خوف اور غصے کی ایک فضا پیدا کر دی۔ اس ظلم و بربریت کے خلاف سروژا الیشکوف کی والدہ نے اپنے 10 سالہ بیٹے پیتیا الیشکوف کے ہمراہ "سوویت پارٹیزن موومنٹ” (Soviet Partisan Movement) میں شمولیت اختیار کی، جو روسی عوام کی ایک مسلح تحریک تھی۔ یہ تحریک نازی افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کے لیے منظم کی گئی تھی۔

ننھا سرمچار سروژا، جو ابھی عمر میں بہت چھوٹا تھا، اپنی ماں اور بڑے بھائی کی بہادری، جنگی مہارت اور جذبۂ حریت سے بےحد متاثر ہوا۔ نازی جرمنی کی اس اچانک جارحیت کے آغاز میں، چونکہ سویت یونین کی ریڈ آرمی کو نازی افواج کے جدید ہتھیاروں سے لیس 15 لاکھ سے زائد فوجیوں کا سامنا تھا، اس لیے ابتدا میں شدید دباؤ کا شکار ہونا پڑا۔ایسے حالات میں روسی عوام کی یہ منظم مزاحمتی تحریک(سوویت پارٹیزن موومنٹ ) نازی فوج کے خلاف قہر بن کر ابھری۔ عام شہریوں کا یہ مسلح ابھار نہ صرف نازی جرمنی کی قبضے کی خواہش کو چکناچور کر دیتا ہے بلکہ گوریلا جنگ کی اس صورت نے مشرقی یورپ میں نازی افواج کی شکست میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

نازی جرمنی کی قبضہ گیریت کے خلاف سروژا الیشکوف کی والدہ اپنے 10 سالہ بیٹے پیتیا الیشکوف کے ہمراہ پوری طرح متحرک ہو جاتی ہیں۔ وہ "سوویت پارٹیزن تحریک” کے تحت گوریلا جنگ میں نازی افواج کی مواصلاتی نظام، رسد و راشن کی ترسیل، اور آمد و رفت کے تمام ذرائع پر منظم حملے کرتی ہیں۔ ان حملوں میں ریل کی پٹریاں، پل، سڑکیں اور دیگر مواصلاتی ڈھانچے بنیادی ہدف ہوتے ہیں۔ یہ تمام کاروائیاں وہ اپنی مسلح شہری تنظیم کے اصولوں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انجام دیتی ہیں۔

1942 کی خزاں کے موسم میں جب شہری مسلح تحریک نازی افواج کے خلاف مسلسل پیش قدمی کر رہی تھی، تو ایک شام ایک بدبخت غدار کی نشاندہی پر نازی جرمنی کی فوج کالوگا اوبلاست کے قریب واقع گاؤں گریان کا مکمل گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس وقت چھ سالہ سروژا الیشکوف اپنی والدہ، بھائی پیتیا اور دیگر سرمچاروں کے ساتھ اسی گاؤں میں موجود ہوتا ہے۔گاؤں کے ایک خفیہ مقام پر جب یہ سب لوگ نازی جرمنی کے خلاف آئندہ کارروائی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوتے ہیں، تو اچانک بندوقوں کی گرج اور دھماکوں کی آوازیں فضا میں گونجنے لگتی ہیں۔ لمحوں میں سروژا کی ماں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ نازی جرمنی کا محاصرہ توڑنا اب انتہائی مشکل ہو چکا ہے، اور ان حالات میں معصوم بچوں کی جانیں بھی خطرے میں ہیں۔

صورتِ حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے، وہ فوری طور پر دیگر مزاحمت کاروں کے ہمراہ مورچوں کی ازسرنو تنظیم شروع کر دیتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ گاؤں کے تمام بچوں کو ہدایت دیتی ہیں کہ وہ کھڑکیوں کے ذریعے جنگل کی جانب نکل جائیں، محفوظ پناہ گاہوں میں چھپیں، اور اگر ممکن ہو تو سویت ریڈ آرمی سے جا ملیں۔سروژا الیشکوف کے مطابق، اُس کی والدہ نے اُسے ایک ہمسایہ کے گھر کی کھڑکی سے سبزیوں کے باغات کے راستے جنگل میں نکلنے کی ہدایت کی۔ اُنہوں نے اسے یہ بھی کہا کہ اگر جنگل میں کہیں ریڈ آرمی کے دستے نظر آئیں، تو فوراً اُن سے آ ملنا۔

سروژا الیشکوف کھڑکی سے ہوتے ہوئے سبزیوں کے باغات تک پہنچتا ہے اور طویل وقت تک وہیں چھپ کر نازی جرمنی کے ہیلی کاپٹروں سے اُترنے والے مسلح فوجیوں اور پیدل دستوں کی پیش قدمی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں امید زندہ رہتی ہے کہ شاید اس کی ماں اور بڑا بھائی، پیتیا الیشکوف، کسی طرح ان فوجیوں سے بچ کر اُس سے آ ملیں گے۔ مگر جنگی میدان میں دشمن پر ہونے والے پے در پے حملے اور ان کے نتائج یہ واضح کرتے ہیں کہ اس کے اہلِ خانہ نے اپنی جان وطن کے لیے قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

وہ اپنی ماں اور بھائی کو دشمن افواج پر آخری گولی تک لڑتے اور قہر بن کر برستے ہوئے دیکھتا ہے۔ یہ منظر اس ننھے دل کو غمزدہ ضرور کرتا ہے، لیکن وہ اپنے ماں اور بھائی کی شجاعت پر فخر بھی محسوس کرتا ہے اور دشمن کے خلاف لڑنے کی ذہنی تیاری میں مزید پختہ ہو جاتا ہے۔نازی افواج، جدید جنگی سازوسامان اور ہزاروں کی تعداد میں نفری رکھنے کے باوجود، مقامی سرمچاروں کی مزاحمت کا سامنا کرنے پر بےبس دکھائی دیتی ہیں۔ سینکڑوں جرمن فوجی مارے جاتے ہیں، درجنوں ٹینک تباہ ہو جاتے ہیں، اور اس کے باوجود وہ ماں اور بیٹے کو صرف اس وقت گرفتار کر پاتے ہیں جب ان کا ایمونیشن مکمل طور پر ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

جرمن افسران، سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکت پر طیش میں آ کر سروژا کی نہتی ماں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ پیتیا الیشکوف کو بدترین تشدد کے بعد درخت سے لٹکا کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ دشمن فوج غصے میں ان دونوں کی لاشوں پر بھی بےدریغ گولیاں برساتے ہیں۔ سروژا کے بقول، یہ اس کی ماں کی فتح اور قابض افواج کی اخلاقی شکست تھی۔یہ ظلم یہیں ختم نہیں ہوتا۔ نازی افواج، اپنی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے گاؤں کو آگ لگا دیتی ہیں، قیمتی اشیاء لوٹ لیتی ہیں اور انسانوں کو گھروں سمیت جلا دیتی ہیں۔ یہ انسانیت سوز منظر دور باغات میں چھپا سروژا الیشکوف اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔

اپنے شہید ماں کے کہے گئے الفاظ کی روشنی میں، صرف چھ سال کی عمر میں، وہ گھنے جنگلات میں بلاخوف و خطر نکل پڑتا ہے۔ دشمن سے بدلہ لینے اور اپنی سرزمین کے وقار کو بحال کرنے کے جذبے سے سرشار یہ ننھا سرمچار سویت ریڈ آرمی کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر وہ جنگل میں بے ہوش ہو جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے، 142ویں گارڈز رائفل رجمنٹ کے سپاہی اس علاقے میں گشت پر ہوتے ہیں اور انہیں نیم مردہ حالت میں سروژا زمین پر پڑا ملتا ہے۔ رجمنٹ کے افسران کے مطابق، جو آج بھی روسی فوجی ریکارڈ کا حصہ ہے، انہیں اگست 1942 میں سروژا ایک ایسی حالت میں ملا کہ جہاں اس کی شناخت، ماضی، اور خاندان کا کوئی سراغ باقی نہ تھا۔ اسی لیے رجمنٹ نے اسے اپنایا اور اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔

سروژا الیشکوف جلد ہی رجمنٹ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگتا ہے۔ وہ پیغامات کی ترسیل، سپاہیوں کو پانی و ایمونیشن پہنچانے، زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے، اور اخبارات کی ترسیل جیسے کام بخوبی انجام دیتا ہے۔ اپنی بہادری اور فرض شناسی کی بدولت وہ جلد ہی سپاہیوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔وہ بار بار رجمنٹ کے کمانڈر سے وردی پہننے اور میدانِ جنگ میں لڑنے کی اجازت طلب کرتا ہے، جس پر کمانڈر مسکرا کر کہتا، "جب تمہیں مونچھیں آ جائیں گی، تب۔”

17 جولائی 1942 کو نازی جرمنی نے سویت یونین کے اہم شہر اسٹالن گراڈ (موجودہ وولگوگراد) پر حملہ کر دیا، جہاں یورپ کی سب سے بڑی دریا وولگا بہتی ہے۔ اس جنگ میں نازی افواج نے لاکھوں فوجی اور جدید ترین اسلحہ استعمال کیا، ساتھ ہی فضائی طاقت کا بھی وحشیانہ استعمال کیا۔
اس معرکے میں، جہاں پوری قوم کا بچہ بچہ لڑتا نظر آیا، وہیں ننھے سروژا کی ذہانت اور بہادری نے بھی اپنی الگ مثال قائم کی۔ ایک شام، وہ اگلے مورچوں کا جائزہ لیتے ہوئے دشمن کے خفیہ دستوں کو وولگا کے کنارے گھاس میں چھپا دیکھتا ہے۔ فوراً کمانڈر کو اطلاع دیتا ہے، جس کے نتیجے میں روسی افواج ان دشمن جاسوسوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

ایک اور شدید حملے کے دوران جب نازی فوج رجمنٹ کے زیرِ زمین ٹھکانے پر یلغار کرتی ہے، سروژا جان ہتھیلی پر رکھ کر زخمیوں کو محفوظ مقام تک پہنچاتا، سپاہیوں کو ایمونیشن فراہم کرتا ہے، اور یہاں تک کہ کمانڈر میخائل ووروبیوف کی جان بچانے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔کمانڈر، صحت یاب ہونے کے بعد، پوری رجمنٹ کے سامنے اعلان کرتا ہے کہ وہ سروژا کو گود لے کر اسے اپنا بیٹا بنا رہا ہے۔ یہ لمحہ سروژا کی زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہوتا ہے۔

1943 میں سروژا الیشکوف کو "میڈل آف ملٹری میرٹ” سے نوازا گیا۔ اس کی بہادری، ذہانت اور فرض شناسی نے اسے نہ صرف سویت روس بلکہ عالمی جنگی تاریخ کا پہلا اور سب سے کم عمر سرمچار بننے کا اعزاز عطا کیا۔جنگ کے بعد اس نے Tula Suvorov Military School میں تعلیم حاصل کی، پھر 1954 میں Kharkov Law Institute سے قانون کی ڈگری لی، اور بطور انویسٹی گیٹر (تحقیقات کار) پروسیکیوشن آفس میں کام شروع کیا۔ بعد ازاں، وہ اپنے رضاعی والد کے آبائی شہر Chelyabinsk میں بطور قانونی مشیر خدمات انجام دینے لگا۔

یہ ننھا سرمچار بڑھاپے تک اپنے ملک اور قوم کی خدمت میں مصروف رہا۔ وہ 1 فروری 1990 کو، 53 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ مگر آزادی پسندوں، تاریخ دانوں اور دفاعی اداروں کے دلوں میں آج بھی وہ زندہ ہے۔
دنیا بھر میں جب بھی دوسری عالمی جنگ کی تاریخ کے اوراق پلٹے جاتے ہیں، سروژا الیشکوف کا نام عزت، احترام اور خراجِ تحسین کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اس کی کم عمری میں غیر معمولی ذہانت اور بہادری کی داستان آج بھی کئی زبانوں میں زندہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مشکے میں ڈیتھ اسکواڈ کے دو کارندے زخمی، تمپ میں فوجی کیمپ کو راشن سپلائی کرنے والی گاڑی کو نذر آتش کردیا۔ بی ایل ایف

اتوار جولائی 27 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے 23 جولائی کی رات تقریباً ساڑھے 9 بجے مشکے کے علاقہ سنیڑی میں قابض پاکستانی فوج کی زیر نگرانی سرگرم مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ٹھکانے پر حملہ کیا جس کے نتیجے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ