پارلیمانی سیاست یا سوداگری؟

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

سردیوں کی صبح ہو یا گرمیوں کی جھلسا دینے والی دوپہر، اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کئی دنوں سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کی زبان پر شکوہ ہے، آنکھوں میں امید، اور دل میں وہ درد جو ان کے پیاروں کی جبری گمشدگی نے پیدا کیا ہے۔ ایسے میں جب پورا اسلام آباد ان مظلوموں کی آواز سے نظریں چرا رہا ہے، تو سینیٹر مشتاق احمد خان چہرہ نمایاں ہوتا ہے۔

یہ وہ سیاستدان ہیں جو نہ صرف ایوانِ بالا میں مدلل آواز کے طور پر جانے جاتے ہیں بلکہ ایوان سے باہر بھی عوامی حقوق کے لیے بے دھڑک کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان کی سیاست کا دائرہ صرف ایک صوبے تک محدود نہیں۔ مشتاق احمد خان نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ قوم، زبان یا نسل سے بالاتر ہو کر مظلوم کا ساتھ دینے والے سیاستدان ہیں۔

حال ہی میں ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما فوزیہ بلوچ اور واجہ صبغت اللہ شاہ جی کی کزن سید بی بی کے ہمراہ موجود ہیں۔ یہ تصویر صرف ایک فریم نہیں، بلکہ ہمارے سیاسی نظام کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں سچائی تلخ، مگر عیاں ہے۔

اسلام آباد ان دنوں بلوچ پارلیمان پسند جماعتوں کے نمائندوں سے بھرا پڑا ہے۔ وہ نمائندے جنہوں نے عوامی مینڈیٹ لیا، جو بڑے بڑے دعوے کرتے نہیں تھکتے، جو ٹی وی اسکرین پر قوم پرستی کے ترانے سناتے ہیں، وہ سب آج خاموش ہیں۔ وہ نواب، سردار، وزرا اور مشیر، سب کے سب چہرے چھپائے بیٹھے ہیں۔

کوئی ایک بھی ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے پاس نہ آیا، نہ ان کی دلجوئی کی، نہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔ گویا ان کے ضمیر کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ گویا لاپتہ افراد ان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہی خاموشی ان کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

بلوچستان کے سینئر قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی وہ واحد پشتون سیاستدان ہیں جنہوں نے لاپتہ افراد کے کیمپ کا دورہ کیا۔ ان کا یہ قدم لواحقین کے لیے تسلی کا باعث بنا، اور اس سیاسی خلا میں ایک امید کی کرن بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ باقی کہاں ہیں؟

یہ کیسی سیاست ہے جو عوام سے ووٹ تو مانگتی ہے مگر ان کے زخموں پر ہاتھ رکھنے سے کتراتی ہے؟ کیا یہ سیاست صرف اقتدار کی راہداریوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے؟ کیا بلوچ نمائندے صرف انتخابات کے دنوں میں "قوم پرست” بنتے ہیں؟

جو لوگ برسوں سے خود کو بلوچ قوم پرست کہلاتے ہیں، آج وہی لوگ ریاستی جبر پر خاموش ہیں۔ ان کی یہ خاموشی خوف کی علامت ہے وہ خوف جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی سے جڑا ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ آواز بلند کریں گے تو شاید اگلی حکومت میں ان کا داخلہ بند ہو جائے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جو حکومتیں بناتی بھی ہے، گراتی بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچ سیاست آج مصلحت پرستی کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ مصلحت پرستی کب تک چلے گی؟ کیا اس سے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی؟ یا اپنے وجود کو ہی داؤ پر لگا بیٹھیں گی؟

بلوچستان کی سیاست ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک راستہ عوام کی مزاحمت، سچائی اور انصاف کا ہے۔ دوسرا راستہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی، خاموشی اور اقتدار کے سودے کا ہے۔ اب فیصلہ قیادت کو کرنا ہے یا وہ عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی، یا اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں چھپتی رہے گی۔

لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو سیاست عوام سے منہ موڑ لے، وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتی۔ آج سینیٹر مشتاق احمد خان جیسے لوگ یاد رکھے جائیں گے کیونکہ انہوں نے خاموشی کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ آواز بلند کی۔ وہ اس ظلم کے دور میں ایک نظریاتی چراغ کی مانند ہیں، جو اندھیرے میں روشنی پھیلا رہا ہے۔

اور باقی سب صرف اقتدار کے مسافر ہیں جنہیں تاریخ نہ یاد رکھے گی، نہ معاف کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کو 11 دن مکمل، دھرنا جاری

ہفتہ جولائی 26 , 2025
اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے لواحقین کے دھرنے کو 11 دن مکمل ہو گئے ہیں، مگر پاکستانی ریاست کی طرف سے منظم جبر اور رکاوٹوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پریس کلب جانے والی سڑکیں بدستور بسوں، رکاوٹوں اور خاردار تاروں کے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ