نظریہ قید نہیں ہوتا

تحریر: عزیز سنگھور ـ زرمبش مضمون

بلوچستان میں اگر کوئی باشعور، تعلیم یافتہ اور متحرک خاتون ابھری ہے جس نے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور کی شمع بھی روشن رکھی، تو وہ ڈاکٹر شلی بلوچ ہیں۔ آج انہیں ضلع گوادر کے ساحلی علاقے سربندر سے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری ایسے وقت میں ہوئی جب وہ ایک اہم سیاسی کانفرنس کے انعقاد میں مصروف تھیں، جو جبری گمشدگیوں، سیاسی اسیران کی حالتِ زار اور بلوچ قومی مزاحمت کے حق میں تھی۔

یہ محض ایک گرفتاری نہیں، بلکہ بلوچ خواتین کی ابھرتی ہوئی آواز کو خاموش کرنے کی ایک حکومتی کوشش ہے۔ مگر یہ آواز اتنی کمزور نہیں کہ گرفتاری سے دب جائے، کیونکہ یہ آواز ایک تاریخ، ایک نظریے اور ایک نسل کی نمائندہ ہے۔

ڈاکٹر شلی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے پسماندہ مگر باہمت گاؤں شاپک سے ہے۔ 20 فروری 1996 کو پیدا ہونے والی یہ لڑکی نہ صرف میڈیکل کے شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتی ہے، بلکہ بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد وہ بلوچ خواتین کی سیاسی تربیت کا بیڑا بھی اٹھاتی ہے۔ ان کی جدوجہد صرف ایک اسٹیتھو اسکوپ تک محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے بلوچ وومن فورم جیسے نظریاتی پلیٹ فارم کے ذریعے بلوچ خواتین کو منظم کیا، شعور دیا اور انھیں ایک قوم کی اجتماعی جدوجہد کا حصہ بنایا۔

بلوچ وومن فورم کا قیام بذاتِ خود ایک مزاحمتی عمل ہے، اور ڈاکٹر شلی اس مزاحمت کی روح ہیں۔ انہوں نے جن جلسوں، پریس کانفرنسز، احتجاجی مارچز اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کی، وہاں صرف ایک ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک کارکن، ایک رہنما اور ایک انقلابی عورت دکھائی دی۔

آج جب گوادر میں وہ کانفرنس منعقد کر رہی تھیں جو سیاسی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور بلوچستان کی حالتِ زار کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے تھی تو حکومتی اداروں نے انھیں گرفتار کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بلوچستان میں "باشعور عورت” کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مگر شاید حکومت یہ بھول چکی ہے کہ شلی بلوچ جیسی خواتین صرف جسمانی موجودگی سے نہیں بلکہ نظریاتی پختگی سے جیتی ہیں۔ ان کی موجودگی ان کے کردار میں ہے، اور کردار قید سے ختم نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر شلی بلوچ کی سیاسی اور تعلیمی سفر میں ایک اور اہم سنگ میل ان کی بلوچ طلبہ تنظیم، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) میں شمولیت تھا، جہاں انہوں نے نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھائی بلکہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کیا۔
مختصر مدت میں، وہ بساک کے بی ایم سی یونٹ کی وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئیں، جہاں انہوں نے تنظیمی امور میں حصہ لیا اور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
اس کے بعد انہوں نے بساک کوئٹہ زون کی جنرل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا، جس میں وہ بلوچ طلبہ کے حقوق اور قومی جدوجہد کے لیے مزید متحرک ہوئیں۔
سنہ 2023 میں، تعلیمی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر شلی بلوچ نے بلوچ وومن فورم کی آرگنائزر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی قیادت میں بلوچ وومن فورم نے بلوچ "زالبول” کے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے اہم کام کیا اور بلوچ خواتین کو منظم کر کے تحریک میں شامل کرنے کی کوششیں تیز کیں۔

بلوچ خواتین کی جدوجہد اب محض دھرنوں یا بینرز تک محدود نہیں رہی، بلکہ وہ فکری محاذ پر بھی برسرپیکار ہیں۔ ڈاکٹر شلی بلوچ ان چند خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے بلوچ تحریک میں خواتین کی شرکت کو نظریاتی بنیاد دی۔ ان کی گرفتاری گو کہ ایک افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے، لیکن یہ بلوچ مزاحمت میں عورت کی شمولیت کو مزید مستحکم کرے گی۔
شلی بلوچ ایک نظریہ بن چکی ہیں اور نظریے کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کراچی یونیورسٹی کے سامنے بلوچ طالبعلم جبری لاپتہ

ہفتہ جولائی 26 , 2025
کراچی یونیورسٹی کے فلسفہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم مسلم داد بلوچ ولد صاحب داد کو گزشتہ شام 7 بجے پاکستانی فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا۔ عینی شاہدین کے مطابق مسلم داد بلوچ کو یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ