
پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیے گئے نیشنل ڈموکریٹک لاری کے رہنما غنی بلوچ کی جبری گمشدگی کو دو ماہ مکمل ہونے پر اہل خانہ نے پریس کانفریس کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج دل شکستہ، غم زدہ اور بے بس ہو کر آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ دو مہینے گزر چکے ہیں، مگر ہمارےخاندان کے چراغ غنی بلوچ کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ دو مہینوں سے ہم مسلسل قانونی اور آئینی راستے اپنا رہے ہیں ان دو مہینوں میں ہم نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ایس ایچ او، ایس ایس پی، ضلعی انتظامیہ کے سامنے فریاد کی، جہاں مایوسی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ہم نے آئین اور قانون پر بھروسہ کیا اور بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ میں آئینی درخواست جمع کروائی، خضدار سیشن کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی لیکن افسوس کہ ان تمام کوششوں کے باوجود نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ کوئی ادارہ جوابدہ ٹھہرا، نہ عدالت کی طرف سے کوئی فیصلہ آیا، اور نہ ہی ریاستی ادارے کسی قانون یا آئین کے پابند دکھائی دیے۔
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپکے علم میں ہے اور دوبارہ آُکے ریکارڈ میں لانا چاہ رہے ہیں کہ غنی بلوچ کو 25 مئی کو خضدار کے قریب جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔27 مئی کو ہم خضدار کے ایس ایچ او کے پاس ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پہنچے، مگر انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ہماری درخواست کی ریسیونگ(RECIEVING)تک نہیں دی۔ اگلے ہی دن، یعنی 28 مئی کو ہم ایس ایس پی کے پاس پہنچے، مگر وہاں بھی مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔ جس کے بعد مجبورا ہمیں آپ صحافیوں سے مدد لینی پڑھی اور 29 مئی کو پہلا پریس کانفرنس کیا۔ آپ کی آواز بھی حکام بالا تک نہ پہنچی تو ہم نے 4 جون کو نوشکی میں ریلی نکالی، 16 جون کو ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا دیا۔جس کی وجہ سے پہلی بار کسی نمائندے یعنی ڈپٹی کمشنر نے ہم سے ملاقات کی، انہوں نے بے بسی تو ظاہر کی مگر ساتھ ہی وعدہ کیا کہ خضدار انتظامیہ سے معلومات لے کر ہمیں آگاہ کیا جائے گا، مگر آج تک اس حوالےسے ہمیں ایک لفظ تک نہیں ملا۔ وہاں سے بھی مایوس ہو کر29 جون کو ہم نے کوئٹہ-تفتان شاہراہ پر احتجاج کر کے روڈ بلاک کیا تاکہ اب حکام بالا تک ہماری آواز پہنچ سکے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے ہم سے مذاکرات کر کے یقین دلایا کہ جے آئی ٹی بنے گی، محکمہ داخلہ سے معلومات لی جائیں گی، اور ہم سے رابطہ کیا جائے گا۔ لیکن وہ بھی صرف تسلیاں تھیں۔ نہ کوئی جے آئی ٹی بنی، نہ ہمیں بلایا گیا، نہ ہی کوئی اطلاع ملی۔
پریس کانفریس میں کہا گیا کہ دو مہینےگزر چکے ہیں، لیکن آج تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔ سیشن کورٹ میں ہماری درخواست زیرِ التوا ہے، جہاں پولیس کو بار بار تفتیش کا کہا جا رہا ہے، مگر پولیس بضد ہے کہ اہل خانہ ہمیں چشم دید گواہ پہنچائے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ پولیس کا کام ہے، وہ سی سی ٹی وی نکالے، کمپنی سے سواریوں کا ریکارڈ حاصل کرے، ڈرائیور سمیت باقی عملے سے معلومات لے، یہ اہل خانہ نہیں کر سکتے بلکہ یہ انہی کا کام ہے ۔ لیکن پولیس صرف حیلے بہانے کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی ہمارا کیس زیرِ سماعت ہے، مگر تاحال وہاں سے بھی کوئی مؤثر جواب نہیں ملا۔ وہاں فریقین کہہ رہے ہیں کہ تفتیش کرنے کے بعد رپورٹس جمع کرینگے۔تمام آئینی راستے، تمام دروازے کھٹکھٹا لیے ہیں۔ اب نہ ریاستی اداروں پر بھروسہ بچا ہے، نہ ہی عدلیہ سے کوئی امید نظر آ رہی ہے۔
ہمارا قصور کیا ہے؟ کیا یہ جرم ہے کہ ہمارا بیٹا علم دوست تھا؟ کتابیں بانٹتا تھا؟ اپنے لوگوں کو شعور دیتا تھا؟
آج وہ لاپتہ ہے، اور ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم آپ صحافی برادری سے آخری امید کے ساتھ مخاطب ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کا پیشہ مقدس ہے، اور آپ کی آواز مظلوم کی طاقت بن سکتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ غیر جانبداری سے اس حساس مسئلے کو اجاگر کریں گے، کیونکہ اگر آپ خاموش ہو گئے، تو پھریہاں ہمارے لیے کوئی آواز باقی نہیں رہے گی۔ تمام آئینی رستوں کے انتخاب کے باوجود ہمیں انصاف نہیں مل رہا مگر ہم اپنے بھائی کو نہیں بھولیں گے اور ان کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اس لیے آپ کے توسط سے ہم یہ اعلان کرتے کہ27 جولائی کو ہم کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔ اگر اب بھی کوئی سنوائی نہ ہوئی تو ہم مزید سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ انصاف کا راستہ ہم سے چھین لیا گیا ہے، اور خاموش رہنا اب ممکن نہیں رہا۔