
تحریر: رامین بلوچ – زرمبش مضمون
انسانی سماج جامد نہیں بلکہ مسلسل حرکت اور ارتقا کی حالت میں ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جب بھی کسی مقبوضہ قوم میں تحریک آزادی کی چنگاری بھڑکتی ہے، تو اس کا پہلا اثر قابض ریاست کے ڈھانچے پر پڑتا ہے۔ وہ ریاست جو عام حالات میں ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ کی مانند نظر آتی ہے، تحریک کے ابھار پر ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہے۔ اس کے اندرونی تضادات، جبر، ظلم اور ناانصافی کی پرتیں عوام کے سامنے عیاں ہوجاتی ہیں۔قابض قوت ہمیشہ اس کوشش میں رہتی ہے کہ کسی بھی طرح تحریک کے ارتعاش کو دبایا جا سکے۔ کیونکہ جب تحریک خاموش ہوتی ہے، تو قوم کے ذہن و دل پر قابض کا بیانیہ اور سوچ مسلط ہوتی ہے۔ اس سوچ نے عوام کو اس حد تک زیر کر رکھا ہوتا ہے کہ وہ قابض کو چٹان اور خود کو اس کے سامنے بے بس تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنے زخم سہتے ہیں، لیکن ان زخموں کے خلاف سر اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے مارکس نے اس انداز میں بیان کیا کہ "جب تحریک کا فقدان ہوتا ہے تو روایات اور روٹین کا بوجھ عوام پر ہمالیہ سے بھی زیادہ بھاری ہو جاتا ہے۔”
قابض ریاست کے بنائے گئے فریم ورک میں موجود سیاسی نمائندے،جو درحقیقت قابض کے مفادات کے محافظ ہوتے ہیں،اپنی قوم کو اسی روایتی غلامی میں دھکیلتے ہیں۔ وہ ریاستی انتخابات، ترقیاتی منصوبوں، روزگار کے جھانسے اور سیاسی عملداری کے نام پر عوام کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ یہی نجات کا راستہ ہے۔ جبکہ درحقیقت، یہ نمائندے اپنے ذاتی مفادات کے لیے قوم کے دکھ، درد، زخم، احساسات اور یہاں تک کہ نفسیات کا سودا کرتے ہیں۔
بلوچ قوم کی مثال سامنے ہو تو صورتحال اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ایک طرف ریاست کی بربریت، جبری گمشدگیاں، وسائل کی لوٹ مار، اور ثقافتی نسل کشی ہے۔ دوسری طرف انہی زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان کا کاروبار بنانے والے نام نہاد رہنما، سیاسی پارٹیوں اور خفیہ ایجنڈے پر کام کرنے والے عناصر ہیں۔ ان کے نزدیک قوم کی لاچاری، غربت، اور غلامی محض ایک دکان ہے جس پر وہ اقتدار کے نوٹ کما رہے ہوتے ہیں۔ان نمائندوں کی سب سے بڑی فریب کاری یہ ہے کہ وہ خود کو قوم کا نجات دہندہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ قابض کے پالے ہوئے مہرے ہوتے ہیں۔ جب تحریک ابھرتی ہے اور عوامی شعور بلند ہوتا ہے تو ان کے کاروبار پر برا اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ ایک باشعور قوم نہ صرف قابض کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے، بلکہ ان داخلی غداروں اور سوداگر سیاستدانوں کو بھی پہچان لیتی ہے جو ان کے زخموں پر نمک چھڑک کر "سیاسی خدمت” کا نام دیتے ہیں۔کسی قوم کے جذبات، آزادی کی تڑپ، اور درد کو بیچنا جسم فروشی سے بھی زیادہ مکروہ عمل ہے۔ جسم بیچنا ایک مجبوری ہو سکتی ہے، مگر شعور بیچناایک دانستہ جرم ہے۔اور یہ جرم ان تمام کرداروں کا مشترکہ گناہ ہے جو قوم کے اجتماعی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔
تاہم، تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک قوم بیدار ہو جائے، تو نہ قابض بچتا ہے نہ اس کے کارندے۔ تحریک آزادی جب عوامی شعور سے جڑتی ہے، تو وہ زلزلہ بن جاتی ہے جو صرف ریاستی ڈھانچوں کو نہیں، بلکہ منافقانہ سیاست، موقع پرستی اور دھوکہ دہی پر مبنی پورے نظام کو بھی زمین
بوس کر دیتی ہے۔آج بلوچ مقبوضہ قوم کواسے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی کی جدوجہد صرف ریاست کے خلاف نہیں بلکہ ذہنی غلامی، مفاد پرست نمائندوں اور روایتی سیاست سے بھی نجات کا ہے ہے۔ حقیقی تحریک وہی ہے جو عوام کے جذبات اور قربانیوں پر ایمان رکھتی ہے، نہ کہ ان کے زخموں کا سودا کرتی ہے۔
بلوچ وطن ایک ایسا مملکت ہے جو ہزاروں سالہ قدیم تہذیب اور قومی شعور کی امین ہے۔ جو سنگلاخ پہاڑوں، وسیع و عریض ریگزاروں اور قدرت کے عطاکردہ معدنی خزائن سے مالا مال ہے، آج انسانی المیوں کی ایک ایسی داستان بن چکاہے جسے محض”المیہ“کہہ کر در گزر کرنا زمینی حقائق کے گہرے زخموں پر مرہم رکھنے کی مترادف ہوگا۔ہر بیتے دنوں کے ساتھ بلوچ وطن میں جو کچھ ہورہاہے وہ محض انسانی حقوق کی پائمالی نہیں بلکہ انسانیت کے چہرے پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو نوآبادیاتی ذہنیت سے جنم لینے والی”بربریت“ سفاکیت کی سیاہ خدو خال کو عیاں کررہاہے۔
بلوچ وطن میں جاری ریاستی جبر، جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشیں، پکنک پوائنٹس اور ویرانوں میں پڑی ہوئی تشدد لاشیں۔یہ سب کچھ عالمی شعور کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے یہ عالمی ضمیر کی ایوانوں میں گونجنے کے باوجود سننے سے قاصر ہیں۔ وہ آوازیں جو فلک شگاف صدائیں بن کر ریگزاروں اور میدانوں میں گونجتی ہیں، کبھی کسی بوڑھے کی آہ ہوتی ہیں، کبھی کسی ماں کی فریاد، اور کبھی کسی معصوم بچے کی کرب!
آج بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کے لیے جو ریاستی حربے استعمال ہو رہے ہیں، وہ جدید تاریخ کی ایسی مثالیں پیش کر رہے ہیں جن کی مماثلت صرف لاطینی امریکہ کی آمریتوں یا مشرقی تیمور کے قتل عام سے ہی دی جا سکتی ہے۔بلوچستان کی معاشی شہ رگ، یعنی سرحدی تجارت اور تیل کی ترسیل پر عائد پابندیاں دراصل اُس فطری معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش ہے جو بلوچ عوام کے لیے روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھی۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے نہ صرف جسمانی بقا کو خطرے میں ڈالا بلکہ معاشی خودمختاری کے خواب کو بھی چکنا چور کر دیاہے۔
بلوچ عوام کی مزاحمت کو اگر محض علیحدگی پسندی کے چشمے سے دیکھا جائے تو یہ زیادتی ہے۔ یہ مزاحمت، درحقیقت، وجودی فلسفہ کا وہ اظہار ہے جہاں ایک فرد یا قوم جب اپنی شناخت، خودداری اور بقا کو خطرے میں پاتا ہے تو وہ سوال اٹھاتا ہے، مزاحمت کرتا ہے، اور اپنے وجود کی تصدیق کے لیے قربانی دیتا ہے۔ژاں پال سارتر نے کہا تھا: "جہاں غلامی کے خلاف مزاحمت نہ ہو، وہاں آزادی محض ایک فریب ہے۔” بلوچستان کی مزاحمت بھی اسی فریب سے نجات کی جدوجہد ہے۔
آج جب بلوچ نوجوانوں کو غائب کئے جاتے ہیں، جب کوئی ماں اپنے لال کی راہ تکتے تکتے آنکھیں اور اپنی وجود کھو بیٹھتی ہے، تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ عالمی دنیا بلوچ سوال پر خاموش کیوں ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی انسان دوست ہیں ؟ ان کی ضمیر کب جاگے گی؟ کب بلوچ ان آنکھوں میں آنسو بن کر ٹپکیں گے جنہیں صرف خاکی وردی اور بندوقوں کی نالیں ہی دیکھتی ہیں؟
بلوچستان کے ریگزار صرف ریت نہیں، یہ تاریخ کے گواہ ہیں۔ یہاں ہر کنکر، ہر پتھر، ہر قطرہخون ایک نوحہ ہے، ایک داستان ہے، ایک چیخ
ہے جو کہہ رہی ہے:
"ایسی کون سی قیامت باقی رہ گئی ہے جو بلوچ پر ٹوٹ نہیں پڑی؟”
بلوچ قومی آزادی تحریک محض انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف ایک ردعمل نہیں، بلکہ یہ ایک منظم، فکری اور سیاسی جدوجہد ہے جو نوآبادیاتی تسلط، ریاستی قبضہ گیریت، اور غیر فطری پاکستانی شناخت کے خلاف مزاحمت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
بلوچ قوم صدیوں سے اپنی آزادی کی جدوجہد کررہی ہے ۔ برطانوی سامراج کے دور میں جب نوآبادیاتی لکیریں کھینچی گئیں، تو بلوچ خطے کو دانستہ طور پر تقسیم کیا گیا، اور پھر 1948ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے عمل کو متنازعہ اور جبری مانا گیا۔ اسی دن سے بلوچ قوم میں آزادی اور قومی شناخت کے دفاع کا جذبہ پیدا ہوا، جو وقت کے ساتھ ایک منظم تحریک میں ڈھل چکاہے۔
بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے ریاست نے شروع ہی سے طاقت، دھوکہ دہی ، جبر اورخاموش دستوں اور سازشوں کے تمام حربے آزمائے۔
ریاست نے بلوچ تحریک کو پراکسی کا لبادہ پہنا کر عالمی سطح پر اس کے جمہوری، سیاسی اور انسانی پہلو کو مسخ کرنے کی ہر ممکن مکروہ کوشش کی۔ یہی نہیں، بلکہ مقامی اور عالمی میڈیا میں پروپیگنڈہ کے ذریعہ بلوچ قومی آزادی کے تحریک کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ چلائی
بلوچ قومی تحریک کو آج جن چیلنجز کا سامنا ہے، وہ صرف عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ سفارتی بھی ہیں۔ بلوچ قوم کو اندرونی اتحاد، فکری قیادت، اور عالمی سطح پر مؤثر رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ جدید میڈیا، سفارت کاری، انسانی حقوق کے ادارے، اور علمی اشاعت وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے اس تحریک کو عالمی سطح پر سنجیدگی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
بلوچ قومی تحریک محض ایک سیاسی مطالبہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی بقا، قومی وقار، شناخت، اور آزادی کی جنگ ہے۔ یہ مزاحمت ریاستی جبر کے خلاف ایک انسانی و اخلاقی فریضہ ہے، بلوچ قوم شہداء کے لہو اور اپنی مٹی کی خوشبو کے ساتھ، آزادی، انصاف اور برابری کے خواب کو حقیقت بنانے کے سفر میں ہے اور یہ سفر جاری رہے گا۔
تاریخ کے اوراق ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ جب کوئی قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے تو اس کی فطری جبلت اسے مزاحمت اور آزادی کی طرف لے جاتی ہے۔ بلوچ قوم بھی اسی تسلسل کی ایک زندہ مثال ہے۔ آج جب پاکستان بطور نوآبادیاتی ریاست اور اس کے مقامی گماشتے بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے ہر حد پار کرچکے ہیں، تو بلوچ سرزمین پر ایک نئی انقلابی روح جنم لے رہی ہے۔ بظاہر قابض ریاست اور اس کے دلال یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچ ان کے ساتھ ہیں، مگر زمینی حقائق ان کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ بلوچ قوم نے اپنی لازوال قربانیوں سے تاریخ کے جبر کو للکارا ہے، اور اپنے لہو سے مزاحمت کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔
نوآبادیاتی تاریخ ہمیشہ یہی بتاتی ہے کہ جب قابض قوتیں اپنے اقتدار کو زوال کی طرف جاتا دیکھتی ہیں تو وہ مختلف حربوں سے مقبوضہ قوموں کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ برطانوی سامراج نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کا جو فارمولا ہندوستان میں استعمال کیا تھا، پاکستان آج بلوچستان میں اسی پالیسی کو بروئے کار لا رہا ہے۔برادریوں میں نفرت، قبائلی دشمنیاں، فرقہ واریت، اور خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کر کے قابض اپنے قبضہ کو طول دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر سامراج جب زوال کے آخری مرحلے میں پہنچتا ہے تو اس کے حربے بھی عریاں اور کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اور اس کے مقامی دلال آج اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔
بلوچ قوم کے اندر برادریوں کی بنیاد پر جھگڑے، علاقائی اور قبائلی نفرتیں، مصنوعی دشمنیاں درحقیقت استعمار کے پالے ہوئے منصوبے ہیں۔ یہ کھیل دراصل قابض قوت کے ان آخری ہتھکنڈوں میں شامل ہے جن کے ذریعے وہ تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بلوچوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپسی نفرت کی آگ کو بجھائے بغیر استعمار کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانا ممکن نہیں۔ برادر کشی، آپسی جنگیں، اور قبائلی چپقلشیں تحریک کے لئے زہر قاتل ہیں۔ اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان، دانشور، سفید ریش اور تمام۔ مکاتب فکر قومی شعور کے ساتھ ان تمام دیواروں کو توڑیں جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کر رہی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ بلوچ قوم اپنے قومی جہد کاروں کو گلے لگائے، ان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے ایک انقلابی وحدت تشکیل دے۔جہد آزادی کوئی علاقائی مسئلہ نہیں، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ہر بلوچ پر یہ فرض ہے کہ وہ دشمن اور اس کے گماشتوں سے مکمل لا تعلقی اختیار کرے اور اپنی توانائیاں تحریک آزادی کی سمت مرکوز کرے۔
ہر استعمار جب اپنے زوال کی آخری حدوں پر پہنچتا ہے تو پاگل پن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان بھی اسی کیفیت میں ہے۔ بلوچ زمین پر بے تحاشہ فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیاں، جعلی مقابلے، قتل و غارت گری، اور بربریت دراصل اسی آخری مرحلے کا اظہار ہے۔لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جبر سے قوموں کے اندر خوف پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید ابھرتی ہیں۔ بلوچ بھی اب اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے دل میں خوف کی جگہ آزادی کی تڑپ نے لے لی ہے۔ اب دشمن جتنا بھی خون بہا لے، وہ بلوچ کی تحریک کو ختم نہیں کرسکتا
استعمار نے بلوچستان میں جو تباہی پھیلائی ہے، اس کا ازالہ محض آزادی ہے۔ بلوچ قوم اس وقت اپنی بقاء، آزادی اور شناخت کے سوال پر کھڑی ہے۔ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ معمول کا دور نہیں، یہ قومی بقاء اور آزادی کا فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ دشمن کی چالوں کو سمجھے، اپنے اندر وحدت پیدا کرے، اور اپنے مزاحمتی کاروان کو اور مضبوط بنائے۔
قابض ریاست اور اس کے گماشتے اپنی ذلت کے گہرے کنویں میں گرنے والے ہیں۔ بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی آزادی تحریک کا ساتھ دیں اور یہ ثابت کرے کہ ظلم، جبر، غلامی نسل کشی اور خونریزی کا واحد جواب ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان ہے۔