بلوچ سماج پر نوآبادیاتی ذہنیت کے پینترے اور ہتکھنڈے!

تحریر؛ رامین بلوچ (دوسرا حصہ)
زرمبش مضمون

بلوچ سماج پر جب نوآبادیاتی سامراجی نظام مسلط ہوا، تو اس کے ساتھ ہی عورت کے مقام پر بھی حملہ کیا گیا۔ سامراج نے اپنے مذہبی اور ثقافتی ایجنڈے کے تحت عورت کو چار دیواری میں قید کرکے سماج کے تخلیقی اور مزاحمتی محور سے کاٹنے کی سازش کی۔ بلوچ عورت کو، جو کبھی قوم کی رہنما، صلح کی ضامن، علم کی محافظ اور مزاحمت کی علمبردار تھی، نوآبادیاتی نظام نے اس کردار سے محروم کرنے کی کوشش کی۔
بلوچ سماج میں عورت صرف صنفی وجود نہیں، وہ تخلیق کا استعارہ، مزاحمت کی علامت اور محبت کا سرچشمہ ہے۔ وہ زمین کی مانند صابر بھی ہے اور آسمان کی طرح بلند بھی۔ اس کی مسکراہٹ میں انقلاب کی گونج ہے اور اس کی آنکھوں میں ایک ایسا خواب جو محکومیت کے ہر طلسم کو توڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔عورت کو جب تک اس کے تاریخی مقام سے محروم رکھا جائے گا، سماج خود بھی اپنی تخلیقی اور مزاحمتی روح سے محروم رہے گا۔

تاریخِ بلوچ کو جب ہم کسی استعماری یا دقیانوسی عینک کے بغیر دیکھتے ہیں، تو وہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مدافعتی جنگ کے ساتھ ساتھ محبت، رومانویت، جمالیات اور نسوانی احترام کی ایک خوبصورت تہذیب کے طور پر نظر آتی ہے۔ بلوچ تاریخ محض جنگوں اور مزاحمت کی کہانی نہیں، بلکہ یہ عشق، جمال، محبت اور انسان دوستی کے فطری مظاہر کی سرزمین بھی ہے۔بلوچ سماج میں عورت صرف "عورت” نہیں، وہ زندگی کی سرشت ہے، عشق و محبت کی علامت ہے، سماج کی روح ہے۔
بلوچ تاریخ کے اوراق جب ہم کھولتے ہیں تو عورت ہمیں ماں کی صورت میں،حانی کی وفا میں،سسی کے انتظار میں،سمو کی عزت میں،ماہ گل کی رفاقت میں،گراہناز کے عہد کی پاسداری میں ملتی ہے۔یہ تمام داستانیں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ بلوچ سماج نے عورت کو قید کرنے کی نہیں بلکہ اسے محبت، آزادی، عزت اور سماجی مرکزیت دینے کی روایت قائم کی۔یہی بلوچ سماج کا وہ پہلو ہے جو سامراجی ونوآبادیاتی سوچ کے لیے ناقابلِ برداشت رہاہے۔
بلوچ تاریخ میں محبت اور رومانوی داستانیں محض قصے نہیں، بلکہ یہ ایک فلسفہِ حیات ہیں۔حانی و شہ مرید،سسی و پنوں،سمو و مست توکلی،شہداد و ماہناز، للہ و گراہناز۔بی برگ و ملی، عزت و مہرک، بیورغ، گراناز، ماہ گل و شیر جان،حمل و ماہ گنج، بی برگ سدو، شلی و حسن یہ سب عشق کے استعارے ہیں جو بلوچ قوم کے جمالیاتی شعور کا حصہ بن گئے۔بلوچ قوم کی نفسیات میں محبت اور حسن پرستی کوئی خارجی عنصر نہیں بلکہ اس کی فطرت کا حصہ ہے۔یہ وہ عشق ہے جو انسان اور فطرت کے بیچ ایک مقدس تعلق کو جنم دیتا ہے۔
اگر بلوچ تاریخ میں غیرت کے نام پر قتل کا کوئی تصور ہوتا تو مست توکلی کب کا قتل ہو چکا ہوتا۔سمو کے شوہر کو علم تھا کہ مست اس کی بیوی سے محبت کرتا ہے، مگر بلوچ سماج نے نہ تو مست کو سزا دی، نہ سنگسار کیا، نہ ہی اسے بے عزت کیا، بلکہ اسے صوفیانہ عشق کے مقام پر بٹھایااگر
بلوچ سماج نے عورت پر جبر روا رکھنا ہوتا تو سسی پنوں کی محبت کی وہ داستانیں صدیوں سینہ بہ سینہ منتقل نہ ہوتیں۔
بلوچ قوم کی تاریخ کوجب ہم تہذیبی، سماجی اور ادبی زاویے سے دیکھتے ہیں تو اس کے دو درخشندہ پہلو واضح نظر آتے ہیں؛
ایک طرف مزاحمت، حریت اور وطن سے محبت کا بے مثال جذبہ،اور دوسری طرف جمالیات، محبت، نسوانی آزادی، اور رومانویت کا وہ روشن باب جو بلوچ روح میں گہرائی تک پیوست ہے۔یہ محض داستانیں نہیں، بلکہ بلوچ سماج کی وہ زندہ روایتیں ہیں جو صدیوں سے نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں۔ ان روایتوں میں بلوچ عورت نہ صرف تخلیق کی علامت ہے بلکہ وہ رومانویت، محبت، دوستی، ایثار، اور سماجی خودمختاری کا جیتا جاگتا استعارہ بھی ہے۔
حانی و شہ مرید کی کہانی صرف محبت کی داستان نہیں، یہ نسوانی عزت اور مردانہ غیرت کے جدید تصور کی جھلک بھی ہے، جس میں عورت ایک معزز رفیق، ایک خودمختار انسان اور محبت کے فیصلوں میں شریک کار نظر آتی ہے۔سسی و پنوں کی کہانی میں ایک بلوچ عورت کا عشق اور خودداری نظر آتی ہے، جو اپنے حق محبت کے لیے صحرا کی پیاس برداشت کرتی ہے مگر جھکتی نہیں۔
سمو و مست توکلی کی داستان میں بلوچ معاشرے کی وہ وسعت قلبی اور شعوری آزادی نظر آتی ہے جس میں عشق کو جرم نہیں بلکہ ایک فطری کیفیت سمجھا جاتا ہے۔ بلوچ سماج کی یہ رومانوی داستانیں گواہی دیتی ہیں کہ بلوچوں کے ہاں عورت کو محبت کرنے، انتخاب کرنے اور انکار کرنے کا حق حاصل تھا۔
بلوچ معاشرہ میں ماضی قریب کے زمانوں میں محبت اور رومانویت بلوچوں کی زندگی کا وہ حصہ تھا جس پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ محبت کو جرم بنانا، غیرت کے نام پر قتل، یا سیاہ کاری جیسے تصورات بلوچ معاشرے میں بیرونی سامراجی حملہ آوروں کے بعد آئے۔
پنجابی نوآبادیاتی نظام، ملائیت، فرسودہ قبائلی سرداری نظام اور برطانوی سامراج کے اثرات سے پہلے بلوچ سماج میں انسان کو قتل کرنا ناقابل تصور تھا۔بلوچ فطرت سے محبت کرتا ہے؛ اس کے ہاں قتل و غارت گری کا کوئی مقام نہیں تھا۔بلوچ تہذیب میں غیرت کے نام پر قتل یا عورت کی محبت کو جرم قرار دینا استعماری اثرات کا نتیجہ ہے۔جب بیرونی حملہ آوروں نے بلوچ سماج پر قبضہ کیا تو انہوں نے مذہبی ٹھیکیدار، سرداری نظام اور پدرسری جبر کے ذریعے ایسی روایات پیدا کیں جو بلوچ تہذیب کی روح سے متصادم تھیں۔
آج اگر کسی بلوچ علاقے میں غیرت کے نام پر قتل ہوتا ہے تو وہ بلوچ روایت نہیں، بلکہ سامراجی باقیات، سرداری جبر اور ریاستی آلہ کاروں کے زیر سایہ پروان چڑھی ہوئی قبائلی رجعت پسندی ہے، جسے بلوچ قومی شعور رد کرتا ہے۔

بلوچ قوم کا جمالیاتی شعور محض عشق و محبت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک کائناتی تصور ہے۔یہ کائناتی تصور بلوچ کے فطری مزاج سے جڑا ہے، ان سب میں محبت ایک روحانی تجربہ ہے،جس میں عورت محض جسم نہیں، بلکہ محبت، وفا، دوستی، ایثار اور سماجی ہم آہنگی کی علامت ہے۔
یہ داستانیں صرف دل بہلانے کے قصے نہیں بلکہ بلوچ سماج کے شعوری ارتقاء کی علامت ہیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ بلوچ قوم محبت، وفا، مہمان نوازی، اور نسوانی آزادی کو بنیادی انسانی قدر سمجھتی تھی اور سمجھتی ہے۔

، بلوچ تاریخ میں ہمیں ایک روشن سماجی نمونہ ملتا ہے جس میں عورت کو محبت کرنے، اپنے فیصلے کرنے، اور اپنی زندگی کو جینے کا حق حاصل تھا۔
یہی وہ پیغام ہے جو بلوچ قوم کے جمالیاتی شعور اور فکری ورثے میں آج بھی زندہ ہے۔محبت، آزادی اور مزاحمت یہی بلوچ سماج کے اصل ستون ہیں۔یہ سب رومانوی داستانیں خود ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ بلوچ سماج میں محبت جرم نہیں، بلکہ ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔بلوچوں کی سرزمین پر جب تک استعماری و ملا پرستی کی یلغار نہیں ہوئی تھی، تب تک بلوچ سماج فطری اصولوں پر چلتا تھا۔انسان انسان سے محبت کرتا تھا،عورت آزاد تھی،عشق پر کوئی قدغن نہ تھی،سماج میں قبیح رسوم کا وجود نہ تھا۔استعماری ذہنیت نے جب بلوچ سماج کو زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ اس کے عشق، محبت، عورت کی آزادی اور جمالیاتی شعور پر بھی حملہ کیا۔غیرت کے نام پر قتل، عورت کی قید، محبت پر پابندی—یہ سب دراصل نوآبادیاتی نظام اور مذہبی ملا پرستی کے تحفے ہیں، بلوچ تاریخ اورتہذیب سے ان کا کوئی رشتہ نہیں۔

بلوچ سماج کی روایتوں میں جہاں وطن، سرزمین، غیرت، حریت اور مہمان نوازی کو بنیادی اقدار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، وہاں عشق، محبت اور نسوانی رومانویت بھی بلوچ تاریخ کے بنیادی مزاج کا حصہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچ قوم نے اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کو صرف ایک صنفِ نازک کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی کردار کے حامل انسان کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ بلوچ عورت اپنی جنگی کارگزاریوں سے لے کر رومانوی داستانوں تک ایک جیتی جاگتی حقیقت کے طور پر بلوچ تاریخ میں موجود رہی ہے۔
بلوچ عورت کو تاریخ میں عزت و احترام کے ساتھ ساتھ سماجی آزادی بھی حاصل رہی ہے۔ وہ جنگ میں شریک ہوتی رہی، قبیلے کی سربراہ بنتی رہی، اور محبت کے اظہار میں بھی اپنی مرضی کی مالک رہی۔
حانی و شہ مرید کی داستان ہو یا سسی پنوں کی دل دہلا دینے والی محبت، سمو و مست توکلی کا عقیدت بھرا عشق ہو یا ماہ گل و شیر جان کی رومانوی حکایت، یہ سب بلوچ سماج کے اس جمالیاتی اور رومانوی تصور حیات کی علامتیں ہیں جن میں عورت کو معاشرے نے اظہار محبت اور انتخابِ عشق کا مکمل حق دیا۔سمو و مست توکلی کی کہانی تو بلوچ رومانویت کی معراج ہے۔
اگر غیرت کے نام پر قتل بلوچ سماج کی روایت ہوتی،اگر یہ رسم بلوچ معاشرتی نظام کا حصہ ہوتا تو دوستین و شیریں کو سنگسار کیا جاتا، مگر بلوچ روایت میں محبت، عشق اور اظہار کو جرم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے انسانی جذبے کی ایک فطری اور لازمی کیفیت سمجھا جاتا تھا۔
بلوچ تاریخ میں بے شمار رومانوی داستانیں ملتی ہیں جو نہ صرف محبت بلکہ عورت کی سماجی آزادی کا بھی مظہر ہیں۔ ان میں سے کچھ داستانیں تحریری صورت میں محفوظ ہیں اور ہزاروں صرف سینہ بہ سینہ بلوچ سماج میں زندہ ہیں۔یہ تمام داستانیں بلوچ سماج کے اس جمالیاتی مزاج کی نمائندگی کرتی ہیں جہاں عورت کو نہ صرف محبت کا حق دیا گیا بلکہ اس کے عشق کو ایک ادبی، ثقافتی اور تاریخی حوالہ بنا کر محفوظ رکھا گیا۔
بلوچ تاریخ کے مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ سماج میں غیرت کے نام پر قتل کا کوئی رواج نہ تھا۔یہ فرسودہ روایت نوآبادیاتی ریاست اور ان کے گماشتوں کی دین ہے۔ انگریز سامراج نے جب بلوچ سماج پر اثرانداز ہونا شروع کیا، ساتھ ہی مذہبی انتہاپسندی اور قبائلی
سرداروں کی خودغرضی نے مل کر بلوچ معاشرت میں ان رسوم و رواج کو جنم دیا جو بلوچ فطرت اور روایات کا حصہ نہیں تھے۔بلوچ تصور حیات میں یہ سوچ موجود ہی نہ تھی کہ کوئی مرد یا عورت محبت کرے تو اس کا قتل جائز ہے۔بلوچ فطرت میں محبت ہے، عشق ہے، جمالیات ہے، حسن کی قدر ہے، شاعری ہے، سنگیت ہے، یہ ایک زندہ دل، قدرت دوست، انسان دوست اور رومان پسند قوم ہے۔
یہ بات بہت کم بیان کی جاتی ہے کہ بلوچ مزاحمت میں بھی عشق شامل رہا ہے۔بلوچ جب اپنی زمین کی حفاظت کرتا ہے تو یہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں بلکہ اپنی سرزمین کے ساتھ عشق کا اظہار ہے۔جب بلوچ اپنی آزادی، شناخت، زبان، ثقافت، ماں، بہن، محبوبہ اور بیٹی کے لیے جان قربان کرتا ہے تو اس کے پیچھے ایک جمالیاتی اور روحانی عشق کارفرما ہوتا ہے۔اسی لیے بلوچ کے ہاں عشق، مزاحمت، رومانویت، جنگ اور امن ایک دوسرے سے جدا تصورات نہیں بلکہ ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں۔بلوچ معاشرت میں جمالیات، محبت اور مزاحمت الگ الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔بلوچ کا عشق محض ذاتی خواہش نہیں بلکہ جبر کے خلاف مزاحمت بھی ہے۔یہ عشق وحشی بیرونی حملہ آوروں کے سامنے بلوچ فطرت و تہذیب کی حفاظت ہے۔بلوچ کی محبت کا تصور انسان دوستی، آزادی اور جمالیات کا استعارہ ہے
۔بلوچ معاشرت میں محبت اور مزاحمت دراصل ایک ہی تہذیبی وحدت کے مختلف پہلو ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

قابض پاکستانی فوج ایک اہلکار کو ہلاک، دو آلہ کاروں کو سزائے موت دے دی – بی ایل اے

منگل جولائی 22 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا ہے کہ سرمچاروں نے تفتان میں قابض پاکستانی فوج کے ایک اہلکار کو ہلاک کردیا جبکہ کوئٹہ اور مستونگ سے زیرحراست آلہ کاروں کے سزائے موت پر عمل درآمد کی گئی۔ ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ