
تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون
سات جولائی 2025 کی شب کو تربت کے علاقے آپسر میں تربت سول سوسائٹی کے متحرک کنوینر، ممتاز سیاسی کارکن گلزار دوست کو ان کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، اور سیاسی، سماجی، طلبہ و انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید بے چینی اور غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔
گلزار دوست کی گرفتاری، ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ بلوچستان میں اختلافِ رائے کو جرم، اور باشعور سیاست کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
گلزار دوست کو 14 گھنٹے تک لاپتہ رکھنے کے بعد 8 جولائی 2025 کو تربت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت میں گلزار دوست کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا گیا۔ ان کے چہرے پر تھکن نمایاں تھی مگر ان کی آنکھوں میں وہی پرعزم چمک تھی، جو ہمیشہ بلوچستان کے سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کا نشان رہی ہے۔
ان پر متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں اشتعال انگیز تقاریر، ریاستی اداروں کے خلاف بیانات اور امن و امان کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات شامل ہیں۔ تاہم ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ گلزار دوست کو بے بنیاد اور سیاسی انتقام کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک پرامن شہری، جو عوامی اجتماعات میں اپنی قوم کے دکھ، لاپتہ افراد، ماورائے عدالت قتل، اور آئینی حقوق کی بات کرتا رہا، کیا وہ ملک کے لیے خطرہ بن گیا؟ اگر اظہارِ رائے اور سوال اٹھانا اشتعال انگیزی ہے تو پھر آئین میں درج "آزادیِ اظہار” محض سیاہی ہے یا ایک کھوکھلا دعویٰ ہے؟
گلزار دوست کا تعلق بلوچستان کے ان نوجوان سیاسی کارکنان کی صف سے ہے جنہوں نے شعور کی روشنی میں سیاست کا آغاز کیا۔ وہ اپنے طالبعلمی کے دور سے ہی بلوچستان کے مسائل پر متحرک رہے۔ ان کی تقریریں، تحریریں، اور عوامی جدوجہد ریاستی جبر، جبری گمشدگیوں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک توانا آواز رہی ہیں۔
گلزار دوست کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تجابان سے ہے۔ لیکن وہ آج کل تربت کے علاقے آپسر میں رہتے ہیں۔ ان کا علمی سفر بلوچستان یونیورسٹی تک پہنچا، جہاں انہوں نے ماس کمیونیکشن اور پولیٹیکل سائنس میں ڈبل ایم اے کیا۔ یہ ڈگریاں ان کی علمی قابلیت کا ثبوت ضرور ہیں، مگر اصل علم انہوں نے بلوچستان کی گلیوں، جلسوں، اور قید خانوں سے حاصل کیا۔ وہ علم جو کتابوں سے زیادہ، مزاحمت سے جُڑا ہوتا ہے۔
ان کا شعوری سفر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے پلیٹ فارم سے شروع ہوا۔ وہ بی ایس او آزاد تربت زون کے صدر رہے، جہاں انہوں نے بلوچ طلبہ میں شعور، سیاسی آگاہی، اور تنظیم سازی کو فروغ دیا۔
بعدازاں، وہ بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی آر ایس او) کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر شدید ریاستی دباؤ تھا، اور طلبہ سیاست کو خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔
گلزار دوست نے ان حالات میں اپنی قیادت سے ثابت کیا کہ شعور کا راستہ کٹھن ضرور ہوتا ہے، مگر قوموں کی تقدیر اسی راہ سے سنورتی ہے۔
بلوچستان میں بڑھتی ریاستی سختی، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت کارروائیوں کے باعث انہیں بھی اپنا وطن (بلوچستان) چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے دبئی، قطر، مسقط، کویت اور بحرین میں روپوشی کی زندگی گزاری۔
لیکن یہ جلاوطنی وقتی تھی، کیونکہ گلزار دوست کا دل بلوچستان کی مٹی سے بندھا تھا۔ سنہ 2016 میں وہ واپس بلوچستان آ گئے۔
واپسی کے بعد، گلزار دوست نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کیا۔ وہ تربت سول سوسائٹی کے کنوینر بنے اور بلوچ عوامی حقوق کی جدوجہد کو نئی جہت دی۔
گلزار دوست کی گرفتاری دراصل ایک پیغام ہے۔ ان سب کے لیے جو بلوچ حقوق کی بات کرتے ہیں، جو آئین و قانون کی روشنی میں پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
ایک جانب حکومت قومی مفاہمت کی بات کرتی ہے، دوسری جانب زمینی حقائق ہر روز اس مفاہمت کے دعوے کو جھٹلا دیتے ہیں۔
گلزار دوست کی فوری رہائی اور ان کے ساتھ شفاف قانونی سلوک کا مطالبہ صرف ان کے خاندان یا ساتھی کارکنان کا نہیں، بلکہ بلوچستان کے باشعور طبقے کا اجتماعی مطالبہ ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار، وکلا، صحافی اور سیاسی جماعتیں اس گرفتاری کو آزادیِ اظہار پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔
اگر حکومت چاہتی ہے کہ بلوچ نوجوان شدت پسندی سے دور رہیں، تو ضروری ہے کہ ان کی آواز کو سنا جائے، ان کے سوالات کو دبانے کے بجائے ان پر بحث کی جائے، اور باشعور قیادت کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔
گلزار دوست کی گرفتاری سے وقتی طور پر ایک آواز خاموش کی جا سکتی ہے، لیکن ان جیسے نوجوانوں کا جذبہ، ان کی سوچ، اور ان کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان کا مسئلہ گولی یا جیل سے نہیں، سیاسی مکالمے، اعتماد سازی اور آئینی برابری سے حل ہوگا۔
گلزار دوست کی جدوجہد کا ایک ناقابلِ فراموش باب ان کا "پاد شپاد” مارچ (ننگے پاؤں مارچ) ہے۔ یہ مارچ انہوں نے ستائیس فروری 2022 کو کیچ سے کوئٹہ تک ننگے پاؤں طے کیا تھا۔ ایک ایسی علامتی و حقیقی مزاحمت، جس میں ہر قدم سوال تھا۔
ان کے مطالبات کسی ذاتی مفاد پر مبنی نہ تھے۔ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ چاہتے تھے، لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے، اور بلوچ نوجوانوں کو تباہ کرتی منشیات کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔
وہ بلوچ زمینوں پر جبراً قبضے کے خلاف کھڑے تھے، چاہے وہ گوادر ہو یا کراچی ہو یا بولان، ہاؤسنگ اسکیم ہو یا اکنامک زون، وہ ہر اس سازش کے خلاف تھے جو بلوچ کی شناخت اور زمین کو مٹانے پر تلی ہے۔
ان کا مارچ محض ایک علامتی سفر نہ تھا، اس نے مکران، جھالاوان، سراوان اور شال کو سیاسی طور پر جھنجھوڑا۔ بلوچستان کی گلیوں، بازاروں اور چوکوں میں لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا، پانی پلایا، اور ان کی بات سنی، ایک ایسے وقت میں جب خاموشی کو رضامندی سمجھا جا رہا تھا۔
جب یہ مارچ ختم ہوا، اور گلزار دوست واپس تربت پہنچے، تو حکومتی ادارے ان کے استقبال کے لیے تیار تھے، گرفتاری کے ساتھ۔ ان پر مقدمات قائم کیے گئے، قید کیا گیا، اور آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ قید سے ٹوٹنے والے نہیں تھے۔ وہ رہا ہوئے، اور ایک بار پھر میدان میں آ گئے۔
سنہ 2023 میں جب تربت میں نوجوان بالاچ بلوچ کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا، تو گلزار دوست نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ صرف ایک کارکن نہیں، ایک کارواں ہیں۔ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، واجہ صبغت اللہ شاہ جی، کامریڈ وسیم سفر، اور درجنوں نوجوانوں کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے۔ وہ مارچ، جو تربت سے نکل کر کوئٹہ، پھر تونسہ اور اسلام آباد تک گیا، بلوچ تحریک کی تاریخ میں ایک سنگِ میل بن گیا۔
اس مارچ نے دنیا بھر کی میڈیا، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ حکومت کو بھی پسپا ہونا پڑا۔ لیکن جیسے ہی کارواں واپس ہوا، ایک بار پھر گرفتاریوں، مقدمات، اور انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
گلزار دوست وہ نام ہے جو نہ تھکا ہے، نہ جھکا ہے، نہ بکا ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں وہ سب کچھ برداشت کیا ہے جو ایک باشعور بلوچ کارکن کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
گلزار دوست کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مزاحمت، اگر ننگے پاؤں بھی ہو، تو تاریخ کے پتھریلے راستوں پر نشان چھوڑ جاتی ہے۔ وہ نشان جنہیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔ اور جب تک ایسے قدم اٹھتے رہیں گے، بلوچ قوم کی اجتماعی آواز دب نہیں سکتی۔