ہم سب آمنہ بلوچ ہیں

تحریر: عزیز سنگھور
زرمبش مضمون

بلوچستان کے نوجوانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنا، ان کی آواز کو بندوق کی نالی سے دبانا اور ان کی شناخت کو مٹا دینا حکومتی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ پنجگور کے نوجوان ذیشان ظہیر بلوچ کا ماورائے عدالت قتل اسی سفاک سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے اور اس کے خلاف کراچی کے علاقے لیاری میں ہونے والا احتجاج نہ صرف غم و غصے کا اظہار تھا، بلکہ بلوچ عوام کی مزاحمتی روح کی ایک تازہ جھلک بھی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقدہ اس پرامن احتجاجی واک پر سرکاری اداروں نے جس بے رحمی سے دھاوا بولا، وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے شہری حقوق، آزادی اظہار اور پُرامن اجتماع کا حق محض آئینی کتابوں میں درج رہ گیا ہے۔ لیاری کے 8 چوک سے چاکیواڑہ تک پرامن طریقے سے مارچ کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے نہ صرف لاٹھی چارج کیا، بلکہ بانک آمنہ بلوچ سمیت 8 کارکنان کو حراست میں لے کر رسالہ تھانے منتقل کر دیا گیا۔

آمنہ جو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی بانی آرگنائزر رہ چکی ہیں، جنہوں نے مشکل ترین حالات میں تنظیم کو فعال کیا، آواز کو نظریہ دیا، اور بلوچ نوجوانوں کو شعور کی طاقت سے منسلک کیا۔ وہ آواز جو لاپتہ افراد کی بازیابی کی گونج بن کر نکلی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب بلوچ مزاحمت کو زبردستی خاموش کرانے کی کوشش کی گئی ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آوازیں جیلوں میں بند ہو جاتی ہیں؟ کیا ماہ رنگ، بیبو، گلزادی، یا شاہ جی کی آوازیں قید ہوئیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ آوازیں، جتنی دبی، اتنی ہی گونج دار ہوئیں۔

ذیشان ظہیر کے قتل کے خلاف مظاہرہ کرنا کسی جرم کے زمرے میں کیسے آ گیا؟ کیا کسی نوجوان کے لیے انصاف مانگنا بغاوت ہے؟ اگر ہاں، تو پھر ہر مظلوم آواز، ہر ماں، ہر بہن، ہر کارکن باغی ہے۔ اور اگر باغی ہونا ظلم کے خلاف بولنے کا نام ہے، تو یہ بغاوت ہر گھر میں پروان چڑھ چکی ہے۔

بانک آمنہ صرف ایک سیاسی کارکن نہیں، وہ مظلوم ماؤں کی امید ہیں، لاپتہ افراد کی آواز ہیں، اور اس نسل کی نمائندہ ہیں جو ذاتی نقصان کے باوجود اجتماعی جدوجہد کا علم تھامے ہوئے ہے۔ ان کی گرفتاری ایک علامتی واقعہ ہے۔ ایک عورت جو نہ بندوق رکھتی ہے، نہ طاقت، صرف ایک پوسٹر، ایک نعرہ رکھتی ہے، اسے سرکاری طاقت سے خاموش کرانے کی کوشش، خود سرکار کی کمزوری کو بے نقاب کرتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ ذیشان ظہیر جیسے نوجوانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، اور یہ بھی سچ ہے کہ بانک آمنہ جیسے لوگ قید ضرور ہو سکتے ہیں، مگر ان کے نظریات اور ان کی جدوجہد کو کوئی طاقت زنجیروں میں نہیں جکڑ سکتی۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے جب سندھ پولیس نے بانک آمنہ پر ہاتھ ڈالا ہو۔ سندھ اسمبلی کے سامنے جب لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے خواتین، طلبہ، بزرگ اور بچے سراپا احتجاج تھے، تو آمنہ بلوچ سمی دین بلوچ، کامریڈ نغمہ، ہزاران رحیم اور دیگر درجنوں افراد کے ساتھ حراست میں لی گئیں۔ ان مظاہرین کا جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ وہ حکومت سے سوال کر رہے تھے کہ "ہمارے پیارے کہاں ہیں؟”

پھر کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہرے بھی آمنہ کے لیے خطرناک قرار دیے گئے۔ آوازیں دبانے کی کوششوں میں صرف لاٹھی چارج نہیں کیا گیا، گرفتاریوں سے خوف کا ماحول پیدا کیا گیا۔ مگر آمنہ بلوچ نہ ڈری، نہ جھکی۔

ان کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہمیشہ ایک قابلِ احترام ساتھی رہے، لالہ وہاب بلوچ۔ وہ لالہ جو آمنہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا اور آج تک چل رہا ہے، اور وہ کامریڈ نغمہ، جو آج برطانیہ میں مقیم ہے، مگر ان کے نظریاتی اور تنظیمی تعلقات آج بھی زندہ ہیں۔ نغمہ اور آمنہ صرف دو کامریڈ نہیں، بلوچ بیٹیوں کے اُس قافلے کی نمائندہ ہیں جو جبر کے خلاف بہادری کی علامت بن چکی ہیں۔

آمنہ بلوچ کی گرفتاری کوئی حادثہ نہیں یہ ایک منصوبہ بند پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد پُرامن تحریکوں کو جرم بنا کر پیش کرنا ہے۔ یہ گرفتاری دراصل اُس سوچ کو قید کرنے کی کوشش ہے جو بلوچ نوجوانوں کو شعور، اتحاد، اور نظریہ فراہم کرتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا انٹ سنٹ (babbling)

جمعہ جولائی 4 , 2025
تحریر: رحیم ایڈووکیٹ بلوچزرمبش اردو پاکستانی فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل چودھری احمد شریف کا بی بی سی اردو سروس کو دیا ہوا بیان 27 جون 2025 کو شائع/ نشر کیا گیا جس میں بلوچستان کی صورتحال اور وہاں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ