"جب انصاف دفن ہو تو مزاحمت جنم لیتی ہے”

تحریر: زرمہر گوادری
زرمبش مضمون

گزشتہ دنوں سابق صدر پرویز مشرف نے سعودی عرب روانگی سے قبل اسلام آباد ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کا قتل اور لال مسجد کا واقعہ معمولی اور چھوٹی باتیں تھیں، اور یہ کہ ہمیں ماضی کی بجائے آگے دیکھنا چاہیے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی جرنیلوں نے جتنا ظلم اور قتلِ عام بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ کیا ہے، اتنا ظلم شاید نتین یاہو نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ نہیں کیا۔ بلوچستان کی معدنیات کی لوٹ مار سے لے کر سی پیک منصوبے تک، جس طرح پاکستانی جرنیلوں اور فوج نے بلوچ سرزمین کو استحصال کا نشانہ بنایا، ایسی ناانصافیاں شاید ہی کسی اور قابض ریاست نے کی ہوں۔

بلوچستان کے ساندک منصوبے میں تین ہزار سے زائد پنجابی برسرِ روزگار ہیں۔ ریکوڈک منصوبے میں بھی لگ بھگ اتنے ہی پنجابی روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں۔ لیکن جب یہی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جتنے وسائل بلوچستان پاکستان کو مہیا کر رہا ہے، کیا ان کا کوئی جائز معاوضہ بھی بلوچ عوام کو دیا گیا؟ تو جواب صرف خاموشی اور جبر کی صورت میں ملتا ہے۔ اگر پاکستانی جرنیلوں نے اتنا پیسہ ریاست کو مہیا کیا ہوتا جتنا بلوچستان سے نکالا جا رہا ہے، تو شاید آج پاکستان قرضوں میں نہ ڈوبا ہوتا۔

جب بلوچ باشعور طبقہ ریاستی جبر اور لوٹ مار کو دیکھ کر خاموشی توڑ کر آواز اٹھانے لگا، تو ریاست نے اس کا جواب گولی اور بم سے دیا۔ فوج نے بلوچ مزاحمت کاروں کو کاؤنٹر کرنے کے نام پر قتلِ عام شروع کر دیا، جو اب ایک منظم مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کیونکہ پاکستانی فوج نے بلوچستان میں ہمیشہ مذاکرات کی بجائے بندوق کی زبان کو ترجیح دی اور بات چیت کو کمزوری سمجھا۔

یہ ظلم صرف حال کا قصہ نہیں۔ ماضی میں بھی یہی جرنیلی فارمولا آزمایا گیا تھا اور آج بھی اسی راستے پر چلا جا رہا ہے۔ بندوق کی زبان نے ماضی میں بھی ناانصافی کی تھی اور آج بھی وہی کر رہی ہے۔

جب بھی ریاست نے بلوچستان میں اپنی قبضہ گیر پالیسیوں اور جبر کو جاری رکھا، بلوچستان میں مسلح مزاحمت میں شدت آتی گئی۔ بلوچ عوام، خاص طور پر نوجوان، اس جدوجہد میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے رہے۔ آج یہ حالت ہے کہ بلوچستان میں فوجی کارروائیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ہر دل‌عزیز بلوچ طالب علم کو جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے، اور ٹارچر سیلوں میں انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔

جب لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پُرامن احتجاج کرتے ہیں، تو ریاست ان مظلوم خاندانوں کو خاموش کرانے کے لیے فوجی وردی اتار کر پولیس کی وردی پہن لیتی ہے، اور ایف آئی آر، لاٹھی چارج، شیلنگ اور گرفتاریوں کے ذریعے اُن کی آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ریاستی ذہنی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ اب پاکستانی فوج عورتوں کے اغوا جیسے سنگین جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ بندوق کی زبان ہے جو نہ پہلے کبھی انصاف کی ضامن بنی، نہ آج ہے، نہ کل ہو گی۔

لیکن ہاں بندوق کی زبان کو ہمیشہ بندوق ہی سے جواب ملا ہے، اور ملتا رہے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

پنجگور: ذیشان ظہیر کے قتل کے خلاف احتجاجی ریلی اور خاموش واک

بدھ جولائی 2 , 2025
پنجگور کے علاقے خدابادان، مواچھ بازار میں پاکستانی فورسز کے حمایت آفتہ مسلح گروہ ڈیتھ اسکواڈ کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے ذیشان ظہیر کے قتل خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ریاستی دہشت گردی، ڈیتھ اسکواڈز اور فورسز […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ