
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو گئی، جب اسرائیلی فضائیہ نے تہران کے نواحی علاقوں میں واقع حساس جوہری تنصیبات پر زوردار حملے کیے۔ بین الاقوامی جوہری ادارے (IAEA) نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں کم از کم دو سینٹری فیوج مینوفیکچرنگ پلانٹس مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
ایرانی حکام کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 585 افراد ہلاک جبکہ 1,326 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد تہران سے محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے۔
دوسری جانب، ایران نے بھی اسرائیلی اہداف پر بھرپور جوابی کارروائی کی ہے، جس میں بیلسٹک میزائل، خودکش ڈرونز اور راکٹ حملے شامل تھے۔ اسرائیلی دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے داغے گئے 400 میزائلوں میں سے 90 فیصد کو فضاء میں ہی روک لیا گیا، تاہم بعض میزائل جنوبی اسرائیل کے شہری علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے، جن کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کو “دہشت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی” قرار دیا، جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے “غیر مشروط ہتھیار ڈالنے” کے مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا۔
آیت اللہ خامنہ نے کہا ہے کہ ایران کسی بیرونی طاقت کے سامنے جھکنے والا نہیں۔ امریکہ کی مداخلت پورے خطے کو آگ میں جھونک سکتی ہے۔”
روس، چین اور ترکی سمیت متعدد ممالک نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جبکہ امریکی بحری بیڑا خلیج فارس کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔