
تحریر: بالوو بلوچ
زرمبش مضمون
کوئٹہ کی ایک سرد رات تھی۔ بولان میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں نیم تاریکی تھی۔ راہداریوں میں سناٹا اترا ہوا تھا، جیسے فضا خود کسی آفت کا پیش خیمہ سن رہی ہو۔
اسی رات، ہاسٹل کے ایک کمرے کا دروازہ دھاڑ سے ٹوٹا۔
اور وہ ایاز بلوچ جو میڈیکل کی کتابوں میں اپنی ماں کے خواب تلاش رہا تھا اچانک نیند سے نہیں، زندگی سے اٹھا لیا گیا۔
نہ کوئی ایف آئی آر، نہ کسی عدالت کی پیشی۔ صرف وردی میں ملبوس سایے، جو خاموشی سے آئے تھے۔ جیسے انہیں صرف ایک ہی چیز درکار ہو: ایک بلوچ چہرہ۔
اندھیرے کی پہلی سیڑھی
ایاز کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔
اسے جیسے کسی بوجھ کی طرح گارڈ کے کندھے پر ڈال کر لے جایا گیا — ایک ایسے مقام پر، جہاں دن رات کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
جہاں دیواروں پر زنگ آلود ہتھکڑیاں لٹکی تھیں۔
فرش پر جما ہوا خون ایک پرانی چیخ کی طرح خاموشی سے سویا ہوا تھا۔
اور کونے میں کسی کی سسکیوں نے ایاز کا دل چیر دیا —
شاید وہ بھی صرف ایک طالبعلم تھا۔
"بول، کون ہے تُو؟”
پہلا دن — پہلا تھپڑ۔
"نام بتا۔ تعلق بتا۔ کون سکھاتا ہے تمہیں سوال کرنا؟”
ایاز نے صرف ایک جملہ کہا:
"میں طالبعلم ہوں… بس۔”
اور اس کے بعد وہ سلسلہ شروع ہوا جس کا کوئی ضابطہ نہیں،
کوئی قاعدہ نہیں — صرف اذیت، صرف نفرت۔
ہتھکڑیوں میں جکڑ کر چھت سے لٹکایا گیا،
جسم کے نازک حصوں پر بجلی کے جھٹکے،
پیر کے ناخنوں میں سوئیاں،
اور آنتوں میں پانی بھر کر پیٹ پر مکے۔
ایاز چیختا نہیں تھا — وہ صرف اپنی ماں کو یاد کرتا تھا۔
دن بہ دن، روح کا قتل
تیسرے دن ایک آواز آئی:
"تو بلوچ ہے نا؟ تو پہاڑوں سے آیا ہے نا؟”
ہر جملے کے ساتھ چمڑے کا بیلٹ،
ہر سوال پر تھوک، پیشاب، اور طنز سے لبریز قہقہے۔
جب وہ بے ہوش ہوتا، تو اس کے جسم پر پیشاب کیا جاتا۔
پھر اس کی آنکھ کھول کر سوال کیا جاتا:
"اب بھی ڈاکٹر بننا ہے؟”
"تیری ماں مر گئی ہے”
چھٹے دن، اذیت نے ایک نیا چہرہ پہن لیا۔
اب جسم نہیں، روح کو توڑنے کی باری تھی۔
اس کے سامنے ایک اور نوجوان کو برہنہ کیا گیا،
گرم دھاتی راڈ اس کے کان میں داخل کی گئی،
اور ایاز کو مجبور کیا گیا کہ وہ خود پر پیشاب کرے۔
پھر اس کے کان میں ایک ماں کی ریکارڈنگ سنائی گئی:
"بیٹا، گھر آ جا… تیری ماں مر گئی ہے۔”
یہ جھوٹ تھا۔
مگر اس جھوٹ نے ایاز کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔
ہنسی جو چیخوں سے زیادہ دردناک تھی
دسویں دن، ایاز نے چیخنا چھوڑ دیا۔
اب وہ صرف ہنستا تھا — ایک ایسا قہقہہ جو مرنے سے بدتر ہوتا ہے۔
اس کے بال کھینچے گئے، زبان پر استرا چلا دیا گیا،
اور ہڈیوں میں کیل ٹھونکی گئی۔
جب اسے آئینہ دکھایا گیا —
تو وہ خود کو پہچان نہیں سکا۔
قرآن کا توہین آمیز لمحہ
اٹھارہویں دن، اسے ایک قرآن پکڑایا گیا۔
کہا گیا:
"پڑھ، شاید تیرا خدا تجھے بچا لے…”
پھر وہی قرآن اس کے چہرے پر مارا گیا،
اور ہنسی آئی:
"تم لوگ خدا کی بات کرتے ہو؟ تم تو بلوچ ہو!”
واپسی؟ صرف جسم آیا
22 دن بعد، ایاز کو بولان کالج کے گیٹ پر پھینک دیا گیا۔
کپڑے پھٹے ہوئے تھے، جسم لہو لہان، اور آنکھیں ایسی خالی جیسے ان میں کوئی منظر باقی نہ ہو۔
اس کے دوستوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔
اور جب ماں نے دیکھا —
تو صرف اتنا کہہ سکی:
"یہ… میرا ایاز نہیں ہے…”
اذیت کا وہ علم جو ہر بلوچ دل پر نقش ہے
ایاز بچ گیا۔ مگر جس چیز نے مرنا تھا — وہ اندر ہی اندر دفن ہو چکی تھی۔
ٹارچر سیل وہ جگہ نہیں جہاں صرف ہڈیاں ٹوٹی ہوں،
وہاں انسان کی پہچان، خواب، اور سوال سب کچھ روند دیا جاتا ہے۔
بلوچ طالبعلم کا جرم کیا ہے؟
یہ صرف ایاز کی کہانی نہیں۔
یہ ان تمام بلوچ طالبعلموں کی کہانی ہے جو علم کی تلاش میں نکلے تھے — اور گمشدگی کی اندھیری گلیوں میں گم ہو گئے۔
شمبے، شبیر، سمیع اور ان جیسے ہزاروں چہرے۔
یہ سب کے سب وہ ایاز ہیں جنہیں صرف اس لیے اٹھایا گیا کیونکہ وہ سوچتے تھے۔ سوال کرتے تھے۔ اور بلوچ تھے۔
خاموشی مت اختیار کرو
اگر تم یہ پڑھ رہے ہو
تو خاموش مت رہو۔
کیونکہ کل شاید تمہاری آواز بھی
اسی قہقہے میں دفن ہو جائے
جو ایاز نے آخری دنوں میں لگایا تھا —
پاگل پن کا نہیں، بلکہ انسانیت کے زوال کا۔
ایاز بلوچ، ہر اس خواب کا نام ہے جو بلوچستان کی سڑکوں پر لاپتہ ہو چکا ہے۔