تحریر: رامین بلوچ
زرمبش مضمون

یکم جون محض کیلنڈر کا ایک عدد نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک ایسا باب اور فلسفہ ہے جو خون کی روشنائی سے لکھا گیا، جو قلم، دوات، شعور اور علم سے پروان چڑھا۔ یہ وہ دن ہے جو استاد کے گرتے لہو کے قطروں سے خاکِ وطن کو بوسہ دیتا ہوا مقدس بن گیا، اور جو شہادت کے مرحلے سے گزر کر امر ہو گیا۔
آج بلوچ وطن کے اس امرت دھار سے وعدہ وفا کرنے والے شہید پروفیسر صباء دشتیاری بلوچ کی چودھویں برسی ہے۔ چودہ برس بیت چکے، مگر صباء آج بھی زندہ ہیں اپنے روحانی نظریات، اپنے لہو کے شعور اور اپنی مزاحمتی زندگی کے تسلسل کے ساتھ۔
صباء ایک جذباتی شخص نہیں تھے۔ وہ مردِ آہن تھے، ایک مفکر، ایک شعلہ بیان مقرر، اور ایک نظریاتی مورچہ۔ ان کی برسی کا تقاضا محض ایک رسمی بیان یا اخباری آرٹیکل سے پورا نہیں ہو سکتا، جب تک ہم ان کے مشن، ان کی منزل، اور ان کی جدوجہد کو سمجھ کر اس پر عمل نہ کریں، اور ان کی شعوری مزاحمت کے تسلسل کو جاری نہ رکھیں۔
جب ہمارے سامنے صباء کا نام آتا ہے تو وہ کسی عام فرد کا حوالہ نہیں بنتا، بلکہ ایک متبرک اور مقدس استعارہ بن جاتا ہے۔ وہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان کے نظریات، ان کے آدرش، اور ان کی فکری تقدیس کے ساتھ ایک شعوری مزاحمتی جنگ کا آغاز کریں۔ صباء نے اپنی جدوجہد کی انتہا موت میں نہیں، بلکہ زندگی کی تجدید میں تلاش کی۔
صباء بلوچ ایک استاد تھے، مگر وہ محض سادہ و مجرد خیالات کے مبلغ نہ تھے۔ وہ علم کو نوآبادیاتی زنجیروں سے آزاد کرنے والے انقلابی مفکر تھے۔ ان کی تعلیم، ان کی تقریر، ان کی جرأت سب کچھ مزاحمت تھی۔ اور یہی مزاحمت ان کی شہادت کا محرک بنی۔
جب پاکستان کی ریاست نے یکم جون 2011 کو صباء کو گولیوں سے چھلنی کیا، تو نشانہ صرف ایک جسم نہیں تھا، بلکہ وہ ذہن تھا جو سوال کرتا تھا، وہ زبان تھی جو سچ بولتی تھی، اور وہ دل تھا جو وطن کی آزادی کے لیے دھڑکتا تھا۔ ایک نوآبادیاتی ریاست کے لیے یہ سب ناقابلِ برداشت تھا، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سوچنے والا انسان ہمیشہ جبر کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ صباء کی شہادت کا حق ہم تعزیتی تقریروں یا اخباری کالموں سے ادا نہیں کر سکتے۔ خراجِ عقیدت اب فیشن بن چکا ہے: تصویریں، دعائیں، رسمی جملے، اور پھر خاموشی۔ مگر صباء کے لہو کا تقاضا رسمی نہیں، انقلابی ہے۔ ان کی یاد ہمیں ان کے خون کے ساتھ ایک پیمان کا تقاضا کرتی ہے—ایک حلف کہ ہم ان کے نظریے سے وفا کریں گے، ان کی سوچ کو تھمنے نہ دیں گے، اور ان کے خواب کو ایک قومی نصب العین بنا کر زندہ رکھیں گے۔
صباء نے جو سوالات اٹھائے، وہ آج بھی زندہ ہیں، اور انہی سوالات میں ہماری قومی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ انہوں نے علم کو ریاستی وفاداری کا آلہ نہ بنایا، بلکہ قومی آزادی کا ہتھیار بنایا۔ ان کی درسگاہ ایک ایسا مورچہ تھی جہاں طلبہ کو محض کتب کی ورق گردانی نہیں سکھائی جاتی تھی، بلکہ تاریخ سے جبر کو پڑھنے اور مستقبل سے آزادی کو لکھنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
آج ہمیں صباء کے نام پر پرسہ نہیں لینا چاہیے، بلکہ لازم ہے کہ ہم ان کے فکر و فلسفے کی جزئیات پر غور کریں، ان پر عمل کریں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا: بحیثیت لکھنے والے، بحیثیت سیاسی کارکن، کیا ہم ان کے آدرش سے جڑے ہیں؟ کیا ہم ان کے لہو سے پھوٹنے والے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہم خود سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
ہمیں "صباء” کو ماضی کا ایک باب نہیں، بلکہ ایک جاری تحریک، ایک زندہ نظریہ، اور ایک روشن مستقبل کا استعارہ بنانا ہوگا۔ کیونکہ ہماری بقا تب تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے شہیدوں کے نظریات سے وفا نہ کریں، ان کے خون سے حلف نہ اٹھائیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا شعور ان کے خون سے بنا ہے، اور ہمارا ہر قدم ان کی قربانی کا مرہونِ منت ہے۔
جب تک ہم اپنی آزادی کو ان کے نظریاتی استقامت سے جوڑ کر نہیں دیکھیں گے، ہم نہ فکری طور پر آزاد ہوں گے، نہ سیاسی طور پر۔
صباء بلوچ ایک فرد نہیں، ایک تحریک کا تسلسل ہیں۔ ان کی شہادت ہمیں اس عہد کی یاد دلاتی ہے جہاں نوآبادیاتی نظام میں استاد محض پڑھانے والا نہیں، بلکہ قوم کا فکری معمار ہوتا ہے۔ جہاں علم بندوق کا متبادل نہیں، بلکہ اس کا رہنما ہوتا ہے۔ جہاں شہادت موت نہیں، بلکہ زندگی کی اعلیٰ ترین معنویت بن جاتی ہے۔
جس طرح لالا لاجپت رائے نے ہندوستان میں سامراج کو للکارا، اسی طرح صباء نے بلوچ قوم کی فکری و نظریاتی تربیت کی، اور ریاست کو للکارا کہ وہ قابض ہے، غیرملکی ہے، دشمن ہے۔ صباء نے ریاست کے کاسہ لیسوں، دلالوں اور گماشتوں کو للکارا کہ غداروں کی زندگی ان کی طبعی موت سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
زندگی اُن کی ہوتی ہے جو اگر چالیس سال بھی جییں، تو چالیس ہزار سال تک زندہ رہتے ہیں۔ مگر وطن فروش، غدار اور دلال، اگر سو سال بھی جیے، تو وہ مر چکا ہوتا ہے۔ تاریخ ان کی قبر پر، ان کی پیشانی پر، پھٹکار اور لعنت کرتی ہے۔
ہر قوم کی تاریخ میں ایک ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب علم، شعور اور جدوجہد کا کوئی ایسا کردار ابھرتا ہے جو وقت کی زنجیروں کو توڑ کر قوم کی اجتماعی یادداشت میں امر ہو جاتا ہے۔ استاد صباء دشتیاری بھی اسی تاریخی لمحے کا نام ہیں۔ وہ ایک ایسے فکری معمار تھے جنہوں نے علم کو ریاستی اداروں کے منبروں سے کھینچ کر مزاحمت کے مورچوں میں نصب کیا، اور زانت کو کتابوں کے سناٹوں سے نکال کر عوام کے لبوں پر رقم کر دیا۔ وہ صرف ایک استاد نہیں تھے، بلکہ علم کی وہ قندیل تھے جس نے بلوچ قومی تحریک کو سائنسی بنیاد، نظریاتی راستہ اور فکری ستون فراہم کیے۔
کسی بھی نوآبادیاتی نظام میں علم کو بے ضرر اور غیرسیاسی بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ مقتدرہ کے جبر کو جواز فراہم کر سکے۔ لیکن استاد صباء دشتیاری نے علم کو مزاحمت کا جوہر بنا دیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر علم آزادی سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ غلامی کی ایک اور شکل بن جاتا ہے۔ ان کے نزدیک زانت محض فلسفے، تھیوری یا شاعری کا نام نہیں، بلکہ ایک زندہ، حرکی اور انقلابی عمل ہے جو انسان کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ لڑنا بھی سکھاتا ہے۔ ان کی جدوجہد ایک ایسا شعور تھی جو مصلحت، خوف اور فکری افلاس کے خلاف مسلسل مزاحمت پر مبنی تھی۔
بلوچ سماج میں کئی ادیب اور مفکر ایسے بھی ہیں جنہوں نے علم اور ریاست کے بیچ مفاہمت کی راہ اپنائی، زانت کو بے ضرر اور ادب کو نوآبادیاتی "حب الوطنی” کا زر خرید نغمہ بنا دیا۔ مگر استاد صباء دشتیاری نے ان منافقانہ میلانات کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ ان کے خلاف نظریاتی و اخلاقی صف بندی بھی کی۔ وہ علم و ادب کو ریاستی غلامی سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ ادیب جو بلوچ اور پنجابی ریاست کو ایک دوسرے کا ناگزیر حصہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل ادب کے نام پر فکری غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ صباء کا فکری و ادبی سفر اس انقلابی جمالیات کا غماز ہے جو صرف سچ بولتی ہے — اور سچ ہمیشہ کٹھن اور خطرناک ہوتا ہے۔
ریاست نے استاد صباء دشتیاری کو خاموش کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا — دھمکیاں، نگرانی، خوف، اور لالچ۔ لیکن استاد ان تمام ریاستی ہتھکنڈوں کے باوجود نہ صرف ثابت قدم رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ فکری میدان میں سرگرم ہو گئے۔ وہ یونیورسٹی کے کلاس روم میں بھی مزاحمت سکھاتے تھے اور سڑک پر احتجاج میں بھی شریک ہوتے تھے۔ ان کے کردار سے بلوچ تحریکِ آزادی کو صرف ایک کارکن نہیں، بلکہ ایک نظریاتی معمار ملا، جس نے نوجوان نسل کو نئے وژن، نئے ہدف، اور نئے فکری اسلحے سے لیس کیا۔
شہید صباء دشتیاری کی شہادت محض ایک جسم کا خاتمہ نہیں تھی، بلکہ زانت کی لاش پر ریاستی حملے کے خلاف ایک اجتماعی صدائے احتجاج تھی۔ ان کی شہادت نے یہ واضح کر دیا کہ جب ایک استاد، مفکر اور ادیب آزادی کی تحریک میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے تو وہ علم و فکر کو خون سے زندہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی موت کے بعد بلوچ تحریک کے اندر نظریاتی دروشم اور فکری تپش مزید شدت سے ابھری۔ ان کا خون جدوجہدِ آزادی کے دھارے میں جذب ہو کر تحریک کو نئی توانائی بخشتا رہا۔
استاد صباء کی فکری مداخلت نے ان روایتی و مصلحت پسند پارٹیوں کی نیندیں حرام کر دیں جو دہائیوں سے قوم پرستی کے نام پر مفاہمت اور مروجہ ریاستی ڈھانچے میں بقا تلاش کر رہی تھیں۔ صباء نے نوجوانوں کو بتایا کہ حقیقی آزادی کبھی حکومتی فنڈز، وزارتوں یا نام نہاد خودمختاری کے وعدوں سے نہیں آتی — وہ میدانِ عمل، قربانی، اور مسلسل فکری و تنظیمی محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نوجوان نسل ان روایتی جماعتوں کے کھوکھلے نعروں سے نکل کر حقیقی انقلابی راستوں کی جانب متوجہ ہوئی۔
استاد صباء دشتیاری آج ہمارے درمیان جسمانی طور پر موجود نہیں، لیکن ان کی فکر، ان کا علم اور ان کا عمل ایک زندہ روایت کی صورت ہمارے اندر سانس لے رہا ہے۔ ان کا نام محض ایک شہید کا نہیں، بلکہ ایک فکر کا استعارہ ہے — وہ فکر جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم اگر مزاحمت سے کٹا ہوا ہو تو وہ صرف غلامی کی لغت بن جاتا ہے۔
آج ہمیں استاد صباء دشتیاری کی زندگی اور جدوجہد سے یہ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حقیقی ادیب وہی ہے جو ریاستی بیانیے کا آلہ نہ بنے، بلکہ مزاحمتی شعور کا ترجمان ہو۔ اور حقیقی زانت وہی ہے جو قوم کو آزاد، بااختیار اور باشعور بنانے میں اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔
قابض ریاستیں جب اپنے جبر کی انتہا پر پہنچتی ہیں تو وہ کتابوں سے خوف کھانے لگتی ہیں، قلم سے کانپنے لگتی ہیں، اور ان ذہنوں کو مٹانے کی کوشش کرتی ہیں جو مزاحمت کے جوہر کو فکر، نظریہ اور دلیل کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ پروفیسر صباء دشتیاری انہی فکری قندیلوں کے علَم بردار تھے جنہوں نے ریاستی جبر کے خلاف شعور کی مشعل جلائی۔ ان کی شہادت محض ایک جسمانی سانحہ نہیں تھا، بلکہ فکری جنگ کا ایک باب تھی — وہ باب جس میں ریاست نے یہ گمان کیا کہ بندوق کی گولیوں سے نظریہ خاموش ہو سکتا ہے، مگر وہ بھول گئی کہ نظریہ کبھی جسم کا محتاج نہیں ہوتا؛ وہ ایک روحانی تسلسل، ایک شعوری جہد، اور ایک تاریخی فریضہ ہوتا ہے۔
ریاستی ذہن کی نفسیات میں یہ گہرا مغالطہ پیوست ہوتا ہے کہ کسی انقلابی کو جسمانی طور پر ختم کرنے سے اس کی فکر بھی دفن ہو جائے گی۔ یہی سوچ لالا لاجپت رائے، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد، چی گویرا، اور صباء دشتیاری جیسے انقلابی مفکرین کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی بنیاد بنتی ہے۔ مگر تاریخ بار بار یہ گواہی دیتی آئی ہے کہ خیالات کو قتل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ موت کے بعد اور زیادہ جاندار، اور زیادہ پائیدار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لفظ زندہ رہتے ہیں، ان کی تحریریں مشعلِ راہ بنتی ہیں، اور ان کا تصورِ آزادی وقت کے ساتھ مزید گہرا اور واضح ہوتا ہے۔
پروفیسر صباء دشتیاری صرف ایک استاد نہیں تھے، وہ ایک نظریہ، ایک مکتب فکر تھے۔ انہوں نے بلوچ طلبہ اور نوجوانوں کو محض درسگاہی نصاب نہیں پڑھایا، بلکہ انہیں یہ شعور دیا کہ اگر علم مزاحمت سے جڑا نہ ہو تو وہ علم نہیں، بلکہ استعماری تربیت ہے — غلامی کی توسیع ہے۔ وہ علم کو انقلابی ہتھیار سمجھتے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ وہ خود میں "چلتی پھرتی لائبریری” تھے۔ ان کی شخصیت اس بلوچ مزاحمت کا استعارہ ہے جو بندوقوں کے سائے میں بھی قلم کی روشنی سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ وہ ہمارے لیے پاؤلو فریرے اور فرانز فینن کا امتزاج تھے۔
صباء دشتیاری ایک فکری سمندر، ایک علمی ساحل، اور ایک بحرِ نظریہ تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ سمندر جیسی فکر کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتی، وہ موج در موج ارتقاء پذیر رہتی ہے۔ ریاست نے گمان کیا کہ وہ اس سمندر کو خاموش کر دے گی، لیکن وہ نہ جانتی تھی کہ ہر گولی ایک نئی لہر کو جنم دے گی۔ ہر شہادت بلوچ نوجوان کے ذہن میں ایک نئے سوال کو بیدار کرے گی، اور ہر سوال ایک نئی جدوجہد کی بنیاد بنے گا۔ یہی وہ تغیراتی قوت ہے جسے کوئی گولی شکست نہیں دے سکتی۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ موت ایک اختتام ہے، مگر نظریاتی اور آزادی کی جدوجہد کی دنیا میں یہ محض ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ جب کوئی جسم مٹتا ہے، اس کا نظریہ منتشر ہونے کے بجائے مرتکز ہو جاتا ہے۔ صباء دشتیاری کی شہادت نے ان کی فکر کو ایک ایسے اجتماعی شعور میں بدل دیا ہے جو آج بلوچستان کے نوجوانوں میں زندہ ہے۔ ان کی جسمانی غیر موجودگی میں ان کی موجودگی زیادہ محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ان کا نظریہ اب صرف اُن کا نہیں رہا، بلکہ ایک پوری نسل کا اثاثہ بن چکا ہے۔
آج جب بلوچ نوجوان سوال کرتا ہے کہ ہماری شناخت کو مسخ کیوں کیا جا رہا ہے، جب وہ سامراجی جغرافیے اور ریاستی بیانیے کو رد کرتا ہے، جب وہ آزاد سماج، خودمختار قومی معیشت، اور قومی وقار و شناخت کی بات کرتا ہے — تو وہ دراصل صباء دشتیاری کے خوابوں کی تعبیر کی جانب قدم بڑھا رہا ہوتا ہے۔ ان کا ہر جملہ، ہر لیکچر، اور ہر مزاحمتی فکر آج بھی زندہ ہے، اور بلوچ نوجوان کی سیاسی و نظریاتی تربیت میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
پروفیسر صباء دشتیاری کی شہادت دراصل ایک نظریاتی تسلسل کی شروعات تھی۔ وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، لیکن ان کی موجودگی ہر اس جگہ محسوس کی جاتی ہے جہاں سوال کیا جاتا ہے، جہاں کتاب کھولی جاتی ہے، جہاں انقلابی سوچ جنم لیتی ہے۔ آج جب کوئی بلوچ نوجوان ریاستی جبر کے خلاف بندوق اٹھاتا ہے، قلم سے رشتہ جوڑتا ہے، مزاحمتی شاعری لکھتا ہے، گیت گاتا ہے، یا گیتوں کو اپنی آواز دیتا ہے، جب وہ ایک پمفلٹ تقسیم کرتا ہے، ایک کتاب لکھتا ہے، یا قید و بند کی اذیتیں سہتا ہے، جب وہ کوہساروں میں چند نوالوں پر گزارا کرتے ہوئے دشمن سے ٹکراتا ہے — تو وہ صباء دشتیاری کی فکر کا تسلسل ہے۔
یاد رکھا جائے: قابض گولیاں برسا سکتا ہے، زندان بھر سکتا ہے، لاشیں گرا سکتا ہے — لیکن وہ فکر کو قید نہیں کر سکتا۔ ہر گولی جو علم کے پیکر پر چلتی ہے، ہر ڈرون جو مزاحمت کے کیمپوں پر حملہ کرتا ہے، وہ قابض کی بدنما تاریخ کے صفحات پر ایک اور سیاہ دھبہ چھوڑ جاتا ہے۔
لیکن ہر بلوچ جو اپنی آزادی، اپنی دھرتی، اپنی خاکِ وطن، اپنے بولان اور چلتن کی آسمان پر شہید ہوتا ہے، وہ مزاحمت کے قرطاس پر اور بلوچ قوم کی ہزار سالہ تاریخ کے صفحات پر شہادت کی ایک سرخ لکیر کھینچ دیتا ہے۔ وہ ریاست کو خبردار کرتا ہے کہ وہ بلوچ ریڈ لائن کو عبور نہ کریں، کیونکہ بلوچ اتنے بھی “چم جہل” نہیں کہ ان کی سرحدوں کو روند کر ایک غیر ملکی حملہ آور، ایک غیر مہذب و بے تاریخ قوم، ان پر قبضہ جما لے اور وہ خاموش رہیں۔
یاد رکھا جائے، بلوچ ہندوستان نہیں ہے کہ تین دن میں سیزفائر کرے؛ یہ ایک قوم ہے جو پچیس سالوں سے مسلسل لڑ رہی ہے اور لڑتی رہے گی۔