"بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، لاشوں کی عدم حوالگی : ایک انسانی بحران”

تحریر: شے دربیش بلوچ
زرمبش مضمون

بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل بدامنی، سیاسی کشمکش اور ریاستی جبر کا شکار رہا ہے۔ اس عرصے میں بلوچ مزاحمتی تحریکوں، قوم دوست سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا، حراست، تشدد، ماورائے عدالت قتل، اور لاشوں کی ورثاء کو عدم حوالگی جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی شدید پامالی بھی ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق "جبری گمشدگی” (Enforced Disappearance) اُس عمل کو کہا جاتا ہے جس میں کسی شخص کو ریاستی اہلکار یا ان کے خفیہ ادارے گرفتار کرتے ہیں، پھر اس کی موجودگی اور حالت کو خفیہ رکھا جاتا ہے، اور اسے قانونی تحفظ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

بلوچستان میں ہزاروں افراد، جن میں سیاسی کارکن، طلباء، اساتذہ، دانشور، اور سیاسی جماعتوں کے قائدین شامل ہیں، ریاستی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ 24 سالوں سے مسلسل جاری ہے۔
خصوصاً 2023 میں بی وائی سی کے ماورائے عدالت قتل عام کے بعد شروع ہونے والے بھرپور احتجاجی مظاہروں کے جواب میں ریاست نے نہ صرف جبر میں شدت پیدا کی، بلکہ عدلیہ کو بھی اپنے جرائم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے استعمال کیا۔ خالص بلوچ تحریک کو بدنام کرنے کے لیے فوجی میڈیا نے اسے "فتنہ الہندوستان” قرار دیا اور بیرونی فنڈنگ کے جھوٹے الزامات لگا کر تحریک کو پراکسی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔بی وائی سی کی متحرک قیادت کے خلاف سوشل میڈیا پر جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا اور میڈیا ٹرائلز کے ذریعے بلوچ خواتین کی کردار کشی کی گئی، لیکن اس عمل نے بلوچ عوام کے دل میں ریاست کے خلاف نفرت کو مزید گہرا کیا ہے۔

لاشوں کی عدم حوالگی: انسانی وقار اور اور اہلخانہ کی حقوق کی پائمالی

بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون، بالخصوص انٹرنیشنل کاویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (ICCPR)، اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ:ہر انسان کی زندگی اور وقار کا تحفظ ضروری ہے۔
خاندان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے پیارے کی میت وصول کرے، اس کی شناخت کرے، اور مذہبی و ثقافتی طریقے سے تدفین کرے۔
بلوچستان میں ریاستی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اکثر لاشیں ویران علاقوں، اجتماعی قبروں یا مسخ شدہ حالت میں برآمد ہوتی ہیں۔ ان میں کئی لاشیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ورثاء کے حوالے نہیں کیا جاتا بلکہ بغیر شناخت کے دفن کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمل انسانی وقار، مذہبی آزادی اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

بین الاقوامی انسانی قانون میں ریاستوں کی ذمہ داریاں

جنیوا کنونشنز اور ان کے اضافی پروٹوکولز کے مطابق:ہر ہلاک شدہ شخص کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا لازم ہے؛ریاست پر لازم ہے کہ وہ لاش کی شناخت کرے اور متاثرہ خاندان کو مطلع کرے؛تدفین کے عمل کو شفاف اور ورثاء کے لیے قابلِ رسائی بنایا جائے۔

Minnesota Protocol (اقوامِ متحدہ کا ماڈل برائے غیرقانونی قتل کی تفتیش) کے مطابق:

"کسی لاش کو خفیہ رکھنا، حوالہ نہ کرنا، یا شناخت سے انکار انسانی حقوق کی شدید پامالی ہے، اور ممکنہ طور پر غیر قانونی قتل کو چھپانے کی کوشش تصور کی جاتی ہے۔”

انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں

ماما قدیر بلوچ، ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سمی دین، اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین اور کارکنان نے برسوں طویل مارچ اور مظاہرے کیے، لیکن اکثر خاندانوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں تک نصیب نہ ہوئیں۔ خضدار، توتک اور کوئٹہ کے مضافات جیسے علاقوں میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، جن میں مسخ شدہ لاشیں دفن تھیں۔ نہ ان کی شناخت کی گئی، نہ ورثاء کو اطلاع دی گئی۔
دشت کے علاقے میں ایک نامعلوم افراد کا قبرستان قائم ہے، جہاں شبہ ہے کہ لاپتہ بلوچوں کو دفن کیا گیا ہے۔ بعض لاشیں اس حد تک مسخ شدہ حالت میں دی گئیں کہ ان کی شناخت ممکن نہ تھی، یا بعض صورتوں میں تدفین کے عمل میں بھی ریاستی مداخلت کی گئی۔

جعفر ایکسپریس حملے کے بعد کوئٹہ سول ہسپتال میں سیکڑوں لاشیں لائی گئیں، جنہیں بغیر شناخت کاسی قبرستان میں غیر اسلامی طریقے سے دفن کیا گیا۔ جب اس غیر انسانی عمل کے خلاف بی وائی سی نے احتجاج کیا تو اس مسئلے کو دبانے کے لیے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان — ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ، بیبگر بلوچ، گلزادی بلوچ اور شاہ جی — کو غیرقانونی طور پر قید کر کے ان کے قانونی حقوق بھی سلب کر لیے گئے۔
عدلیہ فریق بن چکی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز بلوچ خواتین کی گرفتاری کے ضمن میں ریاستی پالیسی کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں، اور عدالتی رویہ محض حوالدارانہ حد تک محدود ہو چکا ہے

قبضہ گیر پاکستان پر عائد بین الاقوامی ذمہ داریاں

پاکستان اقوامِ متحدہ کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ICCPR، Convention Against Torture اور جنیوا کنونشنز کا دستخط کنندہ بھی ہے۔ ان معاہدات کے تحت:
جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اور لاشوں کی عدم حوالگی جیسے اقدامات غیر قانونی اور ناقابلِ جواز ہیں۔متاثرہ خاندانوں کو سچائی، انصاف اور ازالے کا حق حاصل ہے۔ریاست پر لازم ہے کہ وہ ان واقعات کی شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدار تحقیقات کرے۔تمام لاشیں فوری طور پر شناخت کے بعد ورثاء کو سونپی جائیں۔تدفین کے مذہبی و ثقافتی حقوق کی مکمل ضمانت دی جائے۔جبری گمشدگی کو باقاعدہ جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان تک رسائی دی جائے تاکہ وہ زمینی حقائق کا خود جائزہ لے سکیں۔
لیکن اس کے برخلاف، ریاست نہ صرف عدلیہ کو اپنے جرائم کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہی ہے بلکہ فوجی میڈیا کے ذریعے جھوٹ، بہتان اور کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت اپنی اخلاقی اور سیاسی ناکامی کو چھپا نہیں سکتی۔ بلکہ ان اقدامات نے بلوچ عوام کے دلوں میں ریاست کے خلاف نفرت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

خاران میں ملٹری انٹیلیجنس اہلکاروں پر حملہ کیا، کولواہ میں مواصلاتی نظام کو نشانہ بنایا۔ بی ایل ایف

اتوار جون 1 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے کہا ہے کہ سرمچاروں نے 31 مئی 2025 کی رات تقریباً 9 بجے خاران شہر کے حساس ریڈ زون میں واقع ملٹری انٹیلیجنس کے دفتر کے باہر موجود اہلکاروں پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ عمارت کے باہر گشت […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ