
بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے تازہ واقعات میں کم از کم 10 افراد جبری طور لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع پنجگور کے مرکزی بازار چتکان میں پاکستانی فورسز نے ایک موبائل کی دکان پر چھاپہ مار کر کم از کم پانچ افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا۔ لاپتہ افراد میں پنجگور کے معروف نوجوان تاجر واھاب بلوچ بھی شامل ہیں۔ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا جب فورسز نے مین بازار میں موبائل دکانوں پر دھاوا بولا۔ عینی شاہدین کے مطابق واھاب بلوچ کو چار دیگر افراد کے ہمراہ حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ دیگر افراد کے نام تاحال معلوم نہیں ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق چھاپے کے دوران دکان میں توڑ پھوڑ کی گئی اور متعدد قیمتی موبائل بھی ساتھ لے جائی گئیں جن کی مالیت لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔
دریں اثناء بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے ایک نوجوان کو لاپتہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی فورسز نے سنگانی سر کے رہائشی اور محکمہ پولیس کے ملازم عدنان ولد طاہر کو گزشتہ روز اُس وقت حراست میں لیا جب وہ روزمرہ کی خریداری کے لیے بازار جا رہا تھا۔
جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی صدر اور صوبائی اسمبلی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہے کہ پسنی میں گزشتہ روز میرے کزن کے بیٹے محمد ولد نبی بخش کو اٹھا کر جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی پاکستانی فورسز نے دو افراد کو حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، گزین ولد شاہنواز سمالانی کو شاہرگ سے جبکہ ربنواز ولد علی نواز سمالانی کو شاہرگ کے علاقے کھوسٹ سے فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔ لواحقین نے دونوں افراد کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
کوئٹہ کے علاقے عیسا نگری سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے میڈیکل کے طالب علم بہرام واحد ولد عبدالواحد کو حراست میں لے کر اپنے ہمراہ لے گئے۔ حراست میں لیے جانے والا نوجوان بعد ازاں منظر عام پر نہیں آ سکا ہے۔