28 مئی یوم تکبیر یا یوم سوگ؟

تحریر :وسیم سپر بلوچ زرمبش مضمون

ہر سال جب 28 مئی کا سورج طلوع ہوتا ہے، پاکستان میں اسے "یومِ تکبیر” کے طور پر جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ مگر بلوچستان کی سرزمین پر یہی دن ایک گہرے دکھ، اذیت اور سوگ کی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاستِ پاکستان نے بلوچ قوم کو ہمیشہ ایک تجربہ گاہ، ایک قربانی کے نشان کے طور پر استعمال کیا، مگر ان قربانیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

بلوچ قوم کے لیے 28 مئی صرف ایٹمی دھماکوں کا دن نہیں، بلکہ ایک ناقابلِ فراموش قومی صدمہ ہے—وہ صدمہ جو چاغی کی پہاڑیوں سے اٹھا اور آج تک بلوچ دلوں میں سلگ رہا ہے۔ اس دن ریاست نے اپنے ایٹمی تجربات کے لیے بلوچستان کی سرزمین کا انتخاب کیا، گویا یہ زمین کسی بے زبان اور بے حیثیت قوم کی ملکیت ہو، جس کی نہ کوئی آواز ہو اور نہ کوئی اختیار۔

قیامِ پاکستان کے وقت بلوچستان نے نہ صرف خیرسگالی کے جذبے سے قائداعظم کو سونے اور چاندی سے تولا، بلکہ عالمی بینک میں زرِ ضمانت کی صورت میں مالی معاونت بھی فراہم کی۔ لیکن اس خیرسگالی کا صلہ کیا ملا؟ ریاست نے طاقت کے نشے میں بلوچ قوم کو صرف محرومیاں، طعن و تشنیع، اور "غداری” کے سرٹیفکیٹ ہی دیے۔

جب بھارت نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا۔ لیکن جو زمین اس جوابی طاقت کے مظاہرے کے لیے چُنی گئی، وہ چاغی تھا—بلوچستان کا دل۔ 28 مئی 1998 کو کیے گئے ان دھماکوں کے اثرات آج بھی چاغی کے باسیوں کی زندگیوں کو جھلسا رہے ہیں: تابکاری، کینسر، بانجھ زمینیں، خشک سالی—یہ سب وہ قیمتیں ہیں جو بلوچوں نے "قومی مفاد” کے نام پر چکائیں، بغیر کسی مشاورت، اختیار یا رضامندی کے۔

ریاست نے نہ ان قربانیوں کا اعتراف کیا، نہ ان کا ازالہ۔ بلکہ جب بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر محکوم قومیں اپنے آئینی و انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، تو انہیں "را کے ایجنٹ”، "غدار”، اور "پراکسی” جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ریاستی بیانیے میں صرف وہی محبِ وطن کہلاتے ہیں جو خاموش رہیں، اطاعت کریں، اور استحصال کو تقدیر سمجھ کر قبول کریں۔

بلوچستان کو 77 برسوں سے محکوم رکھا گیا ہے۔ وسائل ہوں یا اختیارات، فیصلہ سازی ہو یا نمائندگی—ہر سطح پر پنجاب کو مرکزیت حاصل ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر یہی وسائل پنجاب میں ہوتے تو ریاست کا رویہ بھی ایسا ہی ہوتا؟ کیا وہاں بھی ایسی بے حسی، جبر اور ناانصافی روا رکھی جاتی؟

آج بلوچ روز لاشیں اٹھا رہا ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنی زمین، اپنے وسائل، اور اپنے وجود پر اختیار کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے نمائندے منتخب نہیں، بلکہ مسلط کردہ ہیں—ایسے افراد جو ریاستی پالیسیوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، جو عالمی طاقتوں کے سامنے بلوچستان کے وسائل کی بولی لگاتے ہیں، جبکہ بلوچ نوجوان جبری طور پر لاپتا کیے جاتے ہیں، اور ان کی مائیں برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ تکتیں رہتی ہیں۔

بلوچستان خودکفیل ہو سکتا تھا، ترقی کا علمبردار بن سکتا تھا—اگر اس کے وسائل کا منصفانہ استعمال ہوتا، اگر اس کی زمین کو ایٹمی تجربات کی بھٹی میں نہ جھونکا جاتا، اگر اس کے باشندوں کو عزت، اختیار اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا جاتا۔ مگر آج، بلوچ صرف ایک سوال پوچھتے ہیں:

"کیا اس ریاست میں ہماری زمین، ہمارے وسائل، اور ہماری زندگی کی کوئی قیمت ہے؟”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

واشک: فوجی جارحیت میں مصروف پاکستانی فورسز کی گاڑی پر دھماکہ، گاڑی مکمل تباہ، تمام اہلکار ہلاک و زخمی

جمعرات مئی 29 , 2025
بلوچستان کے ضلع واشک کے علاقے سکن میں آج صبح پاکستانی فورسز کی ایک گاڑی کو دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے۔واقعہ اس وقت پیش آیا جب فورسز علاقے میں فوجی جارحیت میں مصروف تھیں۔ ذرائع کے مطابق دھماکہ اشدید نوعیت کا تھا جس کے نتیجے میں گاڑی مکمل طور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ