بلوچ صحافی لطیف بلوچ کا  قتل: ریاستی جبر کی انتہا

زرمبش اداریہ

بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل مشکے میں ریاستی اداروں کی جانب سے انسانی حقوق اور صحافتی آزادیوں کی سنگین پامالی کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ معروف صحافی اور روزنامہ انتخاب کے نمائندے عبداللطیف ولد جان محمد کو گزشتہ شب تین بجے کے قریب ان کے گھر میں گھس کر، اہلِ خانہ کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ سوتے ہوئے حالت میں تھے جب ریاستی اہلکاروں نے ماورائے عدالت کارروائی کرتے ہوئے ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔

یہ واقعہ صرف ایک فرد کے قتل تک محدود نہیں بلکہ اس سے قبل، 28 فروری کو اسی گھرانے کو ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ عبداللطیف بلوچ کے خاندان کے آٹھ نوجوانوں کو آرمی کیمپ بلا کر حراست میں لیا گیا، جن میں ان کا نوجوان بیٹا، سیف بلوچ بھی شامل تھا۔ ان میں سے چار نوجوانوں کی لاشیں کچھ روز بعد پھینکی گئیں، جب کہ باقی چار افراد کو بعد میں قتل کر کے لاوارث مقام پر چھوڑ دیا گیا۔

یہ اندوہناک واقعات صرف بلوچستان میں جاری ریاستی تشدد اور ماورائے عدالت کارروائیوں کی ایک کڑی نہیں بلکہ اس بات کی واضح علامت ہیں کہ بلوچ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرنے کے لیے ریاستی ادارے منظم پالیسی کے تحت قتل و غارت، اغوا، اور حراست کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔

ریاستی جبر کے ان واقعات کو نیکٹا (NACTA) کی سیکیورٹی پالیسیوں، اور پیکا (PECA) ایکٹ جیسے قوانین کے تناظر میں دیکھنا لازم ہے، جنہیں بظاہر نام نہاد قومی سلامتی اور سائبر کرائم کے انسداد کے نام پر نافذ کیا گیا، مگر ان کا استعمال دراصل بلوچ سماج، میڈیا، اور سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ صحافتی اداروں، رپورٹرز اور سیاسی کارکنوں کو یا تو اغوا کیا جاتا ہے یا راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے تاکہ ریاستی بیانیے سے ہٹ کر کوئی سچ سامنے نہ آسکے۔

عبداللطیف بلوچ کا قتل صرف ایک فرد کی جان لینے کا واقعہ نہیں، بلکہ یہ پوری بلوچ صحافت کے گلے پر چھری چلانے کے مترادف ہے۔ یہ واقعہ ریاست کی اس بے رحم جارحیت کی عکاسی کرتا ہے جو نہ صرف انسانی حقوق بلکہ آزادیِ اظہار، معلومات تک رسائی، اور جمہوری اقدار کے خلاف کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوام متحدہ، اور آزادیِ صحافت کے عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ریاستی درندگی کا نوٹس لیں اور بلوچ صحافیوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ بصورتِ دیگر، بلوچستان ایک ایسا قبرستان بنتا جا رہا ہے جہاں سچ بولنا جرم، اور صحافت ایک موت کی سزا بن چکی ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور میڈیا پر دباؤ کی یہ کارروائیاں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی نام نہاد انسداد دہشتگردی پالیسی کے سائے میں انجام دی جا رہی ہیں، جس کا اصل ہدف  سیاسی اور صحافتی آزادیوں کو کچلنا معلوم ہوتا ہے۔ نیکٹا پالیسی کے تحت صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور ریاستی بیانیے سے اختلاف رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان پالیسیوں نے بلوچستان کو ایک خفیہ جنگی زون میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں نام نہاد  قانون، آئین، اور عدالتی نظام مکمل طور پر غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔

عبداللطیف بلوچ کا قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان میں سچ لکھنے، حقائق بیان کرنے، اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی پاداش میں صحافیوں کو ریاستی اداروں کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
یہ واقعہ عالمی برادری، صحافتی انجمنوں، اور انسانی حقوق کے اداروں سے ایک سخت اور سنجیدہ مؤقف کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر بلوچ صحافیوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا، اور ریاستی اداروں کو بے لگام ظلم سے نہ روکا گیا تو یہ مظالم نہ صرف صحافت کو دفن کر دیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اندھیرے میں دھکیل دیں گے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

لالا لطیف

اتوار مئی 25 , 2025
تحریر: کمال بلوچزرمبش مضمون لالا لطیف بلوچ کا پورا نام عبدالطیف بلوچ تھا۔ وہ واجہ کہدہ جان محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم مشکے ہائی اسکول سے مکمل کی، اور اعلیٰ تعلیم کے لئے خضدار گئے۔ وہاں انہوں نے خضدار ڈگری کالج سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ