تحریر: بلوچ نودربر
زرمبش مضمون

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ ایک گاؤں آباد تھا کجھوری۔ اس گاؤں کے لوگ اکثر رات کی خاموشی میں پہاڑوں کی سمت سے ایک پراسرار گونجتی ہوئی آواز سنا کرتے تھے۔ زخموں کو سہلاتی ہوا اتنی حساس ہو چکی تھی کہ مظلوموں کا درد محسوس کر سکتی تھی۔ وادی کی سرسبز زمین اب مٹی اور پتھروں میں بدل چکی تھی مگر یہی مٹی تاریخ کا آئینہ تھی، جہاں ہر ذرّہ ایک کہانی سناتا تھا۔
ان کہانیوں کا مرکز وہی گاؤں تھا، اور اس کا ایک نوجوان: ریحان بلوچ، جو حال ہی میں شہر سے گریجویشن مکمل کر کے واپس لوٹا تھا۔ اُس کا نام اُس کے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا، مگر وہ اپنی تاریخ سے بےخبر تھا۔ قسمت اُسے ایک ایسی کہانی میں پرونے والی تھی، جو اُس کے آبا و اجداد کی قربانیوں سے لکھی گئی تھی۔
ریحان کے بچپن میں ہی اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی گاؤں کی پرانی داستانیں اور راز بھی دفن ہو گئے تھے۔ مگر ایک دن جب ریحان نے اپنے دادا کی پرانی صندوقی الماری کھولی، تو وہاں کچھ گرد آلود دستاویزات کے نیچے ایک پراسرار، بلوچ ثقافت سے مزین آئینہ ملا۔
یہ آئینہ بظاہر عام سا شیشہ تھا، مگر درحقیقت نہایت پیچیدہ۔ یہ صرف عکاسی کا ذریعہ نہ تھا، بلکہ ماضی اور مستقبل کے بیچ ایک دروازہ تھا—ایسا دروازہ جسے پار تو نہیں کیا جا سکتا، مگر اُس کے پار جھانکا ضرور جا سکتا تھا۔ یہ آئینہ ایک رازدار تھا، جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا تھا۔ اب وہ راز ریحان کے ہاتھوں میں تھا—ایک آزمائش، ایک امتحان۔
ریحان نے جب پہلی بار آئینے میں جھانکا، تو شش و پنج میں پڑ گیا۔ اُس میں صرف اس کا چہرہ نہ تھا، بلکہ گاؤں کی پرانی جھلکیاں تھیں جہاں انگریز افسران کا اقتدار چھایا ہوا تھا، اور اس کی سرزمین کو لوٹا جا رہا تھا۔ پھر منظر بدلا، اور آزادی کی تحریک کے دوران بلوچ رہنماوں کی جدوجہد دکھائی دینے لگی۔ وہ چند افراد جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جنگ لڑی، جن کی تعداد کم تھی مگر حوصلے بلند۔
آئینے میں منظر پھر بدلا۔ اب ریحان کا دادا، اپنے والد (ریحان کے پردادا) سے بات کر رہا تھا۔
دادا کہہ رہا تھا:
"ابو جان! ہم اپنی گلزمین کے لیے اپنے سروں کی بازی لگا رہے ہیں۔ رشتے دار، گھر بار، سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔ اس امید پر کہ ہماری آئندہ نسلیں غلام پیدا نہ ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ شاید ہم آزادی کا سورج نہ دیکھ پائیں، مگر ہماری نسلیں ضرور دیکھیں گی۔ مگر ایک سوال ہے، جو میری نیندیں اُڑا دیتا ہے۔”
پردادا:
"پوچھو بیٹا، کون سا سوال ہے جو تمہیں ستا رہا ہے؟”
دادا:
"ہم اپنی زمین تو آزاد کروا لیں گے، مگر کیا ہماری نسلیں آزاد رہ سکیں گی؟ کیا وہ اس آزادی کو برقرار رکھ پائیں گی؟ یا پھر وہ بھی ہماری طرح ایسی ہی کسی جدوجہد میں الجھی رہیں گی؟ یا وہ تھک کر غلامی کو قبول کر لیں گی؟”
یہ سنتے ہی ریحان کی سانسیں رک سی گئیں۔ آئینہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ وہ ان لوگوں کو دیکھ چکا تھا جن کے نام تاریخ میں کہیں کھو گئے تھے۔ اُن کے خواب، قربانیاں، اور سوال آئینے میں زندہ تھے، مگر حقیقت میں دفن۔
کچھ دن گزر گئے۔ ریحان روز آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر وہ خاموش رہا۔ پھر ایک دن، اچانک آئینہ دوبارہ چمک اٹھا۔ اس بار منظر ماضی یا مستقبل کا نہیں تھا، بلکہ حال کا تھا۔
طلبہ کی ایک ریلی دکھائی دے رہی تھی—جو تعلیم، پانی، اور اظہار کی آزادی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ اچانک گولیوں کی آواز سنائی دی، اور منظر دھندلا ہو گیا۔ کئی طلبہ گرفتار کر لیے گئے، ان میں ایک شہ مرید بھی تھا، جو اکثر ریحان کو احتجاج میں شامل ہونے کی تلقین کرتا تھا۔
پھر منظر بدلا۔ اب بلوچ خواتین اسلام آباد میں بیٹھی تھیں، جنہیں اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے لیے 27 دن ہو چکے تھے۔ وہ ریاست سے صرف ایک سوال کر رہی تھیں:
"ہمارا قصور کیا ہے؟ ہمارے بچوں کی سزا کس جرم کی ہے؟”
ریاست کا جواب تھا فائر بریگیڈ کے نلکوں سے پانی۔ سخت سردیوں میں، ان ماؤں اور بہنوں پر پانی پھینکا گیا۔
پانی جو زندگی دیتا ہے، اُس دن ظلم کا ہتھیار بن گیا۔
اس پانی نے نہ صرف ان عورتوں کو بھیگایا، بلکہ ریحان کے سینے میں لگی آگ کو اور بھڑکا دیا۔
آئینے نے وہ سب کچھ دکھا دیا، جسے ریحان برسوں سے دیکھ کر بھی اندیکھا کرتا رہا تھا۔ اب اس کے اندر غصے، بے بسی اور سوالات کی ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔ گاؤں کے باسی اگر حقوق کی بات کرتے تو اُن کی آواز یا تو دبا دی جاتی یا مٹا دی جاتی۔ یہ نیا نوآبادیاتی نظام تھا، جہاں حاکم بدلے تھے، ہتھکنڈے بدلے تھے، مگر ظلم وہی کا وہی تھا۔
ریحان نے خود سے سوال کیا:
"کیا تاریخ کا سامنا کرنا واقعی آزادی کی طرف لے جائے گا؟ یا یہ بھی ایک فریب ہے؟
کیا سچ جاننا ہی کافی ہے؟
اور سب سے اہم سوال:
کیا میں صرف دیکھنے والا ہوں؟ یا کچھ بدلنے والا بھی؟”
اچانک، دور پڑے آئینے سے دادا کی آواز آئی:
"آئینہ تمہیں صرف ماضی نہیں دکھاتا، بلکہ مستقبل بھی دکھائے گا۔ مگر یاد رکھو، طاقت قربانی مانگتی ہے۔”
ریحان آئینے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ مگر اس بار اُسے اپنے اندر کچھ بدلتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ صرف ایک نوجوان نہیں رہا تھا—وہ ایک تحریک کی علامت بن چکا تھا۔
آئینہ چمک رہا تھا۔ جیسے وہ کہہ رہا ہو:
"ابھی نہیں، تو کبھی نہیں!”
ریحان جانتا تھا، اگر وہ اس سچ کو تسلیم کرے گا، تو خود کو قربان کرنا پڑے گا۔
مگر کیا وہ خاموش رہ سکتا تھا؟
کیا وہ اپنی زمین، اپنے لوگوں، اپنے گاؤں پر ہوتے ظلم کو دیکھ کر اندھا، بہرہ اور گونگا بن سکتا تھا؟
نہیں!
آئینہ دھند میں چھپ گیا۔ مگر ریحان کی آنکھوں میں عزم صاف دکھائی دے رہا تھا۔
اور کہانی ختم نہیں ہوئی تھی
یہ تو کہانی کی شروعات تھی۔
کیونکہ آئینہ صرف دیکھنے کے لیے تھوڑی تھا!
ریحان خود سے آخری سوال کرتا ہے:
"کیا میں اپنی تاریخ کا وارث ہوں؟
یا صرف ایک تماشائی؟”