تحریر : مزار بلوچ
زرمبش مضمون

بھارت کا عسکری منصوبہ ’’آپریشن سندور‘‘ نہ صرف عسکری تاریخ کا ایک اہم باب بن چکا ہے، بلکہ اس نے عالمی سطح پر بھارت کی حکمت عملی اور فیصلہ سازی کو تسلیم کروایا۔ اس کارروائی میں دشمن کے نو مدارس، جو کہ جہادی نظریات کے مراکز سمجھے جاتے تھے، انتہائی مہارت، باریک بینی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ یہ کارروائی اچانک یا محض جذباتی ردِ عمل نہیں تھی بلکہ برسوں کی خفیہ معلومات، سفارتی تیاری اور عالمی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک پیشہ ورانہ عسکری مداخلت تھی۔ بین الاقوامی برادری نے اس آپریشن کو بھارت کا دفاعی حق تسلیم کیا، جو کہ اس کے اندرونی و بیرونی امن کو لاحق خطرات کے جواب میں انجام دیا گیا۔
اگرچہ اس کارروائی کے بعد سرحدوں پر گولہ و بارود کی گونج سنائی دی، لیکن بھارت کی نیت پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ میں الجھنے کی ہرگز نہ تھی۔ بھارت بخوبی جانتا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اور اس کے ساتھ جنگ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ برسوں پر محیط معاشی، سیاسی اور انسانی تباہی کی صورت اختیار کر لے گی۔ بھارتی قیادت اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ اگر جنگ جیتی بھی جائے، تب بھی اس میں کھو جانے والے قیمتی وسائل، انسانی جانیں اور ترقی کی راہ میں آنے والا تعطل ایسا زخم ہوگا جو برسوں نہیں بھر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن سندور کا دائرہ محض مخصوص شدت پسند تنظیموں کے اڈوں تک محدود رکھا گیا۔
بھارت نے کارروائی کے بعد واضح طور پر اعلان کیا کہ اس کا ہدف پاکستانی ریاست نہیں بلکہ وہ غیر ریاستی عناصر تھے جو پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے بھارت میں بدامنی پھیلانے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ یہ آپریشن اس لحاظ سے تاریخی قرار پایا کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف ایک ریاست کی عسکری قوت، سیاسی عزم اور بین الاقوامی حمایت کا عملی مظاہرہ کیا۔
میدانِ جنگ میں دونوں ممالک کے مابین میزائل حملے، ڈرون حملے اور فضائی جھڑپیں ہوئیں۔ دونوں اطراف کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی جنگی طیارے تباہ کیے گئے۔ ان جھڑپوں نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کیا کہ جنوبی ایشیا میں جنگ صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں بلکہ ایک عالمی خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان اس کارروائی کو اپنی فتح اور بھارت کو "منہ توڑ جواب” دینے کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کیے، دشمن کے مراکز تباہ کیے اور ایک پاکستانی پائلٹ کو بھی گرفتار کر کے اپنی عسکری بالادستی کا ثبوت فراہم کیا۔ اس کے برعکس پاکستان نے عوامی حوصلہ بلند رکھنے کے لیے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس بھی ایک بھارتی پائلٹ موجود ہے، جو عالمی میڈیا، غیر جانبدار ذرائع اور زمینی حقائق کی روشنی میں درست ثابت نہ ہو سکا۔
اس آپریشن کا ایک غیر متوقع مگر سنسنی خیز پہلو وہ منظر تھا، جب پاکستانی فوجی تباہ شدہ جہادی مراکز سے وابستہ افراد کے جنازوں میں شریک ہوتے پائے گئے۔ ان افراد کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، اور قومی پرچم میں لپیٹ کر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ یہ عمل اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ یہ محض شدت پسند یا باغی نہیں تھے، بلکہ ان کا ریاستی اداروں سے گہرا تعلق موجود تھا۔ یہ منظر بین الاقوامی برادری کے لیے آنکھیں کھولنے والا تھا، جس سے واضح ہوا کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور کس طرح ریاستی ادارے نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر ان عناصر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اس کارروائی کے نتیجے میں بھارت نے دنیا کو تین واضح پیغامات دیے:
- جہادی عناصر کو پیغام: جنگ کا منظرنامہ بدل چکا ہے۔ اب جنگ جدید ٹیکنالوجی، ڈرونز اور اسمارٹ ہتھیاروں کی جنگ ہے، جس میں سرحدی حدود یا روایتی دفاع کسی کو نہیں بچا سکتے۔
- عالمی برادری کے لیے انکشاف: پاکستانی فوج، جو برسوں سے خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتی آئی ہے اور عالمی امداد حاصل کرتی رہی ہے، دراصل انہی شدت پسند عناصر کو تحفظ اور سرپرستی فراہم کرتی ہے۔
- ریاستی ہم آہنگی کا ثبوت: جو افراد عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیے گئے تھے، ان کے جنازوں کو قومی پرچم میں لپیٹنا اور فوجی اعزاز دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا محض جہادی ہونا کافی نہیں، وہ ریاستی ڈھانچے کا حصہ بھی ہیں۔
آپریشن سندور نہ صرف بھارت کی عسکری صلاحیت، سفارتی مہارت اور سیاسی پختگی کا مظہر تھا، بلکہ اس نے عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ملک یا سرحد تک محدود نہیں رہ سکتی۔ امن کا خواب اسی وقت ممکن ہے جب ریاستیں شدت پسند نظریات کو اپنی پالیسیوں سے نکال کر عالمی امن کے ہم نوا بنیں۔