دس نسلوں کی دھمکی اور جرنیلی غرور!

تحریر: رامین بلوچ — آخری حصہ
زرمبش مضمون

یہ تحریر اس کے غرور پر وہ فکری طمانچہ ہے جو اسے بتائے کہ بلوچ قوم نہ صرف آزاد ہوگی، بلکہ تاریخ میں ان قوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی جنہوں نے سامراج کو شکست دی، اور دنیا کو یاد دِلائے گی کہ "ظلم کے ہر قلعے پر سورج غروب ہوتا ہے، لیکن آزادی کے ہر خواب پر صبح ضرور طلوع ہوتی ہے۔”
۔مستقل مزاجی، بہادری، حوصلہ، جرأت اور ثابت قدمی—یہ محض الفاظ نہیں، نہ ہی ان کا تعلق صرف سیاسی لغت یا مزاحمتی بیانیے سے ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو بلوچ قوم کے اجتماعی لاشعور میں اس طرح پیوست ہیں جیسے مٹی میں نمی، یا خون میں حرارت۔ یہ اوصاف کسی کتاب سے نہیں سیکھے جاتے، بلکہ یہ وراثت کی مانند نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں۔ یہ وہ اخلاقی اور وجودی سرمایہ ہے جو ہر مظلوم و محکوم قوم کی شناخت، اس کے افسانوں، اس کی کہانیوں، اس کے رقص و نوحے، اور اس کی دعاؤں میں پنہاں ہوتا ہے۔
یہ عناصر ہماری مائتھالوجی میں جیتے ہیں —ان مائتھالوجیز میں جن میں وہ ماں اپنے بیٹے کو بہادری کی لوریاں دیتی ہے، وہ بزرگ اپنے پوتوں کو شکست سے نہیں، استقامت سے سبق سکھاتے ہیں، اور وہ فنکار جو ظلم کے عہد میں بھی اپنے ساز سے آزادی کا نغمہ نکالتے ہیں۔بلوچ مائتھالوجی ہو یا دنیا کی کسی بھی محکوم قوم کی موروثی داستانیں، ان سب میں ایک مشترکہ جوہر ہے: جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا
شعور، اور شکست کو تسلیم نہ کرنے کا حوصلہ۔
ہمارا سماجی ڈھانچہ—خواہ وہ قدیم قومی رشتوں میں ہو، یا جدید سائنٹیفک نظم پر—ایسی ہی استقامت سے عبارت ہے۔ یہ حوصلہ ہمارے رگ و پے میں صرف ایک اجتماعی فہم کے طور پر موجود ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو ہم نے دشمن کی گولیوں سے نہیں، اپنے شہیدوں کے لہو سے سیکھا ہے۔ یہ وہ اخلاقی میراث ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ جینا محض سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی آزادی کے لیے قربانی دینے کو تیار ہو جائے۔
انفرادی شناخت میں بھی یہ عناصر ایسے جذب ہو چکے ہیں جیسے لوہے میں فولاد۔ بلوچ فرزند جب دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑا ہوتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا، اس کے ساتھ ہزاروں سال کی تاریخ، شہداء کی روحیں، اور تہذیب کا شعور کھڑا ہوتا ہے۔ اس کا حوصلہ ایک فرد کی جرأت نہیں، بلکہ پوری قوم کی روح ہے جو اس کے سینے میں دھڑک رہی ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ایک فرد اپنی ذات سے نکل کر ایک پوری قوم کا استعارہ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی نوآبادیاتی قوت، کوئی عسکری ریاست، کوئی مذہبی فریب، اور کوئی نظریاتی تسلط ان عناصر کو کبھی شکست نہیں دے سکا۔ کیونکہ یہ نہ جسمانی ہیں کہ زخم سے مر جائیں، اور نہ ذہنی ہیں کہ جھوٹ سے مسخ ہو جائیں —یہ روحانی اوصاف ہیں، وہ مقدس مشعل جو ہر نسل میں خود کو زندہ رکھتی ہے، اور جب وقت آتا ہے، تو مزاحمت بن کر بھڑک اٹھتی ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ اوصاف ہماری مائتھالوجی، سماجی ساخت اور انفرادی شناخت میں سانس لیتے ہیں، تو درحقیقت ہم اس سچ کو دہرا رہے ہوتے ہیں جو صدیوں سے ہمارے خون میں بہہ رہا ہے: کہ ہم مزاحمت کے وارث ہیں، اور غلامی ہمارا مقدر نہیں، مسلط ہے۔
ہماری مائتھالوجی—یعنی وہ اساطیر، وہ کہانیاں، وہ قومی یادداشتیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر آج تک زندہ ہیں —کسی قصہ گو کی خیالی دنیا نہیں بلکہ وہ زندہ تجربات ہیں جن میں ہمارے آباؤ اجداد نے حملہ آور قوتوں کے خلاف مزاحمت کی، اپنے وجود، اپنی سرزمین اور اپنے وقار
کا دفاع کیا، اور آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیا کہ غلامی سے بہتر موت ہے۔
یہ مائتھالوجی ہماری درسگاہ ہے۔ ہمارے بچوں کی تربیت ماں کی لوری سے شروع ہوتی ہے، جس میں وہ داستانیں سنائی جاتی ہیں جن میں قربانی، دلیری، خودداری اور جدوجہد کی روح چھپی ہوتی ہے۔ بلوچ سماج کا ہر فرد، خواہ وہ کسی گاؤں میں چرواہا ہو یا کسی شہر میں طالبعلم، ایک ایسی فکری روایت کا وارث ہے جو ظلم کے خلاف مزاحمت کو صرف فرض نہیں بلکہ فطرت سمجھتا ہے۔
یہ مزاحمت کوئی نئی بات نہیں۔ بلوچ قوم کی یہ روش ہزاروں سال پرانی ہے۔ جب تاریخ نے قبائلی نظاموں کو مٹایا، جب سلطنتیں آئی اور گئیں، جب اقوام محکوم ہوئیں اور ثقافتیں مٹ گئیں —تب بھی بلوچ اپنے وقار اور مزاحمت کے ساتھ زندہ رہا۔ یہ مزاحمت زمین شناخت بقاء، اورآزادی کے لیے تھی، اس وجود کے لیے تھی جو کسی بھی سامراجی بیانیے کے تابع نہیں ہوتا۔
شہداء کی قربانیاں ہماری اسی مائتھالوجی کا تسلسل ہے۔ ہمارے اردگرد ہمارے تاریخ کے ہر پنہ پر ایسا مزاحمتی متھ موجود ہے جو صرف بلوچ قوم تک محدود نہیں، بلکہ انسانی تاریخ کی اس ازلی جنگ کا حصہ ہے جس میں مظلوم، محکوم، اور مجبور لوگ ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے
ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ مزاحمت ایک "یونیورسل انسانی مزاحمت” ہے۔ یہ ہماری جینز میں موجود ہے، یہ ہمارے خوابوں میں ہے، ہمارے گیتوں میں ہے، ہماری قبروں پر کندہ ہے، اور ہماری نظروں میں جھلکتی ہے۔
یہی مستقل مزاجی ہے —کہ ہم اپنی نسلوں کو صرف حال کے مسائل میں الجھنے کے لیے نہیں چھوڑتے، بلکہ انہیں ایک مزاحمتی شعور، ایک تاریخی ذمہ داری، اور ایک آزاد مستقبل کی امید دے کر آگے بڑھاتے ہیں
مستقل مزاجی کوئی ایسی صلاحیت نہیں جو کسی کتاب سے سیکھی جا سکے، نہ ہی یہ کوئی ایسا مضمون ہے جس کے لیے سلیبس بنایا جائے، ٹیسٹ پیپر تیار ہوں یا اس کی تیاری کے لیے گائیڈ لائنز دی جا سکیں۔ یہ کسی خاص تکنیک کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ ایک داخلی شعور، ایک وجودی کیفیت اور ایک ذمہ داری کا احساس ہے جو انسان اپنے گرد و پیش، اپنے سماج، اپنی تاریخ، اور آنے والے وقت کے حوالے سے محسوس کرتا ہے۔
یہ وہ کیفیت ہے جو انسان کو حال کی محدودیت سے نکال کر مستقبل کی وسعتوں میں جھانکنے کی تحریک دیتی ہے۔ لیکن یہ جھانکنا محض تجسس یا خواہش پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک گہری فکری وابستگی اور اخلاقی شعور سے جنم لیتا ہے۔ یہ وہ مزاج ہے جو فرد کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں، اپنے نظریات، اور اپنی جدوجہد کو محض وقتی فائدے کے بجائے طویل مدتی اثرات کے تناظر میں پرکھے۔
مستقبل مزاجی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے نکل کر ایک اجتماعی شعور کا حصہ بنے۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے سوچے، ان کی آزادی، ان کے وقار، اور ان کی فکری خودمختاری کی ضمانت کے لیے آج کا قدم اٹھائے۔ یہ محض پیش بینی نہیں بلکہ ایک فکری ذمہ داری ہے
، جو تاریخ کے تسلسل، حال کی حقیقت اور مستقبل کی امید کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔
ایسے لوگ جو واقعی مستقبل مزاج ہوتے ہیں، وہ اپنے خوابوں کو وقتی نعروں میں نہیں بیچتے۔ وہ جانتے ہیں کہ وقتی فائدے، وقتی اقتدار یا وقتی تسلیاں تاریخ کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ وہ اپنی زندگی کو ایک امانت سمجھتے ہیں —ایسی امانت جو ان کے بعد بھی زندہ رہنی چاہیے، جو
ان کے بچوں، ان کی قوم، اور آنے والی دنیا کو کچھ دے کر جائے۔
یہ مزاج تربیت سے نہیں آتا، بلکہ خود آگہی، اجتماعی شعور، اور تاریخی بصیرت سے جنم لیتا ہے۔ یہ اندر کا وہ الاؤ ہے جو انسان کو عمل پر اکساتا ہے، جب کہ باقی دنیا مصلحتوں کے کمبل اوڑھے سو رہی ہو۔
لغت صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ طاقت، تاریخ، فکر اور سماجی ساخت کا اظہار ہوتی ہے۔ ہر زبان اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہے، مگر جب زبان کو نوآبادیاتی مقاصد کے تحت مسلط کیا جائے تو وہ صرف ابلاغ کا وسیلہ نہیں رہتی، وہ ایک نظریاتی ہتھیار بن جاتی ہے۔ برطانوی سامراج نے جہاں عسکری قوت کے ذریعے زمینوں پر قبضہ کیا، وہیں نوآبادیاتی لغت کے ذریعے ذہنوں پر غلبہ پایا۔ اس لغت میں ہر وہ لفظ جو نوآبادیاتی اقتدار کو جائز، اخلاقی اور "ترقی یافتہ” ظاہر کرے، تقدیس کے ساتھ شامل کیا گیا، اور ہر وہ لفظ جو مقامی مزاحمت، ثقافت یا علم کی نمائندگی کرے، اسے یا تو حذف کر دیا گیا یا اس کا مفہوم مسخ کر کے پیش کیا گیا۔
"مزاحمت” ان کی لغت میں "غیر قانونی حرکت” بنی، "آزادی” کو "فساد”، "قومی تشخص” کو "عصبیت”، اور "مزاحمت” کو "انتہا پسندی” میں بدل دیا گیا۔ اس لغت کا مقصد صرف ترجمہ نہیں، بلکہ تعبیر پر قبضہ تھا — یعنی وہی واقعات، وہی تاریخ، مگر معنی سامراج کے
بنائے گئے۔ اس طرح نوآبادیاتی لغت نے محکوم اقوام کی سوچ کو غلامی میں جکڑا، اور ان کے الفاظ کو ان کے خلاف ہتھیار بنایا۔
نوآبادیاتی لغت کا انہدام محض ایک لسانی کوشش نہیں، یہ استعماریت کے خلاف فکری بغاوت ہے۔ جب ایک محکوم قوم سامراجی زبان و بیان کے خلاف اپنی لغت تخلیق کرتی ہے، تو وہ صرف الفاظ کو نہیں بلکہ معانی، تاریخ اور پہچان کو بازیافت کرتی ہے۔ یہ عمل، فرینز فینن کی زبان میں، "نوآبادیاتی انسان کی خود شناسی” کا پہلا قدم ہے۔
آج بھی عالمی میڈیا، تعلیمی نظام، ریاستی بیانیے اور حتیٰ کہ ترقیاتی اصطلاحات میں نوآبادیاتی لغت کی باقیات موجود ہیں۔ "ترقی”، "استحکام”، "قومی مفاد”، "سیکورٹی” — یہ تمام الفاظ جب سامراجی سیاق میں استعمال ہوتے ہیں تو ایک خاص نظریاتی فریم ورک کو تقویت دیتے ہیں۔ ان الفاظ کا انہدام دراصل اس بیانیے کی شکست ہے جو آزادی کو جرم، اور غلامی کو نظم و استحکام ظاہر کرتا ہے۔
لہٰذا، نوآبادیاتی لغت کا انہدام ایک لازمی انقلابی فعل ہے۔ یہ فعل محض زبان کی تبدیلی نہیں بلکہ شعور کی بیداری، تشخص کی بازیافت، اور آزادی کی تعبیر نو ہے۔ ہمیں اپنے الفاظ، اپنی زبان، اور اپنے معانی کو خود تخلیق کرنا ہوگا — تاکہ ہم نہ صرف نوآبادیاتی زبان سے آزاد ہوں بلکہ نوآبادیاتی سوچ سے بھی
ہم اس مزاحمتی منشور کے ذریعے اس نوآبادیاتی بیانیے کو رد کرتے ہیں جو بلوچ قوم کی آزادی کو عسکری قوت، ریاستی غرور، اور لغوی فریب کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ منشور نہ صرف ایک سیاسی مؤقف بلکہ ایک فکری، اخلاقی، اور تاریخی اعلان ہے کہ بلوچ قوم ایک زندہ، باشعور اور بیدار قوم ہے، جو اپنی قومی آزادی کو فطری حق، تاریخی تقاضا، اور انسانی ذمہ داری کے طور پر دیکھتی ہے۔
نوآبادیاتی ریاستیں ہمیشہ آئین و قانون کے لبادے میں اپنے جبر کو قانونی اور اخلاقی جواز دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں "قانون” کا مطلب وہی ہے جو ان کے مفادات کی حفاظت کرے، اور "آئین” وہ کتاب ہے جس کے ہر صفحے پر ظلم کی سیاہی سے محکوموں کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔ بلوچستان جیسے مقبوضہ خطے میں سامراجی لغت کے الفاظ آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی، اور مزاحمت کو بغاوت قرار دیتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی یہ چالبازی اس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب محکوم قوم شعور کی اس سطح پر پہنچ جائے جہاں وہ لغت کو اپنی انقلابی حس سے ازسرِ نو مرتب کرنے لگے۔
آج کا بلوچ نوجوان محض بندوق اٹھائے پہاڑوں میں روپوش ایک زندہ شعور، ایک تاریخی بصیرت، اور ایک تخلیقی قوت ہے جو نوآبادیاتی بیانیے کے ہر دراڑ میں اپنی مزاحمت کا بیج بو رہا ہے۔ یہ نسل ماضی کی قربانیوں، انقلابی شکستوں، اور تاریخی فریبوں سے سیکھ کر ابھری ہے۔ وہ مذہبی فریب، آئینی دغا، اور نوآبادیات کی نفسیات سے واقف ہے۔ اس کا ذہن صرف مقامی نہیں، بلکہ عالمی شعور سے جُڑا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ضیاء، ایوب، مشرف اور اب عاصم منیر جیسے جرنیل ایک مسلسل نوآبادیاتی فطرت کے تسلسل کا نام ہیں جو چہروں کے فرق کے باوجود کردار میں یکساں ہیں۔
گوریلا جنگ محض ایک جنگی تکنیک نہیں، بلکہ ایک مکمل فلسفہ، ایک طرزِ زندگی، اور ایک فکری انقلاب ہے۔ روایتی فوجی مشین کی مانند محدود، جامد اور حکم کے تابع ہوتا ہے، جبکہ گوریلا سپاہی آزاد ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ وہ دشمن کے مقابلے میں کم وسائل، کم افرادی قوت، اور کم تر
ٹیکنالوجی کے باوجود اس کی سب سے بڑی برتری یعنی "میکانیکی سوچ” کو شکست دیتا ہے۔ گوریلا جنگ دراصل تخلیق کا نام ہے —ایسی تخلیق جو دشمن کی توقعات کو توڑتی ہے، جو ہر لمحہ نئی حکمتِ عملی تخلیق کرتی ہے، جو ہر وادی کو مورچہ اور ہر خاموشی کو طوفان میں بدل دیتی ہے۔
گوریلا سپاہی (سرمچار)وقت اور فضا کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کے پاس جو سب سے بڑی طاقت ہے، وہ اُس کا نظریاتی یقین، ذہنی لچک، اور تخلیقی تدبر ہے۔ وہ دشمن کو اس کی منطق، اس کے ضابطے، اور اس کی ساخت میں الجھا کر، خود کو ایک غیر متوقع قوت میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ کوئی ایک راستہ نہیں چنتا، وہ ہر سمت سے دشمن کو گھیرنے کا فن جانتا ہے۔ اس کا ہر لمحہ ایک نئی جنگی صورت گری ہے، ایک نیا تخلیقی تجربہ، جو روایتی عسکریت کی روح پر ضرب بن کر گرتا ہے۔
عاصم منیر اگر تاریخ سے واقف ہوتے تو جان لیتے کہ گوریلا جنگیں صرف جسمانی محاذ پر نہیں لڑی جاتیں، بلکہ وہ سامراجی ذہنیت کی گہرائیوں تک رسوخ کرتی ہیں۔ وہ قانون کے پردے میں چھپے جبر کو ننگا کرتی ہیں، وہ قومی آزادی کو آئینی دفعات سے ماورا ایک فطری حق کے طور پر منواتی ہیں۔ بلوچ مزاحمت اسی جدوجہد کا تسلسل ہے —ایک ایسا تسلسل جو کسی ریاست کے سربراہ کے لہجے سے نہیں ڈرتا، بلکہ اُسے تاریخ کی جابر آواز سمجھ کر مسترد کرتا ہے۔
یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ وہ آئین جو ظلم کو قانون، جبر کو تحفظ، اور مزاحمت کو جرم قرار دیتا ہے، راکھ نہ ہو جائے۔ اور تب تک یہ گوریلا سپاہی، یہ تخلیقی سرمچار، اپنی گمنامی کی طاقت سے اُس ریاست کو شکست دے گا جو خود اپنی طاقت کے زعم میں اپنی قبر کھود رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی جبری گمشدگیاں، غیر انسانی سزائیں اور جعلی مقابلوں کے خلاف بلوچ قوم کی ایک بڑی تحریک ابھری ہے۔ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

پیر اپریل 28 , 2025
‏بلوچ آزادی پسند رہنما رحیم ایدووکیٹ بلوچ نےکہا ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بڑے مکار ہیں۔ جب بھی کسی مسئلے پر ان پہ بین الاقوامی دباؤ بڑھنے لگتا ہے، یا اپنے ملک کی سیاست، سیادت معیشت اور اقتدار پر ان کا نا جائز گرفت ڈھیلا پڑنے لگتاہے، یا […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ