شہید کریم بلوچ: ایک نظریہ، ایک کردار، ایک تسلسل!

تحریر: رامین بلوچ (دوسرا حصہ)
زرمبش مضمون

کریم جان تنظیم کے ہر احتجاج میں سب سے آگے ہوتا، ایک بار کسی ہڑتال کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن ہوئی، توکریم جان سب کی ہمت باندھی اور بولا:”اگر ہم پیچھے ہٹ گئے تو ہمارے قدموں کے نشان مٹا دیے جائیں گے۔ ہمیں خوف زدہ ہونے کے بجائے دشمن کے دل میں خوف اُتارنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہوگا اور وہ ہنر بھی، جو مظلوم کو ظالم کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہونا سکھاتا ہے۔”
مجھے یاد ہے جب ایک بار وہ گردوں بیماری کے باعث کمزور پڑ گیا تھا— جسمانی تکلیف بہت تھی۔ لیکن اسی حالت میں اس نے سٹڈی سرکل میں شرکت کی۔ ہم نے کہا:”سنگت آرام کر لیتے،اس نے مسکرا کر کہا:بعد میں بھی آرام کرلوں گا۔ لیکن اگر آج کا تربیتی سرکل مس ہو گیا، اگر یہ سیکھنے کا لمحہ چھوٹ گیا، تو میرے اندر ایک بے چینی پیدا ہو جائے گی۔ ایک ایسی بے چینی جو شاید مجھے کل بھی سونے نہ دے۔”
ہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ اس شخص کی بات تھی جو جانتا تھا کہ علم صرف الفاظ کا بوجھ نہیں، بلکہ شعور کی قندیل ہے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ تربیتی سرکل صرف عام گفتگو یاباتوں کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک ہیں ان زنجیروں کو پہچاننے کا جو صدیوں سے ہمارے گرد لپٹی ہوئی ہیں۔
اُس کی مسکراہٹ ہمیں یاد دلاتی رہی کہ انقلابی سفر میں نیند اور آرام بھی نظریاتی فیصلے ہوتے ہیں۔اور اُس دن، اس سنگت نے ہمیں سکھا دیا کہ سیکھنے کا جذبہ بھی مزاحمت کی ایک صورت ہے۔اور مزاحمت… کبھی تھکتی نہیں۔ہم اُس کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ اُس کی آنکھوں میں آرام نہیں، اضطراب اور ایک فکری پیاس تھی۔ وہ جانتا تھا کہ انقلاب صرف جذبے سے نہیں آتا، وہ علم مانگتا ہے، تربیت مانگتا ہے، وہ فہم مانگتا ہے۔یہ بات صرف ایک مکالمہ نہیں تھی، یہ ایک درس تھا۔ہم نے اُس لمحے سیکھا کہ آرام وقتی ہے، لیکن علم وفکرمستقل روشنی ہے۔نیند سکون دیتی ہے، مگر شعور ہمیں زندہ رکھتا ہے۔
کریم بلوچ شہید حمید بلوچ کی افکار اورکردارسے بے پناہ متاثر تھا۔ اس کے پاس حمید بلوچ کی تحریر شدہ ایک غیر مطبوعہ کتاب کا مسودہ موجود تھا، جسے شہید حمید شاہین نے مچھ لائبریری سے لے کر دیا تھا کہ اس مسودہ کو چھپوایاجائے ۔ یہ مسودہ صرف ایک دستاویز نہیں ،بلکہ قومی ورثہ ہے
مگر جیسے ہی وقت نے کریم جان کوسے ہم سے اچانک چھین لیا، وہ مسودہ بھی ایک راز بن گیا۔ شاید وہ کہیں موجود ہو، شاید وہ بھی کریم جان کی طرح کسی اور نظریاتی وارث کے ہاتھ میں ہو یا کاکسی مکتب میں پڑے ہو یا کسی گھر میں ہمارا ارادہ تھا کہ اسے شائع کیا جائے، مگر وہ خواب ادھورا رہ گیا۔
(کرتار سنگھ سرابھا سے کریم بلوچ تک)
تاریخ کچھ ایسے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے صفحات میں محفوظ کر لیتی ہے جو اپنی ذات کو مٹا کر نظریات کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو وقت کے جبر کے سامنے سر جھکانے کے بجائے، سر بلند کرتے ہیں۔ جو جسمانی شکست کو قبول کرتے ہیں لیکن فکری غلامی کو نہیں۔کریم بلوچ انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ بلوچ مزاحمت کی علامت تھے، لیکن ان کی سوچ، کردار اور قربانی لازوال ہے، جس کی کڑیاں ہمیں بھگت سنگھ، کرتار سنگھ سرابھا، ہو چی من، فیڈل کاسترو اور چی گویرا جیسے انقلابیوں کے افکار و عمل میں دکھائی دیتی ہیں۔
کریم بلوچ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے اپنی آنکھیں کھولتے ہی ریاستی جبر، اور نوآبادیاتی تسلط کو دیکھا۔ لیکن اُنہوں نے ان مظالم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول نہیں کیا، بلکہ انہیں بدلنے کا عزم کیا۔ ان کا تصورِ آزادی محض جغرافیائی خودمختاری تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ بلوچ قوم کی فکری، سماجی اور معاشی آزادی کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ شعور، قربانی اور مسلسل جدوجہد سے ہی حقیقی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہی وہ فکر تھی جس نے کرتار سنگھ سرابھا جیسے 19 سالہ نوجوان کو سولی پر چڑھنے پر آمادہ کیا۔ جب انگریز عدالت نے اُس سے معافی مانگنے کو کہا، تو اُس نے برطانوی سامراج کے سامنے جھکنے کے بجائے موت کو گلے لگایا اور کہا:”اگر میں مر بھی جاؤں تو اگلے جنم میں پھر انڈیا کی آزادی کے لیے لڑوں گا۔”
یہ وہی نظریاتی شدت اور سچائی تھی جسے کریم بلوچ نے بھی جیا۔ وہ جانتے تھے کہ نوآبادیاتی ریاست کی عدالتیں، جیلیں اور عقوبت خانے محض جسم کو قید کر سکتے ہیں، نظریے کو نہیں۔
کریم بلوچ کی شہادت کوئی حادثہ نہ تھی، بلکہ وہ ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ اس عہد کا اظہار تھا کہ وہ ایک ایسی دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں جہاں بلوچ قوم، آزادی، عزت، اور برابری کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ ان کا کردار چی گویرا کی یاد دلاتا ہے، جو بولیویا کے جنگلات میں جان دے کر بھی امر ہو گیا۔ گویرا نے کہا تھا:”اگر تمہیں میری موت سے فائدہ ہو تو میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔”اور کریم بلوچ نے بھی جانتے بوجھتے اپنی جان اس زمین کے نام کر دی جس کی مٹی میں اُس کی امیدیں دفن تھیں۔اسی طرح فیڈل کاسترو اور ہو چی من کی تحریکوں نے بھی نوآبادیاتی استعمار کے خلاف نہ صرف مزاحمت کی بلکہ نئے انقلابی سماج کی بنیاد رکھی۔ ان سب تحریکوں کی بنیاد ایک ہی اصول پر تھی: مزاحمت، قربانی، اور جدوجہد۔ کریم بلوچ نے اسی انقلابی فلسفے کو بلوچ مزاحمت کے تناظر میں برتا۔ اُنہوں نے فکری مصالحت کو رد کیا اور واضح کیا کہ آزادی کا کوئی درمیانی راستہ نہیں۔ریاست نے سوچا کہ کریم بلوچ کی جان لے کر وہ مزاحمت کو ختم کر دے گی، مگر وہ یہ نہ جانتے تھے کہ قربانی، نظریے کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جس طرح بیج مٹی میں دفن ہو کر ہزاروں نئے درخت اگاتا ہے، ویسے ہی کریم بلوچ کی شہادت نے ہزاروں نوجوانوں کے دلوں میں مزاحمت کا شعلہ روشن کیا۔ وہ محض ایک فرد نہ تھے، ایک فکر تھے، ایک تسلسل تھے، ایک عہد تھے۔
کریم بلوچ نے ہمیں یہ سکھایا کہ موت جدوجہد کا اختتام نہیں، بلکہ ایک نیا آغاز ہے۔ وہ اُس روایت کا امین تھا جو ہر دور میں بلوچ قوم کی آواز بنتی رہی۔ اُس کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ قومیں اس وقت ہی زندہ رہتی ہیں جب وہ اپنے سچ کو جبر کے مقابل لا کھڑا کرتی ہیں۔
اور یہی سچ ہے جس نے کرتار سنگھ سرابھا کو سولی، بھگت سنگھ کو پھانسی، چی گویرا کو گولی، اور کریم بلوچ کو شہادت کی طرف لے جایا۔ مگر ان سب کی موت ایک نئی زندگی کی نوید تھی، کیونکہ نظریات مارے نہیں جا سکتے، وہ صرف آگے منتقل ہوتے ہیں۔
کریم بلوچ آج جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، لیکن اس کی فکر، اس کے نظریات، اس کا کردار اور اس کی قربانی ہمارے دلوں میں، ہمارے ازہان میں، ہمارے خوابوں میں زندہ ہے۔ وہ شہید ہے، اور شہید مرتے نہیں —وہ مزاحمت کی مشعل بن کر نسلوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔
(کریم بلوچ: ایک نظریاتی جہدکار کی یاد میں ایک ہمسفر کی زبان سے)
"تاریخِ آزادی میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف مزاحمت کی میراث کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں بلکہ اپنے عمل، گفتار اور فکر سے اس جدوجہد کو نسل در نسل منتقل کرتے ہیں —وہ چہرے تاریخ کے صفحات میں محض نام نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک روشنی، اور ایک تحریک بن جاتے ہیں۔”کریم بلوچ کا ہنستا ہوا چہرہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے —وہ چمکتی ہوئی آنکھیں جن میں آزادی کا خواب ایک زندہ حقیقت کی طرح جھلکتا تھا۔ وہ ایک ایسا ساتھی تھا جو انقلابی رومان میں نہیں بلکہ نظریاتی شعور اور عملی جدوجہد میں جیتا تھا۔ 2011 میں جب شہید کریم بلوچ کی جبری گمشدگی کی خبر ملی، تو وہ لمحہ میرے لیے بجلی بن کر گرا۔ وہ ایک مہربان سنگت، ایک شفیق ساتھی تھا، جس کے ساتھ ہم نے کئی نشستوں میں قومی آزادی کے خواب بُنے، فکری مباحثوں میں راتیں گزاریں، اور احتجاجی صفوں میں شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اُس کی جدائی، ایک طرف شدید غصے کی لہر تھی، دوسری طرف گہرے دکھ کا احساس—لیکن میرے دل کی گہرائیوں سے ایک آواز ابھری: ‘وہ کہیں گیا نہیں، وہ روشنی بن گیا ہے، جو اب ہمارے راستے روشن کرے گی۔’
یاد آتا ہے وہ دن جب ہم چلتن، کوہ مہردار اور بولان کے دامن میں بیٹھ کر قومی شعور کے ارتقاء پر بحث کرتے، وہ جب بھی بات کرتا بلوچ نوجوانوں میں بیداری کی نئی لہر کی باتیں کرتا۔ اس کی باتوں میں وہ تاثیر تھی جو دل کو چھو لیتی، اور اس کی موجودگی میں ایک عجیب سا حوصلہ محسوس ہوتا تھا۔ وہ صرف ایک شہید نہیں، بلکہ ایک استاد، ایک رہنما،ایک مخلص دوست اور ایک نظریاتی مشعل بردار تھا، جس کی یاد آج بھی ہمیں اپنی راہ پر ثابت قدم رکھتی ہے۔کریم بلوچ کو میں مذہبی معنوں میں شہید کہنے سے گریز کرتا ہوں، کیونکہ میرا نظریہ ہے کہ شہادت ایک سائنسی، فکری اور مادی تسلسل ہے۔ یہ جینز کی مانند اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی ہے، جیسے بیج زمین میں گرتا ہے، فنا ہوتا ہے، مگر اس فنا میں صدہا وجود جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کریم بلوچ آج بھی زندہ ہے، اس کے خون کی روانی آج بھی نوجوان بلوچوں کے رگوں میں انقلابی جوش بن کر دوڑ رہی ہے۔
شہید صرف وہ نہیں ہوتا جو کسی معرکے میں جان دیتا ہے، بلکہ وہ بھی شہید ہوتا ہے جو ایک نظریے کے لیے جیتا ہے، اور اپنے وجود سے اس نظریے کو جلا بخشتا ہے۔ شہادت محض خون بہانے کا نام نہیں، بلکہ شعور کے اس تسلسل کا نام ہے جو بندوق کے سامنے بھی اپنا لہجہ نہیں بدلتا، جو خوف کے سائے میں بھی سوال کرنا نہیں چھوڑتا، اور جو جبر کی دیواروں پر فکری ہتھوڑا بن کر گرتا ہے۔
شہید کریم بلوچ، بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ میں صرف ایک کردار نہیں بلکہ ایک جہت، ایک مکتبِ فکر اور ایک نظریاتی رویے کا نام ہے۔اس کی شخصیت کا کمال یہ تھا کہ وہ کتابوں سے محبت کرتا تھا، مگر محض قاری نہیں، عملی تعبیر کا داعی تھا۔ وہ عمل پر یقین رکھتا تھا، مگر بغیر شعور کے عمل کو خطرہ سمجھتا تھا۔
یہ یادگاری دستاویز، ایک ساتھی، ایک نظریاتی ہمسفر کی حیثیت سے لکھی گئی ہے۔ یہ محض تعزیتی یا عقیدت بھری تحریر نہیں بلکہ ایک شعوری دستاویز ہے، جس کا مقصد شہید کریم بلوچ کے افکار، عمل اور جدوجہد کو زندہ رکھنا ہے تاکہ آنے والی نسلیں صرف جذبات سے نہیں، دلیل،
بصیرت اور فکر سے مسلح ہو کر جدوجہد کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت میں قابض فوج کے آلہ کار کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں – بی ایل اے

اتوار اپریل 20 , 2025
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا ہے کہ سرمچاروں نے تربت میں ایک حملے کے دوران قابض پاکستانی فوج کے ایک آلہ کار کو ہلاک کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سرمچاروں نے گذشتہ روز تربت کے علاقے ڈنک میں ایک مسلح حملے میں آلہ کار امان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ