تحریر: رامین بلوچ (پہلا حصہ)
زرمبش اردو

”شہید مر نہیں سکتا، کیونکہ شہادت جسم کی فنا نہیں، بلکہ نظریے کی ازسرِ نو نمود اور روشنی ہے۔“
قوموں کی تاریخ میں کچھ افراد محض گوشت پوست کے انسان نہیں ہوتے، بلکہ وہ تاریخ کا دھارا موڑنے والے کردار بن جاتے ہیں۔ ان کی موجودگی وقت کی رفتار سے الگ، ایک ایسے محور کے گرد گھومتی ہے جہاں قوموں کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔ شہید کریم بلوچ بھی انہی جاوداں کرداروں میں سے ایک تھے—جنہیں وقت کے کسی تقویم میں محدود نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک جہدِ مسلسل اور قومی بیداری کی علامت بن چکے تھے۔
شہید کریم بلوچ کی زندگی اس امر کی روشن مثال ہے کہ جب کوئی فرد اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر قومی آزادی اور وقار کی جدوجہد سے جُڑ جائے، تو وہ تاریخ میں امر ہو جاتا ہے۔ ان کے خیالات، آدرش، گفتگو، اور سب سے بڑھ کر ان کی عملی جدوجہد، ایک ایسے عزم کی غماز تھی جسے ریاستی اذیت خانوں نے جھکا نہ سکا۔
مارچ 2017 کا وہ رو پرور لمحہ، جب ریاستی اداروں نے انہیں جبری طور پر حراست میں لے کر لاپتہ کیا، محض ایک فرد کی گمشدگی نہ تھی بلکہ ایک نظریے پر حملہ تھا۔ اور پھر 17 اپریل 2017 کو، جب شہید کریم جان کی لاش بلوچستان کی سنگلاخ زمین پر پھینکی گئی، تو وہ کوئی عام لمحہ نہیں تھا۔ وہ ایک قیامت کا منظر تھا—ایسا منظر جس میں انسانیت کی روح لرز اٹھے۔ بلوچ قوم کو ایک زندہ وجود میں لاش کا ایک اور تحفہ دیا گیا۔ ”مارو اور پھینکو“ کی ریاستی جارحیت میں دھرتی نے اپنے ایک اور بہادر سپوت کی خاموش چیخ اپنے سینے میں دفن کر لی۔
شہید کریم جان ایک باشعور، تعلیم یافتہ، اور فکری و عملی طور پر نظریاتی کیڈر تھے۔ انہوں نے اپنی جوانی قومی شعور پھیلانے، غلامی کی زنجیروں کو توڑنے، اور عمل کی راہ دکھانے میں صرف کر دی۔ ریاست نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ درحقیقت اس کی نفسیاتی شکست کا اعتراف تھا۔ ریاست نہ صرف جسموں کو قید کرتی ہے، بلکہ نظریات سے خوفزدہ ہو کر لاشوں کو بھی مسخ کرتی ہے۔
کیا کسی مہذب دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جائے، مہینوں اس کی کوئی خبر نہ ہو، اور پھر ایک دن اس کی لاش زخموں اور تشدد کے نشانات کے ساتھ پھینک دی جائے؟
تاریخ کا دامن ہمیشہ ان لمحوں سے داغدار رہا ہے جب قابض قوتوں نے مزاحمت کرنے والوں کے جسم روند ڈالے، ان کے وجود مٹا دیے، اور ان کی قبریں تک کھود ڈالیں۔ لیکن ہر بار ایک تلخ سچ ابھر کر سامنے آیا: فکر کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ شہید کریم جان کی جدوجہد، ان کے نظریات اور قربانی بھی اسی اٹل سچ کا حصہ ہیں۔ ایک ایسی فکر، جو گولیوں سے نہ رکی؛ ایک ایسا آدرش، جو خون سے نہ بجھا۔
شہید کریم جان کا تعلق بلوچوں کی اُس نسل سے تھا جس نے بلوچ قومی آزادی، انسانی وقار، فطری حق، اور تاریخی تسلسل کو ایک نئی جہت دی۔ ان کا لہجہ دلیل سے مسلح، زبان فکری مزاحمت سے لبریز، اور سوچ بلوچ قوم کی اجتماعی بیداری کی معراج تھی۔ وہ آزادی کو ایک ناگزیر حقیقت کے طور پر دیکھتے تھے، اور بخوبی جانتے تھے کہ پاکستانی ریاست کا مصنوعی وجود بلوچ سرزمین پر زبردستی مسلط شدہ نوآبادیاتی بندوبست ہے۔
کریم جان کو شہید کرنے والی ریاستی بربریت دراصل اُس گہرے خوف اور احساسِ عدم تحفظ کی عکاسی ہے جو قابض ریاست کو ہر اُس نظریاتی فرد سے ہوتا ہے جو ریاست کے جھوٹے بیانیے کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی پیدائشی حقِ آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان کی لاش کے ساتھ کیا گیا سلوک بلوچ مزاحمت کو نفسیاتی شکست دینے کی ایک مجرمانہ کوشش تھی۔ مگر سوال یہ ہے: کیا 76 سالوں سے جاری یہ نوآبادیاتی ہتھکنڈے کامیاب ہوئے؟ کیا بلوچ نوجوان اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹے؟ کیا بلوچ شعور کی مشعل بجھ گئی؟
نہیں! بلکہ یہ مظالم، یہ سفاکیت، ہر شہید کا خون قوم کی رگوں میں نئی شعلہ بن کر ابھرا۔
شہید کریم جان جانتے تھے کہ:
”استحصالی طاقتیں نظریات، کمٹمنٹ اور مزاحمت سے خوفزدہ ہوتی ہیں، اسی لیے وہ ہر اُس فرد کے لیے جلاد بن جاتی ہیں جو ان کے قبضے کو چیلنج کرتا ہے۔“
نوآبادیاتی طاقت صرف زمین، وسائل اور وجود پر نہیں بلکہ ذہنوں اور خیالات پر بھی قبضہ چاہتی ہے۔ وہ ہر اُس سوچ سے لرزتی ہے جو اس کی مطلق العنانیت کو چیلنج کرے، ہر اُس نظریے سے خوف کھاتی ہے جو اس کے تسلط کے خلاف علمِ مزاحمت بلند کرے، اور ہر اُس فرد سے انتقام لیتی ہے جو اس کے جبر کو تسلیم کرنے سے انکار کرے۔
اسی لیے استحصالی طاقت کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ انسان ہوتا ہے جو غلامی کے خلاف صرف بولتا ہی نہیں بلکہ اپنی کمٹمنٹ کو عمل میں ڈھالتا ہے۔ نوآبادیاتی طاقت صرف بندوق سے نہیں بلکہ خوف سے حکمرانی کرتی ہے، اور جب کوئی فرد، یا کوئی قوم یہ خوف توڑ دیتی ہے، تو وہ طاقت کی بنیادیں ہلانے لگتی ہے۔
تبھی تو قابض نظریات سے ڈرتا ہے—کیونکہ نظریات وہ بیج ہیں جو مزاحمت کی فصل اگاتے ہیں۔ وہ مزاحمت جو نہ گولی سے دبتی ہے، نہ جیل سے، نہ غداری کے فتووں سے، نہ جلاوطنی سے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب قابض کو اپنے وجود کی موت کا سامنا ہونے لگتا ہے۔
اس لیے ہر انقلابی، ہر مزاحم، اور ہر سچ بولنے والا فرد دراصل ان دیواروں میں دراڑ ڈال رہا ہوتا ہے جن پر قبضے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ وہ جب سچ بولتا ہے تو ریاست کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں؛ جب وہ سچ لکھتا ہے تو ایوان لرزنے لگتے ہیں؛ اور جب وہ آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرتا ہے تو تاریخ اس کے قدموں کے نشان محفوظ کر لیتی ہے۔
ایک نظریاتی انسان کے ساتھ ایسا سلوک اور اس پیمانے کی بربریت دراصل ریاست کی بزدلی کی انتہا ہے۔ کیونکہ ایک باشعور اور پرعزم کیڈر سے اس سے بڑھ کر اور کیا انتقام لیا جا سکتا ہے کہ اسے اغوا کر کے اس کی لاش پھینک دی جائے؟ مگر کریم جان کی مسخ شدہ لاش ریاستی انتقام نہیں، بلکہ ریاستی شکست کی علامت تھی۔ وہ جسم، جس پر ہر زخم ایک دلیل، ہر نشان ایک گواہی، اور ہر خاموشی ایک انکار تھا۔
شہید کریم جان کا خون آج بھی بلوچستان کی مٹی میں بولتا ہے۔ وہ ہر اُس نوجوان کے آدرش میں زندہ ہے جو قومی آزادی کی تمنا رکھتا ہے؛ ہر اُس ماں کے دل میں دھڑکتا ہے جو اپنے بچے کو شہید کریم جیسا بہادر دیکھنا چاہتی ہے؛ اور ہر اُس کتاب کے حرف میں زندہ ہے جو غلامی کے خلاف لکھی گئی ہو۔ یہ سچ ہے کہ ریاست نے ان کا جسم چھینا، لیکن ان کی سوچ، ان کا مشن اور ان کا جذبہ آج بھی ناقابلِ تسخیر ہے۔
2004 کی وہ گھڑی جب پہلی بار اس بے حد خوش مزاج، مہربان اور فکری بلوغت کے حامل نوجوان سے شناسائی ہوئی، آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔ وہ وقت جب ہم نوجوانی کے جوش اور نظریاتی تشنگی کے ساتھ اپنے راستے تلاش رہے تھے۔ اس وقت وہ بی ایس او متحد کا ایک متحرک کارکن تھا، مگر اس کی نظریاتی شدت اور عملی کمٹمنٹ دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ پورے قافلے کا علمبردار ہو۔ میں اس وقت عمر میں اُس سے معمولی فرق سے چھوٹا تھا، لیکن اس کے ساتھ جو نظریاتی رشتہ استوار ہوا، وہ ہر قسم کی سنیارٹی اور جونیارٹی کے تصور سے بالاتر تھا۔
کریم بلوچ گردوں کے مرض میں مبتلا تھے، لیکن اس کی خرابیِ صحت کبھی بھی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنی۔ بی ایم سی سے لے کر بلوچستان یونیورسٹی، پولی ٹیکنک کالج، ڈگری کالج اور ہر تنظیمی سرکل میں وہ متحرک نظر آتا، جیسے اس کا وجود خود تحریک کا وجود ہو۔
اس نے بی ایس او کو صرف افرادی قوت ہی نہیں دی، بلکہ سینکڑوں نوجوانوں کو فکر، نظر اور عمل کا وہ پیغام دیا جو ہر تحریک کی بنیاد ہوا کرتا ہے۔ وہ یقین سے آگے کی منزل پر تھا؛ اس کا عمل، اس کا وجود، اس کی گفتگو—سب نظریے کی مجسم صورت تھے۔
شہید کریم بلوچ ایک جذباتی نوجوان نہیں، بلکہ ایک گہری نظریاتی تربیت اور فکری وابستگی سے مسلح انسان تھے۔ اس نے مجھے فرانز فینن سے متعارف کرایا۔ "افتادگانِ خاک” ہمارے ہاتھوں میں تھمائی اور کہا: "یہ آزادی کے متوالوں کا صحیفہ ہے۔”
جب ہم نے وہ کتاب پڑھی، تو محسوس ہوا کہ ہر سطر بلوچ کی اجتماعی اذیت کا آئینہ ہے۔ ایسا لگا جیسے فینن نے افتادگان کا تصور بلوچ سرزمین کے زخموں سے کشید کیا ہو۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے، جب ہم بلوچستان یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے تھے۔ کئی ساتھی اس کے گرد موجود تھے۔ کریم جان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی جلد والی ایک کتاب تھی۔ میں نے کہا: "کریم جان، مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے اور میں لکھتا بھی ہوں، لیکن یہ کتاب میں نے کبھی نہیں دیکھی۔” وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا، پھر میری طرف مڑا اور بولا: "تُو کتابوں کا سنگت ہے، مجھے معلوم ہے یہ کتاب میری طرف سے تمہارے لیے نذرانہ ہے۔”
وہ کتاب تھی: فرانز فینن کی "افتادگانِ خاک”۔
اس وقت مجھے فینن سے خاص واقفیت نہیں تھی۔ اگرچہ مجھے نوآبادیاتی نفسیات کا شعور کسی حد تک تھا، مگر فینن کی فکر سے شناسائی محدود تھی۔ کریم جان نے وہ کتاب ایسے دی جیسے کوئی پیغمبر اپنے چنیدہ فرد کو صحیفہ سونپ رہا ہو۔
اس وقت میرے لیے افتادگانِ خاک کو فوری طور پر سمجھنا آسان نہ تھا۔ میں بار بار کتاب بند کرتا، پھر کھولتا۔ کئی باتیں سمجھ سے باہر تھیں، لیکن بارہا پڑھنے کے بعد رفتہ رفتہ سمجھ آنا شروع ہوا کہ فینن کیا کہہ رہا ہے—اور کریم بلوچ مجھے کیا دینا چاہ رہا تھا۔ اس ایک کتاب نے مجھے سوچنے کا نیا زاویہ دیا، اور اس کی محبت نے فینن سے میری نظریاتی سمبھندجوڑ دیا۔