بی این پی: سیاست یا سائیکو پولیٹکس؟

تحریر:رامین بلوچ
زرمبش اردو

بی این پی کی حالیہ خودساختہ گرفتاریاں محض ایک روایتی تماشے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں —ایسا سلسلہ جو شاید کچھ لوگوں کے لیے سیاست کا ایک مانوس انداز ہو، مگر میرے نزدیک یہ کسی سنجیدہ سیاسی مزاحمت کی علامت نہیں۔ میں بی این پی کے حوالے سے کسی نرم گوشے کا حامل نہیں، اگرچہ بعض لوگ اسے نیپ کے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں یا سردارعطااللہ مینگل کی نظریات سے جوڑ کر اس کی سیاسی ساکھ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بی این پی کے نظریات، رویے، اور اس کا سیاسی رخ قابلِ تنقید ہے۔

یہ جماعت خود کو قومی حقوق کی محافظ کے طور پر پیش کرتی ہے، مگر عملی طور پر اس کی سیاست زیادہ تر موقع پرستی اور وقتی مصلحتوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ مزاحمت کا دعویٰ کرنے والی کوئی بھی جماعت اگر اقتدار کے ایوانوں سے سودے بازی میں مصروف رہے، تو اس کی سیاسی سچائی پر سوالیہ نشان اٹھنا لازمی ہے۔ بلوچستان جیسے حساس خطے میں جہاں سیاست محض انتخابی مہمات اور نعروں کا نام نہیں بلکہ حقیقی جدوجہد کا متقاضی ہے، وہاں بی این پی کا غیر واضح اور مبہم طرزِ سیاست اسے کسی مضبوط مزاحمتی تحریک کے بجائے محض ایک موسمی جماعت ثابت کرتا ہے۔
لہٰذا، ان گرفتاریوں کو کوئی تاریخی یا نظریاتی جواز دینا محض خودفریبی ہوگی۔ یہ گرفتاریوں کا کھیل زیادہ تر وقتی سرخیوں میں رہنے، سیاسی بیانیہ مضبوط کرنے، اور مظلومیت کا کارڈ کھیلنے کی ایک چال معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد عوامی ہمدردی حاصل کرنا ہے، نہ کہ کسی حقیقی سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا۔

بلوچستان میں سیاسی شعور،مزاحمتی جدوجہد، قومی آزادی کی تحریک اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بیچ بلوچ نیشنل پارٹی (بی این پی) کی حالیہ "خودساختہ گرفتاریاں ” محض ایک سیاسی تماشا ہیں۔ یہ گرفتاریوں کی نہیں بلکہ "وی آئی پی گرفتاریوں ” کی سیاست ہے، جہاں تھانے میں رضاکارانہ پیشیاں دی جاتی ہیں، مگر ان گرفتاریوں کے خلاف نہ کوئی لاپتہ ہوتا ہے، نہ کسی کو حبسِ بے جا میں رکھا جاتا ہے، نہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور نہ ہی کسی خاندان کو سالوں تک اپنے پیاروں کی خبر کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔
بی این پی کے رہنما اختر مینگل اور ان کے ساتھی اپنی خود ساختہ گرفتاریوں کو ایک سیاسی کارنامہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان کی سیاست واقعی بلوچ قومی مفادات کی نمائندگی کر رہی ہے؟ یا یہ محض ایک روایتی پارلیمانی سیاست کی چال ہے، جہاں اقتدار کے کھیل میں اپنی جگہ بنانے کے لیے وقتی ہمدردی اور مظلومیت کا کارڈ کھیلا جا رہا ہے؟
بی این پی کی پارلیمانی سیاست پر اگر نظر ڈالیں تو اس کا کردار ہمیشہ ہی سوالیہ نشان رہا ہے۔ کبھی گورنرشپ، کبھی سینیٹرشپ، کبھی قومی اسمبلی کی نشستیں، اور کبھی حکومت کے ساتھ سیاسی سودے بازی—یہ سب کچھ بلوچ قوم کے دکھوں کا مداوا نہیں بن سکتے۔ حتیٰ کہ جب استعفے دیے گئے، تو وہ بھی محض ایک رسمی کارروائی ثابت ہوئے، کیونکہ وہ استعفے آج بھی پاکستانی اسمبلی کے ریکارڈ میں کہیں معلق پڑے ہیں۔
بلوچستان میں آزادی کی تحریک ایک حساس مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ جبری گمشدگیاں، ٹارچر سیلز، مسخ شدہ لاشیں، اور بے گناہ
نوجوانوں کی شہادتیں اس تحریک کے تلخ حقائق ہیں۔ ان کی ماؤں، بہنوں، اور بیویوں کے آنسوؤں کو بی این پی کی سیاست میں کتنی اہمیت حاصل ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ اگر بی این پی خود کو بلوچ قوم کی نمائندہ جماعت سمجھتی ہے تو اسے پارلیمانی جوڑ توڑ کے بجائے ان ہی لواحقین کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے تھا، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے جبر اور استحصال کے سائے میں لکھی گئی ہے۔ لیکن تاریخ میں ایسے کردار ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں جو یا تو اپنی قوم کے لیے قربانی دیتے ہیں یا پھر وہ جو وقتی مفادات کے لیے اپنی قوم کی جدوجہد کو کمزور کرتے ہیں۔ بی این پی کو آج اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی—وہ بلوچ تحریک کے ساتھ ہے یا محض قوم دوستی کے نعرے کی آڑ میں پارلیمانی نوآبادیاتی سیاست کا کھیل کھیل رہی ہے؟
سیاست کا دائرہ محض اسمبلی کی چار دیواری تک محدود نہیں ہوتا۔ جمہوری مزاحمت، انسانی حقوق کی جنگ، اور سچ کے لیے بے باک موقف اپنانا بھی سیاسی جدوجہد کا ایک راستہ ہے۔ مگر بی این پی نے ہمیشہ درمیانی راستہ اپنایا—نہ مکمل مزاحمت، نہ مکمل مفاہمت۔ یہ سیاست نہیں بلکہ مصلحت کی بازی گری ہے، جو زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔
بلوچ عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ پارلیمانی سیاست کو اپنی زخموں کا مداوا نہیں سمجھتے، بلوچ عوام اب ووٹ دینے پر راضی نہیں ہے، ان دو دہائیوں میں بلوچ عوام نے ووٹ اور الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کیا، شرح ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے، پولنگ بوتھ پر لوگ نہیں جاتے۔
نہ ہی وہ کسی ایسی سیاست کو قبول کرتے ہیں جو ان کے حقیقی آزادی کی جدوجہد سے نظریں چرا کر محض نمائشی گرفتاریوں اور وقتی بیانات کے گرد گھومتی رہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)کی سیاست شروع ہی سے پاکستانی ریاست کے سیاسی دھارے صوبائی خودمختاری، نئے عمرانی معاہدے، اور ساحل و وسائل کی سودے بازی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ یہ ایک ایسا طرزِ سیاست ہے جو آزادی کی تحریک سے یکسر متصادم ہے۔ بی این پی خود کو بلوچ قوم کی نمائندہ جماعت قرار دیتی ہے، مگر اس کا سیاسی عمل اور موقف زیادہ تر پارلیمانی سیاست، مذاکرات، اور مراعات پر مبنی رہا ہے، جو کسی بھی طرح ایک انقلابی یا آزادی پسند تحریک کی سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بی این پی نے کبھی بھی بلوچ آزادی کی حمایت کبھی نہیں کی۔ اس کا بیانیہ زیادہ تر پنجابی امپرلسٹ سے اختیارات کی تقسیم تک محدود رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی این پی بنیادی طور پر ایک ایسی جماعت ہے جو پاکستانی سسٹم کے اندر رہ کر مراعات اور کچھ اصلاحات چاہتی ہے، نہ کہ اس سسٹم کو کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔
بلوچستان کے ساحل اور وسائل پر ریاستی قبضے کے خلاف حقیقی مزاحمت تو وہی قوتیں کر رہی ہیں جو آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
گوادر، ریکوڈک، اور سیندک جیسے منصوبوں پر بی این پی نے عملی جدوجہد کے بجائے خاموشی یا رسمی احتجاج پر اکتفا کیا ہے۔ اگر واقعی یہ جماعت بلوچ عوام کے وسائل کی محافظ ہوتی، تو اسے صرف پارلیمنٹ کے فورمز کے بجائے میدانِ عمل میں نظر آنا چاہیے تھا۔
بلوچستان میں جاری آزادی کی جدوجہد بی این پی کی سیاسی حکمتِ عملی سے بالکل مختلف ہے۔ آزادی کی تحریک جبر کے خلاف غیر سمجھوتہ پسند مزاحمت پر یقین رکھتی ہے، جبکہ بی این پی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی اور مراعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ عوام کی ایک بڑی
تعداد بی این پی کو آزادی کی تحریک کے لیے ایک بریک یا کمزور کرنے والی قوت سمجھتی ہے۔
پاکستان کے بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک طویل عرصے سے جاری ہیں، اور اس کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان متاثرین کے لواحقین انصاف کی تلاش میں احتجاج کر رہے ہیں، مگر انہیں تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ اس میں ایک اور انوکھا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ کے بی این پی کی قیادت سینکڑوں لوگوں کے ساتھ وڈھ تھانہ جاکر خوساختہ گرفتاریاں پیش کرتے ہیں، وہ تھانہ میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ افطار کر رہے ہیں۔ یہ کیسے قیدی ہیں جو وی آئی پی دسترخوان پر بیٹھے ہیں؟ جہاں انہیں شاہی دسترخوان پر خوشبوؤ ں سے مہکتے ہوئے انواع و اقسام کے کھانے میسر ہیں؟ یہاں کسی کی آنکھوں میں کوئی انتظار نہیں، کوئی سوال نہیں،کوئی دکھ نہیں، بس ہنسی کے قہقے، سکون اور راحت کاسمان ہیں۔دوسری طرف، لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کردگاپ سمیت بلوچستان میں مختلف علاقون میں احتجاجی مظاہروں پر بھیٹے روزہ افطار کر رہے ہیں جن کے دستر خوان پر کھجور کی چند گھٹلیاں اور شربت کا ایک گلاس ان کے صبر کا استعارہ بن چکی ہیں۔ ان کے دل میں ایک خلش اور ایک امید ہے جو ہر روز ٹوٹتی ہے۔ یہ دو دسترخوان صرف کھانے کے فرق کو ظاہر نہیں کرتے،یہ دو الگ دنیاؤ ں کی کہانی سناتے ہیں۔ افطار کا وقت ایک جیساہے، مگر مقدر الگ ہیں
نوراکشتی کے اس سیاست میں اس طرح تضادات کوئی نئی بات نہیں، لیکن کچھ تضادات اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ان پر خاموش رہنا ممکن نہیں۔ وڈھ کے تھانے میں بی این پی کے کارکنان کوپروٹوکول، سہولتیں، اور مہمانوں جیسا ماحول،گویا گرفتاری نہیں، بلکہ ایک رسمی دعوت ہے۔۔
پاکستان میں انصاف کی عملداری میں اکثر ایک دہرے معیار کا سامنا ہوتا ہے، جہاں طاقتور افراد، سیاسی جماعتیں اور تعلقات کے ذریعےاپنے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔ بی این پی کے کارکنوں کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جانا اس بات کا غماز ہے کہ ان کی گرفتاری محض ایک علامتی عمل ہیں۔ یہ گرفتاریاں دراصل ایک سیاسی سودے کا حصہ ہیں، جہاں طاقت کے ایوانوں میں کھیل جاری ہے،
اب سوال یہ نہیں ہے کہ "” بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ "کیا یہ واقعی قیدی ہیں، یا پھراقتدار کے کھیل کا ایک اور مہرہ؟”
لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کی حالت زار یہ ثابت کرتی ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے انصاف کی فراہمی میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کی آواز سنی نہیں جاتی، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی، اور ان کے احتجاج کو اہمیت نہیں دیا جاتا۔
یہ پورا منظرنامہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نوآبادیاتی سیاست اور انصاف کا نظام ایک پیچیدہ جال میں جکڑا ہوا ہے، جہاں طاقت، تعلقات اور سیاسی وابستگیاں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ اس میں عام بلوچ، خاص طور پر وہ جو انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں، اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں۔
بلوچستان میں بی این پی کی سیاست اکثر طاقت کے سودوں میں بدل جاتی ہے۔ بی این پی جیسی جماعتیں بظاہر قوم دوستی اور حقوق کی بات کرتی ہیں، لیکن جب اقتدار کے کھیل میں ان کا نمبر آتا ہے تو وہ ایک مخصوص لکیر کے اندر رہ کر ہی احتجاج کرتی ہیں۔ ریاست کے ساتھ ان کا تعلق ایک پیچیدہ توازن پر قائم ہوتا ہے، جہاں گرفتاری اور رہائی دونوں ہی کسی بڑی سودے بازی کے تحت ہوتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ۔ ایسے واقعات بارہا سامنے آئے ہیں، جہاں ایسے مصنوعی گرفتاریاں محض ایک علامتی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔، جس کا
مقصد عوامی غصہ کم کرنا یا مخصوص سیاسی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔۔
یہ تضاد ایک تلخ حقیقت کو ظاہر کرتا ہے: یہاں قانون کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے نرم ہے۔ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین جو حقیقی معنوں میں مظلوم ہیں، ان کی احتجاجی مظاہرے حقیقی ہے ان کے سوال اور مطالبات حقیقی ہیں لیکن انہیں کوئی نہیں سنتا
۔ لیکن جو لوگ پاکستانی نوآبادیاتی فریم ورک میں رہ کر سیاست کرتے ہیں، ان کے لیے قید بھی ایک عارضی آرام گاہ بن جاتی ہے، جہاں ان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو کسی مہمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
بی این پی کو اب واضح طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بلوچ قوم کی حقیقی نمائندگی کرنا چاہتی ہے یا پھر محض ایک پارلیمانی جماعت کے طور پر مراعات کے کھیل میں شامل رہنا چاہتی ہے۔ آزادی کی تحریک کسی بھی ایسی جماعت کو زیادہ دیر قبول نہیں کرے گی جو ایک طرف قوم پرستی کے نعرے لگائے اور دوسری طرف مراعات اور سودے بازی کی سیاست کرے۔ بلوچ عوام اب سیاسی شعور رکھتے ہیں اور وہ سمجھ چکے ہیں کہ اصل جدوجہد آزادی کے میدان میں ہے، نہ کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں۔ اگر بی این پی اپنی بقا چاہتی ہے، تو اسے اپنی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی، ورنہ وہ تاریخ میں محض ایک اور موقع پرست جماعت کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک حساس اور سنگین انسانی مسئلہ ہے۔ بی این پی نے ہمیشہ خود کو مظلوموں کی آواز کے طور پر پیش کیا، مگر جب بھی احتجاجی تحریکیں زور پکڑتی ہیں، پارٹی قیادت کی گرفتاریوں کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان گرفتاریوں کو سیاسی اسٹیج ڈرامہ قرار دیا جاسکتاہے، جس کا مقصد عوامی ہمدردی سمیٹنا اور حکومتی دباؤ سے وقتی ریلیف لینا ہوتا ہے۔

بی این پی کے سیاسی رویے میں ایک غیر یقینی پن ہمیشہ موجود رہا ہے۔ جب عوامی دباؤ بڑھتا ہے، تو پارٹی قیادت سخت مؤقف اپناتی ہے، مگر پھر اچانک پسپائی اختیار کر لی جاتی ہے۔ بی این پی کے بعض رہنماؤں کی حکومتی ایوانوں تک رسائی اور بعض معاملات میں خاموشی اس تاثر کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ شاید پارٹی حقیقی مزاحمت کے بجائے سیاسی سمجھوتوں کے راستے پر گامزن ہے۔

تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی—یہ شہیدوں کے کردار بھی یاد رکھتی ہے اور غداروں کی سازشیں بھی۔ بی این پی کے لیے وقت آن پہنچا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ تاریخ میں کس جگہ کھڑی ہونا چاہتی ہے۔ اگر یہ پارٹی واقعی بلوچ قوم کی حقیقی نمائندہ بننا چاہتی ہے تو اسے منافقت اور مصلحت کے پردے ہٹانے ہوں گے۔ ورنہ تاریخ کی بے رحم عدالت میں اس کا مقام بھی وہی ہوگا جہاں وہ لوگ کھڑے ہیں جو وقتی مفادات کی سیاست کرتے رہے اور اپنی قوم کی جدوجہد کو نقصان پہنچاتے رہے۔
بلوچستان کی سیاسی شعور اب نعرے بازی سے آگے نکل چکا ہے۔ یہاں اب صرف وہی سیاست زندہ رہے گی جو واقعی قوم کے درد کو سمجھے اور اس کے لیے عملی میدان میں کھڑی ہو، ورنہ باقی سب کچھ محض ایک سراب ہے —ایک ایسا سراب جو زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔

بلوچستان میں آزادی کی تحریک ایک ایسی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں نوجوانوں کو یا تو شہید کیا جا رہا ہے یا جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ وہ مائیں، بہنیں اور بچے جو اپنے پیاروں کے لوٹ آنے کی امید لیے دن رات احتجاج کر رہے ہیں، ان کی فریادیں سرد دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں۔ جبری گمشدگی اور وی آئی پی گرفتاریوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔

جنہیں جبری طور پر غائب کیا جاتا ہے، وہ محض لاپتا نہیں ہوتے، بلکہ انہیں ایک تاریک جہنم میں دھکیل دیا جاتا ہے، جہاں تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی زخموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے۔ بے رحم تفتیشی ان کی چیخوں کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ان پر ایسے ایسے طریقوں سے ظلم کیا جاتا ہے کہ عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا—برق کے جھٹکے، الٹا لٹکانا، دنوں تک بھوکا پیاسا رکھنا، اور ان کے ذہن و دل پر خوف و دہشت کے وہ نقوش چھوڑنا جو ہمیشہ کے لیے ان کی روح میں پیوست ہو جائیں۔

یہ اذیتیں صرف ان لاپتا افراد تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش بن جاتی ہیں۔ مہینوں، سالوں، بلکہ بعض اوقات دہائیوں تک انہیں کوئی خبر نہیں ملتی کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ایک ایسی خاموشی مسلط کر دی جاتی ہے جو امید کو نوچ کھاتی ہے اور زندگی کو سسکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

دوسری طرف، کچھ لوگ اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے محض نمائشی گرفتاریوں کو جبر کا نام دیتے ہیں۔ بی این پی جیسے گروہ محض ڈرامائی گرفتاریوں اور سائیکو پولیٹکس کو مظلومیت کی معراج سمجھتے ہیں، جب کہ اصل مظلوم وہ ہیں جو زندانوں کی تاریکی میں بے نام و نشان کر دیے گئے ہیں۔ وہ جو اپنے نام کے بجائے اب صرف ایک کیس نمبر میں تبدیل ہو چکے ہیں، وہ جن کی مائیں دروازے پر نظریں جمائے بیٹھی ہیں، وہ جو واپس آ بھی جائیں تو ایسے وجود میں کہ پہچانے نہ جا سکیں۔

یہ المیہ صرف چند خاندانوں کا نہیں، بلکہ پوری بلوچ سرزمین کا نوحہ ہے۔ ایک ایسا نوحہ جسے تاریخ لکھ رہی ہے، مگر اقتدار کی راہداریوں میں اس کی گونج سننے والا کوئی نہیں۔
وڈھ تھانہ میں نمائشی گرفتاری دینے کے بجائے، اگر اختر مینگل بلوچ جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے لواحقین کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوتے، تو یہ ایک درست اور جرات مندانہ عمل ہوتا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بی این پی واقعی بلوچ قوم دوستی کے سیاسی تقاضوں کو پورا کر رہا ہے، یا صرف قوم دوستی کا دعویٰ کر رہا ہے؟ بی این پی کو آج کے بلوچ قومی سیاسی دھارے میں اپنی پہچان واضح کرنی ہوگی: کیا وہ نوآبادیاتی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں یا بلوچ قوم کے حقیقی نمائندے؟ تیسرا راستہ صرف منافقت اور مصلحت کا ہے، جو نہ قوم کے مفاد میں ہے اور نہ حقیقت سے ہم آہنگ۔
پہلے بی این پی کے رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ اگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں جائیں گے تو ڈیتھ سکواڈ، کرمنل گروہ اور بلوچ دشمن قوتیں آ کر مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیں گی، مگر اب وہ پارلیمانی دروازے بھی ان کے لیے بند ہیں۔ اس صورتحال میں بی این پی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کٹھ پتلی سیاست کا میدان ختم ہو چکا ہے۔ جمہوریت کے دیگر طریقے ہیں، اور بلوچ قوم کے حقوق کی آواز بلند کرنا، چاہے وہ احتجاج ہو یا کوئی اور جمہوری عمل، سیاست کا ایک حصہ ہے۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جنگ محض بندوق اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد بھی ایک اہم میدان ہے۔ بلوچ قوم بی این پی سے یہ تقاضا نہیں کرتی کہ وہ بندوق اٹھائے، بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ وہ ایک واضح اور مؤثر سیاسی حکمت عملی اختیار کرے، جو بلوچ قوم کی
آزادی اور حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر ثابت ہو۔

تاریخ کی فریم ورک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نہ صرف یادداشتوں اور کرداروں کو محفوظ کرتی ہے، بلکہ ان کے نقوش کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرتی ہے۔ تاریخ کبھی بھی جرائم کو پردہ پوشی نہیں کرتی، بلکہ ان کا کھلا سامنا کراتی ہے۔ وہ نہ صرف شہیدوں کے عظیم کارناموں کو یاد رکھتی ہے، بلکہ غداروں کے سیاہ و بدنام کرداروں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ تاریخ سے سیکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے، اور یہ بی این پی کے رہنماؤں کے لیے ایک نہایت اہم پیغام ہے کہ وہ خود آگاہی اور خود احتسابی کے عمل سے گزریں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ آج وہ بلوچ سماج اور بلوچ تحریک میں کہاں کھڑے ہیں؟

انہیں اپنی سیاسی رفتار اور عمل پر گہرائی سے غور کرنا چاہیے، اپنی کمزوریوں کا کھلا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کی نشاندہی کرنا چاہیے۔ ورنہ تاریخ اتنی بے رحم ثابت ہو گی کہ انہیں Colonial agent جیسے کرداروں سے کم جگہ نہیں دے گی، جن کی بدنامی اور شہرت کے سائے تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ نقش رہیں گے۔

بلوچ نیشنل پارٹی (کے حالیہ اقدامات کو اگر سائیکو پولیٹکس کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے "وی آئی پی گرفتاریوں ” کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ خود کو حکومت کی جبر کا شکار دکھانے کی کوشش کے باوجود، یہ گرفتاریاں نہ تو جبری گمشدگیوں کی طرح خوفناک ہیں، نہ ہی ان میں وہ حقیقی مزاحمت نظر آتی ہے جو عوامی تحریکوں میں ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی حربہ ہے تاکہ عوامی ہمدردی حاصل کی جا سکے اور اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا جا سکے۔
سائیکو پولیٹکس ایک ایسی حکمتِ عملی ہے جو وقتی طور پر تو کارگر ثابت ہو سکتی ہے، مگر طویل المدتی سیاست میں یہ ہمیشہ بے نقاب ہو جاتی ہے۔ بلوچستان جیسے خطے میں، جہاں بلوچ قوم پہلے ہی قبضہ، استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہاں ایسی سیاست مزید انتشار اور بداعتمادی کو جنم دیتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

آواران، کیچ، زامران اور تمپ میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

پیر مارچ 10 , 2025
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ایل ایف کے سرمچاروں نے چار مختلف کاروائیوں میں آواران میں تعمیراتی کمپنی کی مشینری کو نذرِ آتش، کیچ میں سی پیک روڈ پر ناکہ بندی کرکے چیکنگ کی، زامران میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ