خواتین کا عالمی دن: جدوجہد کی داستان

تحریر: قدیر بلوچ
زرمبش اردو

دنیا بھر میں ہر سال 8 مارچ کو یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک روایت نہیں بلکہ صدیوں پر محیط اس جدوجہد کی علامت ہے، جس کے ذریعے خواتین نے اپنے بنیادی حقوق، سماجی حیثیت اور آزادی کے لیے ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1908 میں امریکہ میں محنت کش خواتین نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور 1977 میں اقوامِ متحدہ نے اس دن کو باضابطہ طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا 117 سال کے اس سفر میں خواتین کو وہ برابری اور انصاف ملا، جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں خواتین کو سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں مکمل برابری حاصل نہیں ہے۔ ان کے حقوق اب بھی طاقت اور جبر کی دیواروں کے پیچھے قید ہیں۔

اگر ہم بلوچ معاشرے پر نظر ڈالیں تو یہاں خواتین کی حیثیت کسی بھی انقلاب کے بنیادی ستون کی طرح ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایک قوم غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے اٹھتی ہے، وہاں خواتین نے ہمیشہ مزاحمت کی روح بن کر کردار ادا کیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں خواتین کی شرکت کوئی نئی بات نہیں۔ اگر تاریخ میں پیچھے جائیں تو مہر گڑھ تہذیب میں عورت کا مقام واضح نظر آتا ہے۔ بلوچ ادب اور ثقافت میں ہانی، سمو اور ماہرنگ جیسی تاریخی شخصیات عورت کی عظمت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
آج بھی بلوچ خواتین محض مظلومیت کی علامت نہیں بلکہ وہ مزاحمت کی پہچان بن چکی ہیں۔ کریمہ بلوچ، بانک گلناز، فرزانہ مجید اور سینکڑوں گمنام بلوچ بہنیں آج کے عہد میں اس بات کی مثال ہیں کہ بلوچ عورت نے نہ صرف اپنی بقا بلکہ پوری قومی آزادی کی تحریک میں ایک ناقابلِ تسخیر کردار ادا کیا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ تعلیم، صحت، خودمختاری اور فیصلہ سازی جیسے بنیادی انسانی حقوق اب بھی مردانہ بالادستی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی قومی بقا چاہتے ہیں اگر ہم اپنی سرزمین پر غلامی اور استحصالی نظام کو شکست دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا قدم خواتین کی تعلیم اور ان کے مساوی حقوق کی جدوجہد ہے۔

آج بھی بلوچستان میں تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی معاشرتی دباؤ، ریاستی جبر اور روایتی بندشوں کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا سکتیں لیکن اس کے باوجود، وہ خواتین جو علم اور شعور کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں وہ بلوچ قومی تحریک کا مستقبل ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یومِ خواتین صرف ایک دن کی تقریبات کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا اعلان ہے۔ ہمیں بلوچ خواتین کو قومی تحریک کا اہم کردار تسلیم کرنا ہوگا، انہیں شعوری طور پر مضبوط بنانا ہوگا اور ان کے حقوق کے لیے فکری اور عملی سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔
اگر ہماری جڑیں مضبوط ہوں گی تو ہمیں کوئی طاقت زمین سے نہیں اکھاڑ سکتی۔ بلوچ خواتین صرف ایک صنف نہیں بلکہ ہماری تاریخ، ثقافت اور مزاحمت کی بنیاد ہیں۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ان کی آزادی، تعلیم اور حقوق کی جدوجہد کو محض ایک رسمی دن تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ اسے اپنی اجتماعی قومی ذمہ داری کے طور پر اپنائیں گے۔
سرخ سلام ان تمام بلوچ خواتین کو جو اس تاریک دور میں امید کے چراغ روشن کر رہی ہیں۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بولان: پاکستانی فورسز پر حملے میں دو اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق

اتوار مارچ 9 , 2025
بولان میں گزشتہ روز پاکستانی فورسز کو ایک سنگین حملے کا سامنا رہا جس میں متعدد فوجی اہلکاروں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز کو اس وقت حملے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ فوجی آپریشن کیلئے پہاڑی میں پیش قدمی کر رہے تھے، جبکہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ