وائس چانسلر ملک ترین کی تعلیم دشمنی: بلوچ کلچر ڈے پر پابندی ناقابلِ برداشت

تحریر: شاہان بلوچ
زرمبش اردو

بلوچ ثقافت، جو ہزاروں سال پرانی تاریخ اور روایات کا حامل ہے، ہمیشہ سے علم، رواداری اور آزادی کی علامت رہی ہے۔ ہر سال 2 مارچ کو پورے بلوچستان میں بلوچ کلچر ڈے بھرپور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جہاں بلوچ طلبہ اپنی ثقافتی ورثے کو اجاگر کرتے ہیں۔ لیکن اس سال لسبیلہ یونیورسٹی میں پیش آنے والا واقعہ ایک سنگین المیہ ہے جو نا صرف طلبہ کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ بلوچ ثقافت اور تعلیمی آزادی پر ایک سنگین حملہ بھی ہے۔
آج، جب بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (BSAC) نے لسبیلہ یونیورسٹی میں بلوچ کلچر ڈے کے حوالے سے ایک پروگرام ترتیب دیا، تو یونیورسٹی انتظامیہ نے انتہائی افسوسناک رویہ اپنایا۔ طلبہ کو پروگرام منعقد کرنے سے روک دیا گیا، اسپیکر چوری کر لیے گئے اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ یہ ثقافتی تقریب منعقد نہ ہو سکے۔ یہ نہ صرف طلبہ کے جمہوری اور تعلیمی حقوق پر ایک حملہ ہے بلکہ بلوچ طلبہ کو منظم طریقے سے دبانے کی پالیسی کا حصہ بھی لگتا ہے۔

طلبہ کے خلاف مسلسل پابندیاں
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ کو دبانے کی کوشش کی ہو۔ پہلے بھی کتاب میلوں پر پابندی عائد کی گئی، فکری مباحثوں کو روکا گیا، اور ہر وہ سرگرمی جو سوچنے، سمجھنے اور آگاہی پھیلانے سے متعلق ہو، اسے نشانہ بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی کس سمت میں جا رہی ہے؟ کیا تعلیم کا مقصد شعور کو بیدار کرنا ہے یا اسے دبانا؟

وائس چانسلر (VC) ملک ترین
یہ وہی وائس چانسلر ہے جو اس سے قبل بلوچستان یونیورسٹی میں متنازعہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تھا، جہاں طالبات کے ہاسٹل کے واش رومز میں خفیہ کیمرے لگانے جیسے سنگین الزامات اس پر عائد ہوئے۔ کیا ایسے افراد سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں علم و شعور پھیلائیں گے؟

سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ 24 فروری کو اسی یونیورسٹی میں خود انتظامیہ کے زیرِ اہتمام ایک ثقافتی تقریب منعقد کی گئی تھی، جہاں یونیورسٹی کے اہلکار نشے کی حالت میں پائے گئے، شراب ہاتھ میں تھی اور کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ لیکن جب بلوچ طلبہ نے اپنی ثقافت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا تو اس تقریب کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔

بلوچ طلبہ کے خلاف ایک منظم سازش
یہ واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ بلوچ طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنے اور ان کی ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کے لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ بلوچ طلبہ کو ہمیشہ سے ہی دبانے کی کوشش کی گئی ہے، کبھی ان کی تقریبات پر پابندی لگا کر، کبھی کتابی میلوں کو روک کر، اور کبھی فکری و تعلیمی سرگرمیوں پر قدغن لگا کر۔

یہ ناانصافی ناقابلِ برداشت ہے
بلوچ طلبہ نہ تو تعلیم سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی اپنی ثقافت کو دبنے دیں گے۔ علم، تہذیب اور ثقافت پر پابندی لگانے والے عناصر یاد رکھیں کہ یہ مزاحمت ختم نہیں ہوگی۔ بلوچ ہمیشہ سے آزادی کے طلبگار رہے ہیں، چاہے وہ فکری آزادی ہو، تعلیمی آزادی ہو، یا ثقافتی آزادی۔

لسبیلہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنی غیر جمہوری اور ظالمانہ پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ اگر تعلیمی ادارے ہی طلبہ کے حقوق سلب کرنے لگیں تو یہ علم دشمنی کی بدترین مثال ہوگی۔ بلوچ کلچر ڈے ہر بلوچ کا حق ہے، اور اس حق کو کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔

ہم سوال کرتے ہیں:
اگر ثقافت منانا جرم ہے تو یہ جرم صرف بلوچ طلبہ کے لیے کیوں؟
اگر 24 فروری کو یونیورسٹی خود ثقافتی تقریب منعقد کر سکتی ہے تو 2 مارچ کو بلوچ طلبہ کے پروگرام کو کیوں روکا گیا؟
کیا بلوچ طلبہ کو تعلیم، سوچ اور آزادی کے حق سے محروم کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے؟

یہ وقت ہے کہ بلوچ طلبہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اس غیر جمہوری رویے کے خلاف آواز بلند کریں۔ تعلیم ہمارا حق ہے، ثقافت ہماری پہچان ہے، اور ہم اسے کسی بھی قیمت پر ختم نہیں ہونے دیں گے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تربت: پاکستانی فورسز کے ہاتھوں سیکورٹی گارڈ جبری طور پر لاپتہ

بدھ مارچ 5 , 2025
اطلاعات کے مطابق آج مغرب کے وقت تربت شہر میں لا کالج سے پاکستانی فورسز نے ایک سیکورٹی گارڈ کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت سعید بلوچ ولد نیک بخت کے نام سے ہوئی ہے، جو کیچ کے علاقے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ