تحریر: دل مراد بلوچ
زرمبش اردو

بلوچ ماں اور بہن سڑکوں پر غیر کے آگے جو آنسو بہا رہے ہیں شاید بہت سوں کے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھتے ہوں لیکن بلوچ ماں اور بہنیں جو غیر کے آگے آنسو بہا رہی ہیں، شاید یہ بہت سوں کے لیے بے معنی ہوں، لیکن جنہوں نے بلوچ کے درد کو محسوس کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ آنسو تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ وہ ان آنسوؤں کی مفسر ہے، اسے یقین ہے پنجابی کے سامنے گوکہ آج یہ آنسو پانی برابر بھی درجہ نہیں رکھتے ہیں لیکن نظر نہ آنے والا کاتبِ دوران ہر ایک قطرے سے ایک تاریخ لکھ رہا ہے۔
یہ ایک ایسی تاریخ ہے جس کا شاید ہمیں بھی مکمل احساس نہیں۔ آنے والا وقت ان آنسوؤں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے گا جبکہ دوسرے پلڑے میں پنجابی اور بلوچ کے چم جہل و خن شیف ہوں گے مگر آنسوؤں کا پلڑا بھاری رہے گا۔ یہ لمحہ پنجاب کے لیے قہر بنے گا وہ بلوچ اور سندھی کے پاؤں پڑے گا۔ البتہ کوئی چاہے تو اسے میری خوش گمانی سمجھ کر تمسخر اڑا سکتا ہے۔
رات کی سیاہی جتنی گہری ہو، صبح کا سورج اتنا ہی یقینی ہے مگر کچھ راتیں ایسی ہوتی ہیں جو کچھ زیادہ ہی طویل ہوتی ہیں، کچھ آنکھوں میں ایسا اندھیرا سما جاتا ہے جو روشنی کو بھی ماند کر دیتا ہے، سیما اور زرینہ کے حصے میں بھی ایک ایسی رات آئی ہے، سیما اور زرینہ آنسو دو بلوچ کردار ہیں جن کے انمول رتن شبیر پنجابی کے زندان میں سالوں سے قید ہے، دونوں پڑھی لکھی نہیں دیہی پس منظر سے آتی ہیں، ایک تاریخ زندان میں شبیر لکھ رہا ہے ایک تاریخ سیما اپنی آنسوؤں سے بلوچ دھرتی کے سڑکوں پہ لکھ رہی ہیں کیونکہ سیما کے آنسو مقدس نوحہ ہیں جو وقت کے سینے پر کندہ ہو رہے ہیں۔ یہ آنسو بلوچستان کی تاریخ میں وہ سیاہی بن گئے ہیں جس سے ظلم کے خلاف ایک نئی کتاب لکھی جا رہی ہے، یہ وہ گواہی ہیں جو زمین پر لکھی جا رہی ہیں اور آئندہ نسلوں کے لیے مشعل بنتی جا رہی ہیں۔
کل پرسوں ایک معروف یوٹیوبر نے ایک مبہم انٹرویو شائع کی جس میں بقول دوستوں کے موصوف فرماتے ہیں کہ "شبیر نہیں رہا” تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو پہلی بار نہیں ہو رہا، دوہزار سترہ اور اٹھارہ کو سطح زمین پر سرگرمیاں ماند پڑ چکی تھیں، جب بلوچستان میں صرف بظاہر خوف کا راج تھا، سڑکیں سنسان، زبانیں خاموش، ریاستی جبر کی تاریکی ہر گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔ ماما قدیر کا سدابہار کیمپ ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا، ایک آدھ لوگ ڈرے سہمے آجاتے، ایک آدھ تصویر کھچ جاتی، ماما درد زادگاں کا والی وارث، ڈٹا رہا، یہی وہ وقت تھا جب سیما اور زرینہ کوئٹہ پہنچیں، وہ سیاست کے الف ب سے واقف تھے، نہ میڈیا کی چکاچوند سے واقف۔ دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دو "ان پڑھ” لڑکیاں، لیکن ان کی تعارف کے حصے میں شبیر کا بے پایاں، بے کراں درد کی داستان تھا، وہ درد کی سفیر تھیں وہ تو فقط اپنے پیارے کی بازیابی کی جستجو میں سڑکوں پر نکلی تھیں۔
اسی دوران سیما اور زرینہ نے شبیر کے لیے نوآبادیاتی چھاؤنی کوئٹہ میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا، ڈرے، سہمے دیہی لڑکیاں، بھرے بازار میں، اجنبی لوگوں کے درمیان، جہاں ریاستی درندے موجود تھے، ریاستی فورسز نے سیما کو دھمکایا، توہین کی، دیہات کی یہ نڈر لڑکی، جس کے دل میں پیارے لکو کا نوحہ ہلچل مچا رہی تھی، شبیر کی یاد اور ریاستی توہین، آواران کی بیٹی بھرے بازار میں رو پڑی، کسی "بلوچ” نے یہ لمحہ کیمرے کی یاد داشت میں محفوظ کرلی، سیما اور زرینہ کے بہتے آنسو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے (کیمرے کے بلوچ پر احسانات بھی کچھ کم نہیں) یہ تصویر وائرل ہوئی تو میں نے صرف روتی ہوئی دو لڑکیوں کو نہیں دیکھا بلکہ بلوچستان کے اندر ایک دبے ہوئے انقلاب کو دیکھ لیا، لہٰذا بندہ ناچیز نے اپنے ایک ٹویٹ میں ان آنسوؤں کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا۔
سیما کے آنسوؤں نے سے دھیرے دھیرے نئی ایک شروعات ہوئی جس میں حرکت تھی، برکت تھی، چیخ تھی، للکار تھی، بلوچ عورت کا نئے جنم میں ایک واضح اضافہ، پدر سری سماج میں عورت کے لیے راہیں کھلتی گئیں، سماج کی بندشیں، ریاستی کی سفاکیت بلوچ عورت کے سامنے بند باندھنے میں ناکام ہوگئیں، دیہی سیما جو خاموش تھی، اب بول رہی تھی، خوب بولتی تھی، ریاست اس سے شاید خوفزدہ تھی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ایک مظلوم کی زبان جب کھلتی ہے تو پورا نظام لرزنے لگتا ہے، یہ وہ بولی ہے جسے نہ توپوں کی گرج دبا سکتی ہے، نہ ایٹمی طاقت کے زعم میں مبتلا پنجابی کے پاس کوئی توڑ تھی، البتہ ایک حربہ تھا کہ سیما کو اندر سے توڑا جائے، اس کے لیے کھیل رچایا گیا۔
مجھے یاد ہے کہ گورکوپ سے ایک پارٹی دوست کا فون آیا کہ گزشتہ دنوں تربت کے فوجی زندان سے ایک قیدی بازیاب ہوکر خصوصی طور پر میرے پاس آیا ہے اور ان کا کہنا ہےکہ "وہ زندان میں شبیر کے سیل میں تھا اور وہ کہتا ہے کہ شبیر بیمار تھا اور وہ اس کی آنکھوں کے سامنے فوت ہوگئے” دوست کا آواز کانپ رہا تھا۔ میں نے انہیں سختی سے منع کردیا کہ یہ خبر کسی بھی قیمت پر خاندان تک نہ پہنچے اور اس آدمی کو اپنی زبان سختی سے بند کرنے کا تاکید کرنا۔
میں جانتا تھا کہ یہ خبر سیما تک ضرور پہنچ چکی ہوگی، مگر کیا سیما خاموش ہوئی؟
نہیں!
یہ خبر سیما کے حوصلے کو توڑ نہیں سکی بلکہ اور بلند کر دیا
"اب میں نہیں ڈرتی”
سیما کا جواب واضح تھا، سیما نہ رکی، وہ کبھی چیختی، کبھی چلاتی، کبھی روتی، کبھی رُلاتی، مگر اندر کا خوف مر چکا تھا اور ایک نئی سیما پیدا ہو چکی تھی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب مظلوم اپنے درد کو طاقت بنا کر بولنے لگیں، جب آنسو بغاوت کی شکل اختیار کرلیں تو ریاست کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہی بے خوف بولتی زبان ہوتی ہے، یہی ہوا ایک ریاست اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ایک لڑکی کے چند جملوں سے خوفزدہ ہوئی اور اسی خوف نے انہیں مجبور کیا کہ وہ سازش و مکاریوں کے ہتھیار آزمانے۔ پہلے، ایک شخص بازیاب ہوکر ریاست کا یہ پیغام پھیلانے کی کوشش کرتا ہےکہ شبیر بلوچ اب نہیں رہا تاکہ سیما کا احتجاج دم توڑ دے۔ وہ حربہ ناکام ہوا لیکن اب ‘دوست’ کی طرف سے ایک مبہم اور بے معنی انٹرویو چلا کر سیما کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیت کچھ بھی ہو، مگر اس کا سب سے بڑا نقصان شبیر کی جدوجہد اور سیما کے حوصلے کو پہنچ سکتا تھا۔
بے شک جدوجہد کے تمام اجزائے ترکیبی اپنی اہمیت رکھتے ہیں لیکن ریاست کو طاقت سے اتنی خوف نہیں جتنی بے خوف بولتی زبان سے ہوتی ہے۔ ریاست جانتی ہے کہ مزاحمت کو ختم کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ایک طاقت کا بے رحمانہ استعمال اور دوسرا مایوسی کا زہر پھیلانا، یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کو توڑنے کے لیے ہمیشہ یہی طریقے آزمائے گئے ہیں
پہلا یہ کہ براہ راست ریاستی جبر جس میں قتل، جبری گمشدگیا، تشدد، خوف پھیلانا اور پورے سماج کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنانا
دوسرا یہ کہ مایوسی کا زہر پھیلایا جائے، نفسیاتی جنگ، ایسے لوگ پیدا کرنا جو مظلوموں کو یہ باور کرائیں کہ ان کی مزاحمت بے فائدہ ہے کہ ان کے پیارے اب نہیں رہے اور ان کے احتجاج سے کچھ نہیں بدلے گا۔
پہلا طریقہ جتنا پرانا ہے، دوسرا طریقہ اتنا ہی خطرناک ہے۔ ریاست جانتی ہے کہ سیما جیسی بہادر عورتیں صرف خوف سے پیچھے نہیں ہٹتیں لیکن مایوسی ایک ایسا ہتھیار ہے جو مضبوط انسانوں کو بھی توڑ سکتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے پہلے ایک آزاد کیے گئے شخص کے ذریعے یہ خبر پھیلانے کی کوشش کی کہ شبیر اب نہیں رہا اور انہیں کیچ تربت میں ان کی نظروں کے سامنے دفن کی گئی ہے تاکہ سیما تھک جائے، چپ ہو جائے، احتجاج ختم کر دے۔ جب یہ حربہ ناکام ہوا تو بلوچ ایک یوٹیوبر نے حاتم طائی کی قبر کو لات مار کر ریاست پر إحسان کردی اور شبیر کو مستونگ میں بے قبر کے حوالے کی، بلوچ مزاحمت کے راستے میں دشمن کی سازشیں نئی نہیں لیکن جب ‘دوست’ جانے یا انجانے میں انہی سازشوں کا حصہ بن جائیں تو نقصان دوگنا ہو جاتا ہے۔مجھے کسی کی نیت پر شک نہیں لیکن محاصل کو دیکھا جائے تو دونوں کا مقصد مزاحمت کی جڑوں میں زہر انڈیلنے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
نیت کچھ بھی ہو، یہ مایوسی کی زہر پھیلانے کی واضح کوشش ہے تاکہ سیما کو فاتحہ پڑھنے پر مجبور کیا جائے اگر یہی چلن پڑا تو ایک اور "محسن” ڈاکٹر دین جان کو دفنا کر سمی کو گھر بٹھائے گی اور یہ سلسلہ یہاں نہیں رکے گی۔
کچھ سوالات مزید اہم ہوتے ہیں، سیما اور سمی جیسے بیٹیاں محض اپنے پیاروں کے متلاشی نہیں کہ کسی نے جھوٹی، مکارانہ چال چل کر انہیں فاتحہ پڑھنے پر مجبور کرکے گھر بٹھادی، یہ لوگ اب فاتحہ نہیں پڑھتے، سوال کرتے ہیں، سیما اور سمیوں کے لیے شبیر اور دین جان ضرور اہم ہیں لیکن شبیر اور دین جان کا مقصد زیادہ اہم ہے، یہاں سوال صرف شبیر کا نہیں بلکہ شبیر کے مقصد کا بھی ہے جس کے لیے سیما بھی کنٹری بیوٹ کر رہی ہے۔
عام مقصد سے جڑے کسی آدمی یا عورت پر یہ سب کچھ بیتا ہوتا، شاید وہ تھک چکا ہوتا، مگر سیما نہیں تھکتی، سیما نہیں جھکتی، سیما نہیں رکتی کیونکہ سیما کے پاس ایک مقصد ہے، شبیر اور شبیر کا مقصد اب اس کی زندگی ہے، یہ اختتام نہیں، آغاز ہے، ہم شبیر ڈھونڈتے رہیں گے، ہمیں شبیر ملے گا اور شبیر کے زندگی کا مقصد بھی۔
یہ جنگ شبیر کی بازیابی تک محدود نہیں، بلکہ اس مقصد کی بقا کی جنگ ہے جس کے لیے شبیر نے اپنی زندگی وقف کی تھی اور جب مقصد زندہ ہو، تو مزاحمت رکتی نہیں، بڑھتی ہے۔ لہٰذا، اس مقصد کے ساتھ کھلواڑ مت کریں۔