بلوچی زبان کی تاریخ اور مادری زبانوں کے عالمی دن کا پس منظر

تحریر:سعید یوسف بلوچ (دوسرا حصہ)
زرمبش اردو

چونکہ میری تعلیم نو آبادیاتی اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی، جہاں اردو زبان رائج تھی، اس لئے اپنی قومی زبان میں بات کرنے پر سخت پابندیوں کاسامناکرنا پڑا۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب مجھے اسکول میں براہوئی زبان بولنے اور بلوچی ٹوپی پہننے کی پاداش میں سخت سزائیں دی گئیں۔یہ سب نو آبادیاتی ذہنی غلامی کا نتیجہ تھا،جس کے بازگشت آج بھی ہمارے سماج میں سنائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تحریری اور رابطہ زبان اردو میں ڈھل چکی ہے۔جبکہ ہماری زبانیں حا شیے پر جاچکی ہیں۔
۔بلاشبہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ اور ہمیں مختلف زبانیں سیکھنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اپنی قومی زبانوں کو فراموش کریں۔ اپنی زبان کو ترک کردینا درحقیقت اپنی تاریخ، تہذیب اور شناخت کو مٹادینے کی مترادف ہے۔ برطانوی راج کے دوران اردو کو ایک مشترکہ زبان کے طور پر ترقی دی گئی، اور 1947 کے جبری الحاق کے بعد ہمیں زبردستی اردو اپنانے پر مجبور کیا گیا۔ آج بھی ہمارا بیشتر ادبی مواد، پریس ریلیزز،اخباری بیانات،سیاسی پمفلٹس اور مجموعی سیاسی بیانیہ اردو میں ہی تشکیل دیا جاتاہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے لکھاری نوآبادیاتی تسلط کی تحت، بلوچی اور اردو کے مابین ایک توازن قائم کرنے پر مجبورہے۔
لیکن یہ زمینی حقیقت ہے کہ اردو کی جبری بالادستی نے بلوچی او اور براہوئی زبانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جس سرزمین پر بستے ہیں۔ وہ صدیوں سے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر اثر رہی ہے۔ اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی زبانوں بلوچی اوربراہوئی کو تعلیمی سیاسی اور ادبی میدانوں میں ترقی دینے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
نوآبادیاتی طاقتوں کی لسانی پالیسی محض زبان کی تبدیلی تک محدود نہیں تھی ۔بلکہ یہ ایک منظم سازش تھی،جس کے تحت قومی زبانوں کو کم تر ثابت کرکے ہم پر غیر اور اجنبی زبانوں کو مسلط کیا گیا۔یہ صرف الفاظ کا اتلاف نہیں،بلکہ ایک ثقافتی، تہذیبی،تعلیمی اور فکری غلامی کا تسلسل ہے۔ جو آج بھی ہمارے سماجی اور فکری ڈھانچے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
زبان صرف ایک ذریعہ اظہار نہیں،بلکہ ایک قوم کی فکری خود مختاری کی علامت ہوتی ہے۔اور جب کسی قوم کو اس کی زبان سے محروم کردیا جاتاہے،تو اس کے ساتھ اس کی تاریخ شناخت اور فکری آزادی بھی چھین لی جاتی ہے۔
نو آبادیاتی طاقتیں ہمیشہ سے مقامی زبانوں کو پسماندہ، غیر مہذب اور غیر ترقی یافتہ قرار دے کر اپنی زبانوں کو تعلیم، عدلیہ اور دفتری امور میں مسلط کرتی رہے ہیں۔ ان کی یہ حکمت عملی درحقیقت ایک گہری سازش تھی، جس کا مقصد مقامی قوموں کی فکری، سماجی اور علمی نشوونما پر قابو پانا تھا۔
نوآبادیاتی حکمرانوں نے اپنی زبان کو تہذیب و ترقی کی علامت بنا کر پیش کیا، جبکہ بلوچی جیسی قدیم زبانوں کو جان بوجھ کر غیر معیاری، غیر تعلیمی اور ناقابلِ ترقی قرار دیا گیا۔ یہ کوئی اتفاقیہ حملے نہیں بلکہ منظم نوآبادیاتی حربے تھے، جس کے ذریعے مقامی قوموں کو ذہنی غلامی میں
مبتلا کر کے ان کی ثقافتی و لسانی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی راج، فرانسیسی استعمار، پرتگالی اور ڈچ نوآبادیاتی حکمرانوں نے یہی حکمت عملی اپنائی۔ الجزائر میں عربی زبان کو دبانے کے لیے فرانسیسی سامراج نے اسے عوامی و سرکاری سطح پر ممنوع قرار دیا، جبکہ افریقہ میں فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کو زبردستی مسلط کر دیا گیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں کی یہی زہریلی میراث آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں اپنی باقیات کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کو مہذب اور برتر ثابت کرنے کے لیے مقامی زبانوں کو کم تر اور غیر ترقی یافتہ قرار دیتے ہیں۔ تاکہ وہاں کے لوگ اپنی مادری زبان چھوڑ کر نوآبادیاتی زبان اپنانے پر مجبور ہو جائیں۔

بدقسمتی سے، بلوچ بھی آج اسی لسانی المیے کا شکار ہیں۔ ہماری زبانیں، بلوچی اور براہوئی، اپنی ہی سرزمین پر ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ نوآبادیاتی سوچ کی باقیات ہیں، جنہوں نے ہماری زبان، ثقافت اور فکری خودمختاری کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اپنی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لیے سنجیدہ اور منظم کوششیں کرنا ہوں گی۔ جب تک ہم اپنی زبان کو زندہ نہیں کریں گے، ہم اپنی ثقافتی شناخت، علمی ترقی اور قومی وقار کو مکمل طور پر بحال نہیں کر سکیں گے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نام، زبان اور ثقافت کسی بھی قوم کی بنیادی شناخت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی قوم اپنے قومی نام اور زبان کو ترک کر کے نوآبادیاتی زبانوں کے نام اپنانے لگے تو یہ درحقیقت اس کی ثقافتی کمزوری اور ذہنی غلامی کی علامت بن جاتی ہے۔ تاریخی طور پر بلوچوں کے نام ہمیشہ بلوچی زبان میں ہوا کرتے تھے، جیسے بیبرگ، شیہک، چاکر، گہورام، نوتک، نوبت، سامو، جبکہ خواتین کے نام ماہناز، حانی، بانڑی، گل بانو، شہر بانو، شاری، شاہ پری، دروشم، برشکند، شاد گل اور زر بی بی ہوا کرتے تھے۔ لیکن آج، نوآبادیاتی اثرات کے باعث ہمارے زیادہ تر نام اردو، عربی اور فارسی زبانوں سے ماخوذ ہو چکے ہیں، جس نے ہماری قومی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
نام، زبان اور قومی شناخت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا کی ہر زندہ قوم اپنی زبان، اپنے ناموں اور اپنی ثقافتی روایات کو برقرار رکھتی ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر نظر ڈالیں تو جاپان، چین، ترکی، عرب دنیا، فرانس، امریکہ، انگلستان، ایران، روس، بنگال اور ہندوستان
سمیت کئی ممالک نے اپنی زبانوں اور ناموں کو رواج دیا اور ان پر فخر کیا۔ کیا کوئی عرب یا انگریز اپنی اولاد کے لیے بلوچی نام رکھتا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ہم کیوں اپنی زبان چھوڑ کر اجنبی زبانوں کو اپنانے پر مجبور ہیں؟
یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ اگر ہم اپنی زبان، ثقافت اور ناموں کو دوبارہ زندہ نہ کر سکے، تو ہم نہ صرف اپنی قومی شناخت کھو دیں گے، بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ایک ایسی وراثت دیں گے جو غلامی اور فکری انحطاط سے بھرپور ہوگی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی زبانوں کو علمی،
ادبی، اور سماجی سطح پر فروغ دیں اور اپنی ثقافتی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کریں۔
بلوچی زبان، ثقافت اور شناخت کے حوالے سے تحفظات اور اس کی تاریخی اہمیت پر زور دینا ایک قومی زمہ داری ہے۔ چینی راہنماء چیئر مین ماؤ کی یہ مثال اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ زبان کسی بھی قوم کی پہچان اور خود مختیاری کا بنیادی عنصر ہوتی ہے۔
جب انہوں نے پاکستانی ریاست کے دوران چینی زبان میں تقریر کی توان سے کہا گیا کہ کوئی یہاں چینی زبان نہیں سمجھتا، آپ انگریزی میں بات کریں۔ اس پر چیئر مین ماؤ نے کہا ”میں پنی زبان میں اس لے بات کررہاہوں تاکہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ ہم ایک گونگی قوم ہیں۔“
یہی اصول ہم پر بھی لاگو ہوتاہے۔ ہماری ذمہ داری ہونی چاہیے کہ ہم اپنی بچوں کے نام بلوچی زبان میں رکھیں تاکہ ہماری زبان، تاریخی ورثہ،اور ثقافت زندہ رہیں۔کلچر صرف دستار،پوشاک،چھڑی، یاروایتی اشیا ء تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ پوری بلوچ تہذیب و تمدن کامظہر ہے۔ اگر ہم نئی سماجی تعمیر نو کی جانب بڑھ رہے ہیں، تو اپنی زباں اور ناموں کی روایات کو زندہ رکھناہوگا۔کیونکہ یہی ہماری مکمل قومی خود مختیاری کے لئے راہ ہموار کرے گا۔
بلوچی زبان کسی بھی دوسری بڑی زبان جیسے انگریز ی،روسی، عربی، فرانسیسی، فارسی اور اردو سے کسی طور کم تر نہیں،بلکہ اس میں بے شمار خوبصورت الفاظ اور نام موجود ہیں،جنہیں اپنانا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔
یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کے نام رکھتے وقت ان کے لغوی معانی اور تاریخی پس منظر سے لا علم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری بچیوں کا نام”مستورہ“رکھا جاتا ہے، جس کے عربی میں معنی ”پردہ“ ہے جبکہ”ضرار“ کے معنی ”نقصان پہنچانے والا“ہیں۔ بغیر تحقیق کہ ان ناموں کے پس منظر اور لغت کو جانے بغیر اسے اپنانا ہماری غلامیاور لاعلمی کو ظاہر کرتاہے۔
اگر دیگر اقوام پنی زبان، ثقافت اور ناموں پر فخر کرسکتی ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی بلوچی شناخت کو برقرار رکھیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ ہم کوئی گونگی قوم نہیں بلکہ ایک باشعور، مہذب اور زندہ قوم ہیں۔ہماری سرزمین،پہچان تاریخ اور جغرافیہ اور قومی تشخص ہیں۔
اگر ہم بلوچی زبان کی تاریخی پس منظر کو دیکھیں تواس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ آج بھی یہ مشرقی ومغربی مقبوضہ بلوچستان،شمالی جنوبی افغانی بلوچستان۔ نمروز، ہلمند، فراہ،قندھار، ہرات کے علاوہ برطانیہ،کینیڈا،آسٹریلیا، ترکمانستان،روس،یورپ اور خلیجی ممالک جیسے قطر، بحرین،مسقط اور دیگر ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔
متحدہ بلوچستان سمیت ایشیا،سندھ، پنجاپ،خلیجی و،یورپی او روسی ممالک میں رہنے والے بلوچوں کی مجموعی آبادی کا تخمینہ چار کروڑ سے تجاوز کرجاتاہے۔حیرت انگیز طور پر بلوچی زبان کی تاریخ گیارہ ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے،جوعربی زبان سے بھی قدیم ہے۔
قدیم بلوچ قبائل اپنی تاریخ، روایات اور لوک کہانیوں کو زبانی روایات(Oral tradition)کے ذریعے نسل در نسل منتقل کرتے آرہے ہیں۔ تاریخی شواہد کے مطابق، بلوچی زبان کی ابتدائی تحریری نمونے تین ہزار سال قبل کے ملتے ہیں، اور آج بھی ادبی مواد کے لحاظ سے بلوچی زبان عالمی سطح پر ایک ترقی پزیر زبان کے طور پر تسلیم کیاجاتاہے۔ جب کہ عربی زبان کے ابتدائی تحریری نمونے دو ہزار سال قبل کے ہیں۔جن میں عبرانی اور آرامی زبانیں بھی شامل ہیں۔
بعض لسانی ماہرین اور قاضی عبدالصمد سربازی (جو ریاست قلات میں قاضی کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں) کے مطابق عربی زبان میں سینکڑوں الفاظ بلوچی سے ماخوذہیں۔تاہم عربی زبان کی عالمگیر حیثیت کا سب سے بڑا سبب کلام اللہ(قران مجید) ہے۔قران مجید کے نزول نے عربی زبان کو نہ صرف ایک مذہبی زبان بلکہ ایک عالمگیر حیثیت حاصل دی۔علاوہ ازیں، عربی زبان کو اسلامی تعلیمات،فقہ، حدیث اور دیگر مذہبی متون میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔
مشہور عرب جغرافیہ دان ابن حوقل نے اپنی تصنیف ”صورت الارض“اور المقدسی نے اپنی کتاب”احسن التقاسیم فی معرفتہ الاقالیمُ“ میں دسویں صدی کے بلوچوں کو ایک خودمختار، آزاد اور الگ قوم کے طور پر ذکرکیا ہے۔یہ مورخین اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچوں کی زبان اور لہجہ فارسی اور دیگر ایرانی زبانوں سے مختلف ہے۔ یہ تاریخی شواہد اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ بلوچی زبان و ثقافت ایک قدیم اور منفرد ورثہ رکھتی ہے، جو صدیوں سے اپنی الگ شناخت قائم رکھے ہوئے ہے۔
لسانیات کے ماہر ڈی ولسن کے مطابق، بلوچی زبان کا رسم الخط عربی رسم الخط کے رائج ہونے سے پہلے کسی اور تحریری نظام میں موجود تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلوچی زبان کا تحریری وجود قدیم تہذیبوں سے جڑا ہوا ہے اور اس کا ایک علیحدہ ادبی و لسانی پس منظر ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچی ادب ایک زرخیز، وسیع، اور قدیم ادبی روایت کا حامل ہے، جو لوک داستانوں، شاعری، تاریخ، رزمیہ، اور جدید نثر کے مختلف اصناف پر مشتمل ہے۔بلوچی ادبی ورثے کی گہرائی، وسعت، اور اثرات عالمی ادبی منظرنامے میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
یہ زبان صدیوں سے اپنی تخلیقی قوت اور اظہار کی صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بیسویں صدی میں بلوچی نثری ادب کی ترقی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جدید ادبی رجحانات کے تناظر میں اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو بلوچی ادب اپنی کلاسیکی روایات کے ساتھ ساتھ عصری حسیت اور فکری وسعت میں بھی نمایاں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بلوچی زبان کے مختلف ادیبوں اور شاعروں کے تخلیقی شہ پارے دیگر زبانوں میں ترجمہ کی جا ررہی ہیں ہے۔اور عالمی سطح پر ان کی تحریروں پر تحقیق ہو رہی ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور دیگر بین الاقوامی جامعات میں بلوچی زبان و ادب کے کورسز پڑھائے جا رہے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ بلوچی ادب کی علمی و ادبی حیثیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ( جاری ہے)

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

کوہلو: پاکستانی فورسز کی زمینی فوجی جارحیت جاری

ہفتہ مارچ 1 , 2025
کوہلو کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کی زمینی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ علاقائی ذرائع کے مطابق، پاکستانی پیرا ملٹری فورسز (ایف سی) کی بڑی تعداد بلوچستان کے ضلع کوہلو میں واقع بالا ڈھاکہ پہنچ چکی ہے، جہاں نو شام اور لونڈ کے علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ واضح […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ