
خضدار سے ماورائے عدالت جبری لاپتہ بلوچ بیٹی اسما بلوچ کے بھائی عطااللہ بلوچ نے آج دھرنا کے مقام پر پریس کانفرنس کیا کہا جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، ہم کل سے بلوچ یکجہتی کمیٹی خضدار زون اور متاثرہ خاندان کے ہمراہ احتجاج پر بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ریاستی جبر کے خلاف آج خضدار میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی، جس میں عام عوام، سیاسی و سماجی کارکنان، طلبہ، تاجر برادری اور مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔معزز صحافی حضرات!جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بلوچستان میں ظلم و جبر کی ایک بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو آئے روز جبری طور پر لاپتا کیا جا رہا ہے، ماؤں کی گود اجاڑی جا رہی ہے، بہنوں کے سروں سے چادر چھینی جا رہی ہے، اور اب ہمارے گھروں کی خواتین بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ہمارے گھروں کے چراغ بجھائے جا رہے ہیں۔کل رات 2 بجے، ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے افراد نے ہمارے گھر پر حملہ کیا، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، اہلِ خانہ پر تشدد کیا، اور ہماری بہن کو جبری طور پر اٹھا کر لے گئے۔ معزز صحافیوں! تصور کریں، ایک ماں اپنی بیٹی کے انتظار میں تڑپ رہی ہے، دروازے کی دہلیز پر بیٹھی ہر آہٹ پر چونک رہی ہے، مگر اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔بلوچستان میں ظلم کے سائے مزید گہرے ہو رہے ہیںیہ ظلم بلوچستان میں کوئی نیا نہیں، مگر اب ہمارے گھروں کی خواتین بھی نشانہ بن رہی ہیں۔ پہلے ہمارے بھائی اور بیٹے جبری گمشدگی کا شکار ہوتے تھے، مگر اب ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی ریاستی جبر کی زد میں آ چکی ہیں۔ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے اعلان کرتے ہیں کہ کل، 8 فروری 2025 کو پورے جھلاوان ریجن میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال اور پہیہ جام ہوگا۔ خضدار، سوراب، نال، زہری اور دیگر علاقوں میں تمام کاروباری مراکز بند رہیں گے، اور ٹرانسپورٹ مکمل طور پر معطل ہوگی۔ ہم عام عوام، تاجروں، ٹرانسپورٹ یونین، طلبہ تنظیموں اور سماجی کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس احتجاج میں بھرپور شرکت کریں اور ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکامِ بالا کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر 24 گھنٹوں کے اندر ہماری بہن کو بازیاب نہ کروایا گیا تو ہمارا احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا، اور اس کی تمام تر ذمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوگی۔ہم حکومتِ بلوچستان، انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اگر یہ ظلم بند نہ ہوا تو پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہوگا۔معزاز صحافی حضرات!ہمیں اور ہمارے خاندان کو شدید خدشہ ہے کہ جتنا وقت ضائع کیا جا رہا ہے، اتنا ہی ہماری بہن پر ظلم میں اضافہ ہوگا اور اس کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ ہمیں یہ بھی خطرہ ہے کہ اسے زبردستی کسی جعلی پریس کانفرنس میں پیش کر کے یہ بیان دلوایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی۔ اگر ایسا کوئی بیان سامنے آتا ہے، تو ہم اسے مسترد کریں گے اور اسے ریاستی دباؤ اور جبر کا نتیجہ سمجھیں گے۔