تحریر : زدّگ بلوچ
زرمبش اردو

جب مٹی کی خوشبو رگوں میں اتر جائے، جب زمین کی محبت دل میں عشق کی صورت جاگ اٹھے، تو وہ شخص عام انسان نہیں رہتا—وہ ایک دیوانہ بن جاتا ہے، ایک بغاوت، ایک کہانی۔ سلال ایسا ہی ایک عاشق تھا—اپنی دھرتی کا عاشق، آزادی کا متوالا، اور غلامی کے اندھیروں میں ایک شعلہ۔
سلال کی کہانی کسی عام بچے کی کہانی نہیں تھی۔ وہ عام بچوں کی طرح کھیلتا ضرور تھا، مگر اس کے خواب دوسروں سے مختلف تھے۔ جہاں دوسرے بچے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے، وہ سرحدوں کی کہانیاں سنتا۔ جہاں اور لوگ مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے، وہاں سلال اپنی مٹی کے ماضی کو کھنگالتا، اپنی زمین کی زنجیروں کو پرکھتا، اور اپنے دل میں ایک عہد باندھتا۔
“زمین ماں ہوتی ہے، اور جو اپنی ماں کی حفاظت نہ کر سکے، وہ بیٹا کہلانے کے لائق نہیں!”
یہ جملہ اس کے دل میں ایک الاؤ کی طرح جلتا رہا، یہاں تک کہ وہ ایک ایسے سفر پر نکل پڑا جہاں منزل یا تو آزادی تھی یا شہادت۔
وقت کے ساتھ غلامی کے بادل گہرے ہونے لگے، دشمن کی چاپیں قریب آنے لگیں، اور زمین کی سسکیاں تیز ہونے لگیں۔ سلال جان چکا تھا کہ اب صرف لفظوں سے نہیں، بلکہ خون سے تاریخ لکھی جائے گی۔ اس نے مجید بریگیڈ کے فدائی قافلے میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ راستہ عام نہیں تھا—یہ موت کی گلی تھی، جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ مگر سلال کے لیے زندگی کا مقصد ہی موت کو گلے لگانا تھا، بشرطیکہ وہ موت اس کی زمین کو آزاد کر دے۔
پھر وہ دن آیا وہ لمحہ جس کا اس نے عمروں انتظار کیا تھا۔ وہ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ اس کے قدموں میں ٹھہراؤ تھا، دل میں یقین، اور آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی—وہ روشنی جو صرف ان آنکھوں میں ہوتی ہے جو موت سے نہیں، غلامی سے ڈرتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب بھی ہوا چلتی ہے، جب بھی زمین پر بارش پڑتی ہے، کہیں نہ کہیں ایک سرگوشی سنائی دیتی ہے:
“میں سلال ہوں، میں وہ ہوں جو مر کر بھی زندہ ہے، کیونکہ میں اپنی مٹی میں دفن نہیں، اپنی مٹی میں بیدار ہوں!”
یہ کہانی صرف سلال کی نہیں، یہ ہر اس عاشق کی ہے جو اپنی زمین پر اپنی جان نچھاور کر دیتا ہے۔ یہ خاک کے دیوانوں کی کہانی ہے، یہ لہو سے لکھی جانے والی تاریخ ہے، یہ ان چراغوں کی کہانی ہے جو بجھ کر بھی اندھیروں میں روشنی چھوڑ جاتے ہیں!