تحریر: مزار بلوچ
زرمبش اردو

5 فروری کو پاکستان میں یومِ کشمیر منایا جائے گا، یہ ایک اہم دن ہے جو کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے وقف ہے۔ یہ دن پاکستان میں سب کے لیے عام تعطیل ہوتا ہے اور کشمیری مسئلے کے حوالے سے پاکستان کی بے لوث حمایت کی یاد دہانی کراتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے، پاکستان کشمیری عوام کے حقوق کے لیے مسلسل کوشاں رہا ہے اور خطے کے پاکستان میں انضمام کی جدوجہد کرتا آیا ہے۔ برسوں سے، پاکستانی حکومت نے نہ صرف جنگی اور سفارتی حمایت فراہم کی ہے بلکہ کشمیری مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو بھی کشمیر کے پاکستان میں انضمام کی جنگ میں بھیجا ہے۔ یومِ کشمیر پاکستان کے عزمِ مستحکم اور کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے لیے اس کی قربانیوں کی علامت ہے۔
قبضہ شدہ زمین پر پیدا ہونے اور زندگی گزارنے کے باعث، میں نے ظلم، انسانی حقوق کی پامالی، معاشی استحصال اور حاشیہ برداری کا درد گہرائی سے محسوس کیا ہے۔ ان تلخ حقیقتوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس صورتحال پر لکھوں اور آزادی و خودمختاری پر اپنے خیالات کا اظہار کروں۔
میرا بھی من کرتا ہے کہ میں کشمیر کے ان لوگوں کے لیے آواز اٹھاؤں جن سے ان کی آزادی چھین لی گئی۔ سامراج کے ظلموں کے تلے پرورشی نے مجھے آزادی کا حقیقی قدر سِکھایا ہے اور میں ان سب لوگوں کے ساتھ ہوں جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ میں نعرہ کس ریاست کے خلاف لگاؤں؟
ہندوستان یا پاکستان؟
کیونکہ کشمیر کے اس حال کا ذمےدار ہندوستان سے زیادہ پاکستان ہے۔
1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے دوران، مہاراجہ ہری سنگھ کو ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کی مخمصے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں بھی ہوئی لیکن دونوں نے خود مختاری مانگی۔ پاکستان نے بلوچستان پر براہ راست حملہ کیا اور پاکستان کی حمایت یافتہ قبائلیوں نے کشمیر پر حملہ کر دیا، جس سے مہاراجہ کو بھارت سے الحاق کرنے پر آمادہ کیا گیا، جس سے کمشیر کے دو ٹکڑے ہوئے۔
کشمیر تب سے پاک بھارت تنازعات کا ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے، جس میں 1947، 1965، 1971 کی جنگیں اور 1999 کے کارگل تنازع شامل ہیں۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں ایک شورش پھوٹ پڑی، جس نے جاری بدامنی کو ہوا دی۔
لیکن اس آخری قبضے سے پہلے 1947 کے وقت اس خطے میں آزادیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا جب برطانوی سامراج نے اس خطے سے جانے کا فیصلہ کیا، جس سے انڈیا، پاکستان، سری لنکا کے ساتھ دو اور ریاستوں کو آزادی ملی تھی، جن میں کشمیر اور بلوچستان شامل تھے۔ ان دونوں ریاستوں نے اپنے آزادی کا ایک سال پورا نہیں کیا تھا کہ ان سے ان کی آزادی چھین لیا گیا تھا۔
پاکستانی ریاست اپنی تشکیل سے ہی تاریخ کو مسخ کرنے اور سچائی کو دبانے میں مصروف رہی ہے۔ ریاستی بیانیے، جو پاکستانی نصاب میں پڑھائے جاتے ہیں، خود پاکستان میں موجود دانشوروں کے ذریعے بھی جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ پاکستان، جو خود کو کشمیر کا سب سے بڑا حمایتی ظاہر کرتا ہے اور ہمیشہ بھارت پر کشمیر پر قبضے کا الزام لگاتا رہا ہے، درحقیقت خود کشمیر اور بلوچستان کی آزادی کا سب سے بڑا غاصب ہے۔
1947 میں، بھارت اور پاکستان خطے کی دو سب سے طاقتور ریاستیں تھیں، جبکہ ان کے آس پاس نیپال، بھوٹان، سری لنکا، مالدیپ، کشمیر اور بلوچستان جیسے نسبتاً کمزور ممالک موجود تھے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنے کمزور پڑوسیوں پر قبضہ کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ اس کے برعکس، پاکستان نے ان پر چڑھائی کی اور ان کی آزادی کو سلب کیا۔
پاکستان ہمیشہ کشمیر پر بھارتی قبضے کا معاملہ اٹھاتا رہا ہے، مگر خود اس سے کہیں زیادہ ظلم، استحصال اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بلوچستان میں کرتا رہا، جنہیں وہ دبانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اگر پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ نہ کیا ہوتا اور کشمیر پر چڑھائی نہ کی ہوتی، تو آج یہ دونوں آزاد ریاستیں ہوتیں اور ان کے عوام کہیں بہتر زندگی گزار رہے ہوتے۔
کشمیر کبھی بھی بھارت کے ساتھ الحاق نہ کرتا اگر پاکستان نے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، مہاراجہ ہری سنگھ نے پورا کشمیر کو قانونی طور پر بھارت میں شامل کیا تھا جس میں پاکستانی کشمیر بھی آتا ہے، جس سے پاکستان کا قبضے کا دعویٰ مشکوک ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا جیسے ممالک بھارت کے ہمسایہ اور دوست ہونے پر مطمئن ہیں۔
بنگلہ دیش، جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا، اس نے پاکستانی حکمرانی میں اپنی تاریخ کے بدترین مظالم کا سامنا کیا۔ 1971 میں قتلِ عام، عصمت دری، اور نسل کشی پاکستان کے کردار پر ہمیشہ کے لیے ایک سیاہ دھبہ ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان جس بھارت کو کافر ریاست قرار دیتا تھا، بنگلہ دیشی مسلمان انہی کافروں سے پاکستانی فوج کے ظلم و ستم سے پناہ کا بھیکھ مانگ رہے تھے۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر کا ایک حصہ بھی ہے، جہاں آج بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
پاکستان ہی تھا جس نے کشمیر اور بلوچستان سے آزادی اور خودمختاری چھینی، ان کی تاریخ کو مسخ کیا اور پاکستان کے نوجوانوں پر جھوٹے اور گمراہ کن بیانیے مسلط کیے۔ لیکن اب میرا پاکستانی نصاب سے باہر تھوڑا بہت تاریخ اور سیاست کا علم ہے جو مجھے اس حقیقت قائم کرتا ہے کہ میں کشمیر کے خلاف ہندوستان سے پہلے پاکستان کے خلاف نعرہ لگاؤں۔