تحریر: دلمراد بلوچ
(سیکریٹری جنرل بلوچ نیشنل موومنٹ )
میں کئی سالوں میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے سوشل میڈیا میں سرگرم دوست ایک قسم کے مبہم جذباتی پوسٹ یا آدھی ادھوری پوست کو رواج دے رہے ہیں یا اس کا حصہ بن چکے ہیں۔
اکثر دیکھا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض لوگ جذباتی ردعمل کے طور پر کسی کی موت یا شہادت کی خبر کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ واضح طور پر ایک سنسنی پیدا کرتا ہے اور غیر ضروری تجسس کو ہوا دیتا ہے۔ ذرا اس کا جائزہ لیں گئ لیں کہ اس طرز عمل کے نقصان کیا ہیں ؟
پہلا: نام نہ لینا، خبر عام نہ ہونا
جب کوئی نام یا تفصیل دیے بغیر ایسی پوسٹ کرتا ہے تو وہ ایک اندھیری سرنگ میں اپنے ہی لوگوں کو دھکیل دیتا ہے، عام لوگ شدید اضطراب و بےچینی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بسا أوقات افواہیں جنم لینے لگتی ہیں۔
دوسرا: جبری لاپتہ افراد کے خاندانوں کی اذیت
آج کے بلوچستان میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی سے موت و زندگی کے کشمکش میں جی رہے ہیں، وہ ہر ایسی پوسٹ پر لرز اٹھتے ہیں۔ لمحے بھر میں امید اور خوف کے درمیان معلق ہوجاتے ہیں کہ کہیں یہ خبر ان کے پیارے کی تو نہیں؟ ان کے دکھ کی شدت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو خود اس کرب سے گزر رہا ہو۔
تیسرا: جنگی حالات اور فرنٹ لائن پر لڑنے والے نوجوان اور خاندان
آج بلوچستان کے طول و عرض میں ہزاروں نوجوان پہاڑوں میں لڑ رہے ہیں اور جنگ میں شہادت کوئی انہونی بات نہیں۔ لیکن جب بھی مبہم خبر سامنے آتی ہے تو ہر سرمچار کے گھر والے اس خدشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ شاید ان کے بیٹے، بھائی یا ساتھی کا نام ان بے وضاحت پوسٹس کے پیچھے چھپا ہوا ہو۔
میری گزارش:
سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو کسی بھی سطح پر سیاسی یا انقلابی سرگرمیوں کا حصہ ہیں، انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مبہم پوسٹس سے اجتماعی اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے بارے میں خبر دینی ہے تو یا تو پوری تصدیق کے ساتھ دی جائے یا پھر خاموش رہا جائے۔
شہداء یا کسی کی وفات کی خبر دینے کے لیے ایک ذمہ دارانہ طریقہ کار ہونا چاہیے۔
اگر کسی شہید یا کسی لاپتہ فرد کی موت کی تصدیق ہوجائے تو مناسب وقت اور طریقے سے خبر دی جانی چاہیے نہ کہ جذباتی یا مبہم پوسٹس کے ذریعے۔
امید ہے کہ میری اس گزارش کے پیچھے کوئی خاص مقصد نہیں تلاشا جائے گا بلکہ اس پر إحساس اور زمہ دارانہ ردعمل کا مظاہرہ ہوگا، مجھے آپ سب سے یہی امید ہے۔