
اماں عرض ملک کے نوجوان بیٹے رضا جہانگیر کو 2013 میں پاکستانی فورسز نے تربت ابسر میں گھر پر چھاپے کے دوران ماورائے عدالت قتل کر دیا تھا۔ ایک سال بعد پاکستانی فورسز نے آواران کے علاقے زیارت ڈن میں اس کے شوہر بختیار بلوچ کو دیگر افراد کے ساتھ دوران عبادت گولی مار کر قتل کر دیا۔ بات یہیں نہیں رکی جب شہید رضا جہانگیر کا خاندان ریاستی ظلم و بربریت سے متاثر ہو کر کراچی نقل مکانی کرگیا تو وہاں بھی اس خاندان کو ذہنی و جسمانی اذیت دینے کے لیے شہید رضا جہانگیر کی بیوہ بی بی زہرہ اور ان کے چھوٹے بچے جنگول کے اوپر کار چڑھائی گئی۔ اس واقعے میں رضا جہانگیر کا کمسن بیٹا جنگول جاں بحق اور ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئیں۔ لیکن ریاستی اداروں نے اپنے اس وحشیانہ فعل پر افسوس کرنے کے بجائے ڈھٹائی سے ان کے اس فعل کو ریاست کی فتح سمجھا۔
2022 کو کوئٹہ میں ایک اور آپریشن کے دوران رضا جہانگیر کی بیوہ زہرہ بلوچ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس آپریشن میں وہ شدید زخمی ہوئی تھی لیکن اب تک یہ ادارے متاثرہ خاندان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں تیرتیج پر شہید کریمہ کی یاد میں منعقدہ ایک پروگرام کے بعد اماں عرض ملک اور بی بی زہرہ سمیت متعدد افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی – اب ان اداروں خصوصاً محکمہ لیویز کے ایک حاضر سروس نائب رسالدار اللہ داد کی تعریف کی جانی چاہیے۔ اس عظیم کارنامے کو انجام دینے میں انتہائی وفادار نکلا۔
اماں عرض ملک، آپ کی بہادری اور آپ کے خاندان کی قربانیوں نے اس ریاست کو اس قدر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا کہ اب وہ آپ کی وجہ سے اپنی ریاست کو گرتے دیکھ رہے ہیں۔