اساتذہ کا عالمی دن اور نوآبادیاتی غیرپیداواری اور غیر شعوری تعلیمی نظام۔ زہیر مشتاک

ہمارے معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پہ ہم بہت سے ایسے اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کا مقصد اور بنیاد ہم نہیں جانتے اُن میں سے ایک تعلیم ہے ، لوگ کہتے ہیں میں اپنے بچوں کو اچھی تعیم دلانا چاہتا ہوں تاکہ اُن کا مستقبل محفوظ رہے۔اب ہیاں دو چیزیں ہیں اچھی تعلیم اور اچھا مستقبل. یہ دونوں روزگار سے منسلک ہیں ، معاشرہ اچھی تعلیم کی پہچان کیسے کرتا ہے ہہاں دو میڈیم کی تعلیم ہیں اُردو اور انگریزی. اُردو سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور انگریزی نجی اور آرمی اسکولوں میں سکھائی جارہی ہے.

اچھی تعلیم انگریزی میٖڈیم کو اس لیے کہتے ہیں جس کے حصول کے بعد طلباء کا مستقبل محفوظ ہوتاہے ، مطلب اس تعلیمی نظام کی تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ ایک زبان پر مہارت حاصل کرکے روزگار حاصل کرنا ۔زبان سیکھ کر روزگار کے حصول والے تعلیم نظام کے بارے میں بابامری نے کہا تھا کہ یہ نظام تعلیم صرف بابو پیدا کرتا ہے ۔جونیر کلرک سے لیکر سیکریٹری تک سب بابو ہیں جن کا علم صرف حساب کتاب لکھنے تک محدود ہے. یہ حضرات سوشل سائنسز کے شعبے میں فلسفہ ، شعور ، نفسیات ، تاریخ ، سیاسیات کے علوم سے محروم ہیں اور سائنسی شعبے میں تیکنیکی ، میڈیکل اور صنعتی پیداواری تعلیم, مصنوعات بنانے والے ہُنر سے محروم ہیں ۔سماجی فطرت کی تشکیل ایک دن میں نہیں ہوتی ہر منفی یا مثبت فطرت ارتقائی عمل طے کرکے ایک شکل اختیار کرچُکی ہے معاشرے میں جو غیر پیداواری مفلوج تعلیمی نظام ہے یہ حادثاتی طور پر نمودار نہیں ہوا ہے اس کے پیچھے تاریخی عوامل اور کالونیل مفادات شامل ہیں ۔بلوچستان جو کالونیل دور میں ہندوستانی وائسرائے کا ماتحت تھا اور تقسیم ہند کے بعد نیوکالونیل دور میں اور اب ہندوستان کے ایک ٹکڑے کے وائسراْئے کا ماتحت ہے, اس لیے ہم ہندوستانی تعلیمی تشکیل کا جائزہ لیتے ہیں ۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان معاشی طور پر سُپر پاور تھا جیسے آج کے دور میں ہر کوئی یورپ اور آمریکہ میں آباد ہونا چاہتا ہے اُس زمانے میں ہر فرد ہندوستان میں آباد ہونے کا خواب دیکھتا تھا. ہندوستان تک رسائی اُس کے لیے ممکن تھا جو فارسی اور عربی زبان پر مہارت رکھتا تھا ہندوستان میں مسجدوں کے ساتھ فارسی اور عربی سکھانے کے لیے مدرسے ہوتے تھے جو زُبان سکھاتے اور سَند دیکر مولوی کا خطاب دیتے تھے. حکومت مسلمانوں کی تھی, اس لیے چند حدیث اور اسلامی قوانین بھی سکھائے جاتے تھے ، علماء اور مولوی میں فرق تھا. علماء اُن کو کہتے تھے جو اسلامی تاریخ ، حدیث قران اور فقہ پر مکمل مہارت رکھتے تھے ۔بلوچ سماج میں فارسی لکھنے اور پڑھنے والے کو مُلا کہتے تھے۔اُس وقت ہندوستان کا معاشی نظام یورپی صنعتی انقلاب سے بے خبر دستکاری اور زراعت پر قائم تھا یہ حضرات زبان سیکھ کر حساب کتاب لکھتے یا دربار میں شاعری کرکے روزی روٹی کماتے یا شہنشاہ کی تعریف میں قصیدے پڑھ کر نوازشات حاصل کرتے تھے۔دوسری طرف افلاس زدہ اور تھیوکریسی میں مبتلا یورپ میں انقلاب پہ انقلابات آتے رہے وہ دن بھی آئے جب دہلی کے پیچھے والے جس دروازے سے شاہ جہان پہلی بار لال قلعے میں داخل ہوئے تھے اُسی دروازے سے بہادر شاہ ظفر فرار ہوگیا اور ہندوستان پر باقاعدہ کالونیل دور کا آغاز ہوگیا. برطانوی حکومت نے فارسی کو منسوخ کرکے انگریزی کو سرکاری زبان کی حثیت سے نافذ کردیا ، فارسی کی منسوخی سے مدرسوں کی ڈگریاں بے کار ہوگئیں. وہ اب ملازمت کے اہل نہیں ریے. اس عمل نے ہندوستانی علماء کے زرائع آمدن بند کردیا. مدرسوں نے ردعمل کے طور پر انگریزی اور سائنسی تعلیم کو کفر قرار دے دیا.

علی گڑھ اور دوسرے اداروں نے انگریزی تعلیم کے لیے ادارے کھول دیے اب روزگار کی حصول کے لیے لوگوں نے مدرسوں کے بجائے انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا رُخ کرنا شروع کردیا.برطانیہ جو خود صنعتی دور کے عروج پر پہنچ چُکا تھا پوری دُنیا کی منڈیوں میں اُس کی مصنوعات جاتے تھے لیکن ہندوستانی نظام تعلیم کو تیکنیکی تعلیم سے دور رکھا گیا. صرف زبان کے حصول اور سائنس کو تھیوری کی حد تک پڑھانے تک محدود رکھا. برطانیہ کا مقصد ایک ایسی مفلوج تعلیم یافتہ نسل پیدا کرنا تھی جو غیرپیداواری تعلیم حاصل کرکے انگریز کلیٹروں اور وائسرے کے دفتر میں کلرک کی خدمات انجام دیتے رہے اور سوشل سائنسز کے شعبے فلسفہ ، شعور، نفسیات ،تاریخ اور سیاسیات سمیت تکینیکی تعلیم صنعتوں میں مصنوعات بنانے کے ہنر سے یکسر محروم رہے.یہ ظاہری تعلیم یافتہ کلرک اپنے انگریز آفیسروں کے سامنے شدید احساس کمتری میں مبتلا تھے کپڑے جوتے سمیت پورا طرز زندگی انگریزوں کے اپنا چُکے تھے جب انگریزی سیکھنے والے زیادہ ہوگئے اور ملازمت کے مواقع کم ہوگئے تو ہندو مسلم تضادات کی صورت میں الگ کوٹے کا مطالبہ سامنے آیا جس کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ جیسی پارٹیاں وجود میں آگئیں.وقت کے ساتھ برطانیوی حکومت نے مقامی آفراد کے لیے بیوروکریسی میں ایک حصہ مخصوص رکھا جو مستقبل میں برطانیہ کی واپسی کے بعد اس کا جانشین بن جائے ، بیوروکریسی کے ساتھ برٹش انڈین آرمی ، برٹش انڈین جوڈیشل اور جاگیردار سیاست دان بھی بنائے دے جارہے تھے اور انگریزی تعلیم صرف ان چار طبقے کی اولاد تک محدود رکھی.

بلوچستان جو ہندوستانی تعلیمی نظام کا ماتحت تھا انگریزوں نے برٹش بلوچستان کے تمام سرداروں کے بچوں کو انگریزی تعلیم دلائی اور ریاست بلوچستان میں آخری خان آف قلات اور صرف ایک ٹیم کو انگریزی تعلیم دلائی جو بعد میں خان آف قلات کے ملازم اور سیاسی ونگ بن گئے ۔جب کالونیل دور اختتام پزیر ہوا اور نیوکالونیل دور کا آغاز ہوگیا تو قیادت بیوروکریسی ، برٹش انڈین آرمی جو پاک آرمی کے نئے نام سے نمودار ہوئی جاگیردار سیاست دان اور جوڈیشری کو منتقل ہوگئی اور محمد علی جناح ان شعبوں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ لیکن آمریکہ نے بہت جلد برٹش انڈین آرمی کے جنرل ایوب کو ریاست کا سربراہ مقرر کرواکر آمریکہ آنے کی دعوت دے دی۔ایوب خان کے پہلے دورہ آمریکہ میں پاکستان کے مستقبل کا سیاسی ، تعلیمی اور معاشی نظام طے کیا گیا ، پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج رکھنا تھا تاکہ وہ آمریکہ کی بالادستی سے نہ نکل سکے. کمزور معشیت کے لیے معشیت کو زراعت پر منجمد کردیا گیا اور صنعتی نظام سے دور رکھا گیا نیوکالونیل چوکیدار فوج ، بیوروکریسی ،جاگیردار سیاست دان اور جوڈیشری کے لیے ائی ایم ایف سے قسط کی صورت میں تنخواہیں مقرر کی گئیں اور نظام تعلیم کو کالونیل دور کے غیرپیداواری طرز پر رکھا گیا. جو صرف زبان کے حصول اور تھیوریکل میڈیکل تک محدود رہی۔لیکن نوکالیونیل مائنڈ سیٹ اپنے چوکیدار فوج ، بیورکریسی ، جاگیردار سیاست دان اور جوڈیشری کی اولادوں کا مستقبل محفوظ رکھنا چاہتے تھے اس لیے سرکاری اسکولوں میں عام عوام کے لیے تعلیمی زبان اُردو نافذ کردی گئی اور نجی اور آرمی اسکولوں میں انگریزی زبان نافذ کی گئی تاکہ عام عوام کے لیے ملازمت کا حصول مشکل ہوجائے ۔یہ واضع ہوچکا ہے کہ یہ نظام تعلیم صرف روزگار کے حصول کا ایک زریع ہے اس کا شعور ، اور تیکنیک سے کوہی تعلق نہیں ۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کی مذمت کرتے ہیں۔ وی بی ایم پی

پیر اکتوبر 7 , 2024
وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما۔قدیر بلوچ ، جوائنٹ سکرٹری حوران بلوچ اور بلوچ وومن فورم کے سلطانہ بلوچ نے اپنے مذمتی بیان کہا ہے کہ پی۔ٹی ایم کے عظیم الشان جرگہ کو سیکورٹی فورسز کی جانب سے روکنے کی کوشش میں طاقت اور تشدد کے استمال کی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ