کمال! معلوم نہیں تو اس وقت کہاں ہے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں تمام آسائشیں موجود ہوں گی، جیسے اسلام میں جنت، مجوسیت میں بہشت، ہندومت میں سورگ، عیسائیت میں ہیون اور بدھ مت میں نروان وغیرہ، شاید تو بھی کسی ایسی جگہ پر سکون میں ہو، یا اب بھی وہی بے چین، مضطرب اور سیماب صفت ہو۔”کمال! آج جی جاہتا ہے کہ آپ سے کچھ باتیں کروں یہ باتیں اکیلے میری نہیں بلکہ ان میں ایک بڑا حصہ آپ کے شاشان کی ہیں۔کیا بتاؤں، کیسے بتاؤں، تیرے جانے کے بعد میں کس کیفیت میں مبتلا ہوں، حالانکہ میں تجھے "کمال” کہنا نہیں چاہ رہا لیکن تیرا نام ہی ایسا ہے کہ کمال کہے بغیر بات کی ابتدا ء ہی نہیں کی جاسکتی اور کام بھی ایسا کرگئے کہ کمال کہے بنا چارہ نہیں، لہٰذا چاروناچار کمال کہہ کر مخاطب کروں گا“کمال تو شاشان کے دامن میں جنما۔۔۔یہیں پلے، بڑھے اور یہاں ہی سے عدم کی راہ لی اور صدیوں سے اک ادائے بے نیازی سے ایستادہ شاشان میرے لئے بھی اجنبی نہیں بلکہ شاشان سے میرا ناتا بہت پرانا اور کچھ عجیب سا ہے، اکثر و بیشتر شاشان کی ایک بے نام سی کشش مجھے اپنی اُور کھینچ لیتی اور میں شاشان کے پاس چلا جاتا، اکثر رات اور کبھی کبھار دن کو بھی۔کیوں جاتا، سچ پوچھو تو مجھے خود بھی اس کی وجہ معلوم نہیں، میرا گمان تھا یا مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ شاشان کے ماتھے کی جھریوں میں صدیوں کا درد اور بے بسی کی ہزاروں انوکھی داستانیں محفوط ہیں، بس پڑھنے، سجھنے والوں کی ضرورت ہے، اس لیے شاشان سے قربت بڑھانے لگا۔کمال! لوگ سمجھتے ہیں کہ شاشان ایک بے جان پہاڑ اور اس کے ماتھے کی جھریاں محض قدرتی اِرتقاء کے عمل کی پیداوار ہیں، سچ پوچھیں تو میں بھی ایسا ہی سمجھ رہا تھا مگر مجھ پر یہ راز اُس وقت کھلا جب میں نے دیکھنے کے ساتھ ساتھ شاشان کے درد کو محسوس کرنا سیکھ لیا، طرفہ تماشا یہ کہ شاشان کی کشش اپنی جگہ میرا مغالطہ یہ بھی تھا کہ کوئی دن شاشان اپنا درد مجھ سے بیان کرے گا یا میں اس کے ماتھے کی جھریوں میں پنہاں دردکی داستانوں کو پڑھ کر انہیں لکھنے کے قابل بن جاؤں گا۔کمال! شاید یہی وہ بنیادی إحساس تھا کہ جب بھی موقع ملتا تو شاشان کا رخ ضرور کرتا اور اس عظیم پہاڑ کو سلام اپنا فرض بنالیا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ میری عادتِ ثانیہ بن گئی، میں سمجھ رہا تھا کہ شاشان بلند قامت اور بارعب ضرور ہے لیکن اس کے سینے میں ہزاروں سالوں کی داستانیں اور تاریخ محفوظ ہے، شاشان کے سینے میں دفن درد، شاید ہماری تقدیر کا آئینہ ہیں، اس سے یارانہ خسارہ نہیں، ہاں یہ حقیقیت ہے کہ اسے درد آشنا دوست کبھی نہیں ملے، یہ بے مراد، بے نصیب پہاڑ کبھی جی داروں کا مسکن نہیں بنا کیوں، کیونکہ اس کی ایک بڑی شومیٔ قسمت ہے وہ بات بعد میں بتاؤں گا۔شاشان کے رعب و دبدبے کے تو سب قائل ہیں مگر مجھے یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ زمانے کی سختیاں سہہ کر یہ بھی اندر سے اتنا کٹھور، بے رحم اور سخت بن چکا ہے۔کمال! ایک دن حسب عادت شاشان میں کہیں بھٹک رہا تھا، پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے میں آبادی سے بہت دور نکل چکا تھا، عجیب کیفیت میں مبتلا۔۔۔آپ کہہ سکتے ہیں، میں ہوش و حواس گم کرچکا تھا۔ میں کہاں اور کس حال میں تھا، مجھے مُطلَق اندازہ نہ تھا، بہرکیف مجھے اندازہ اس وقت ہوا، جب پاؤں کی جوتیاں ساتھ چھوڑ گئیں، دوپہر کو چلچلاتی دھوپ اور پانی نہ ندارد۔۔۔
پیاس سے حال برا اور پاؤں سے خون رسنے لگا۔۔۔پاؤں سے خون کسی مقصد کی خاطر بہے تو سمجھ میں آتا ہے مگر اس طرح مفت میں۔کمال! آپ جانتے ہیں لوگ قصے بناتے ہیں کہ ماسٹر پگلا گیا ہے، بے مقصد بے جان اور بے آب و گیاہ ویرانے میں کوہ نوردی کی جنون کے ہاتھوں پیاس سے مرگیا وغیرہ، خیر مجھے ایسی باتوں کی پرواہ تھی اور آج نہ ہے، سو رفتار تیز کرنے کی کوشش کی کہ اس خود پہ نازل کردہ مصیب سے نکل سکوں اور کسی شکستہ پاء آہو کی طرح چیلوں اور گدھوں کا خوراک نہ بن جاؤں، میں جتنی تیزی سے چلنے لگا، پاؤں سے خون کا دھارا بھی تیزی سے بہنے لگا، کسی جگہ نڈھال ہوکر بڑے پتھر کے سائے میں سستانے کے لئے بیٹھ گیا، سوجھے پاؤں سے خون کا بہاؤ جاری تھا، پیاس سے مرا جارہا تھا، مجھے مدد کی اشد ضرورت تھی، بھلا اس ویرانے کون آدم زات میری کرتا، سوچا جس کے لیے اس حال کو پہنچا ہوں، کیوں نہ اسے آواز دوں، سو بچی توانائی مجتمع کرکے شاشان کو پکارا۔”شاشان! تیرا زخمی، مجروح مداح پیاس سے مرنے والا ہے، کچھ کرسکتے ہو یا ۔۔۔۔”لیکن جواب ندارد، دل ہی دل میں دوستی نامی شئے پر چار حرف بھیج کر اپنی تمت بالخیر کا انتظار کرنے لگا اور ہاں، سچ بتاؤں اس وقت میں شاشان سے یک طرفہ دوستی نفرت میں بدل رہی تھی کہ یہ کہاں کی اور کیسی دوستی ہے، اپنے مداح، اپنے دوست کے ساتھ ایسی سختی۔۔۔مگر شاشان تو شاشان ہے، اس کی بے اعتنائی مشہور ہے، مجھے کیا جواب دیتا، کیوں جواب دیتا۔۔۔
اب چلا کیسے جاؤں، سو، میں تھا، میری پیاس تھی، ریت کی طرح ہاتھ سے پھلستی وقت، میرا وقت، میری اب تک دھیمے دھیرے چل رہی سانسوں کی ڈوری کا وقت، میری "موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے، طبیعت کو دیکھتا ہوں میں” والی کیفیت ہوگئی تھی۔میں اپنی کوہ نوردی کے نتائج یا حقیقت میں اپنی احمقانہ موت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک ایک آواز آئی، شاشان کی آواز، ہاں کمال یقین مانیے کہ شاشان کی گرج دار آواز گونجی”اوئے تو میرے ماتھے کی جھریاں پڑھنے آیا ہے، تو شاشان کی رازوں سے پردہ ہٹائے گا؟”تو میری ماتھے کی جھریوں میں پنہاں صدیوں کی درد کا علاج ڈھونڈے گا””تو شاشان کی دکھوں کا مداوا کرے گا”آواز ایسی گرجدار، رعب دار اور غضب ناک تھی کہ مجھ پر ہیبت خیز لرزہ طاری ہوا، میں اپنی زخم، قریب آتی موت کے پاؤں کی دھمک سے بے خبر ہو گیا، یہ خوف دامن گیر ہوا کہ پیاس اپنی جگہ کہیں غصے میں بپھری شاشان یہیں میرا کام تمام نہ کردے، خوف سے تھرکتے، بسیار کوشش سے صرف اتنا کہہ پایا”میں تیرا دوست ہوں، میں، مم، آپ کے لیے کچھ کروں گا””رے پگلے، تو میرے لیے کچھ کرے گا، اپنی أوقات کا کچھ خبر ہے بھی کہ نہیں”لہجے میں شاشان کا تکبر چھلک رہا تھا، یہ أوقات والی بات سن کر دل کو ٹھیس سی لگی کہ یارا یہ أوقات والی ناپ تول تو سماج کا کام ہے، ہمارے سماج کا تو گویا فریضہ ہے لیکن شاشان بھی اسی پر اتر آیا ہے۔میں ٹھیس زدہ دل کے ساتھ مایوسی کی گہری کھائی میں گرتا چلا جارہا تھا کہ شاشان پھر گویا ہوئی لیکن انداز اور لہجے کی سختی حلاوت میں تبدیل ہوچکی تھی”تو سمجھتا ہے کہ یہ پہاڑ ہے، پتھر ہے، ہاں میں پتھر ہوں، بے جان پتھر، میں باہر سے ضرور سخت چٹان دِکھتا ہوں لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اندر سے جل بُن کر راکھ ہوں، میرے درد لادوا ہیں، میرے غموں کا کوئی اَنت نہیں، کوئی علاج نہیں، ارے میرے سینے میں ایک قطرہ پانی تک نایاب ہے آج تو میری کرنوں کی پیاس بجھائے گا؟”میری نصیب میں مایوسی کے سمندر میں غموں سے لدی بے بسی کی نیّا کھیتنا ہی رہ گیا ہے”یہ کیا، یہ وہی متکبر شاشان بول رہا ہے، شاشان کی آواز، جو ہمیشہ رعب کی علامت تھی، اچانک اتنی پست ہو چکی ہے۔ کیا یہ بھی مایوس ہوچکا ہے، ایسی بے بسی کی باتیں شاشان کی زبان سے، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، سچ پوچھیں میں فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں زیادہ مایوس ہوں یا شاشان، ہماری مایوسیاں آپس میں گڈ مڈ ہوگئے۔
میں انہی سوچوں میں غلطاں اور شاشان کی مایوسی پر سوچ رہا تھا کہ شاشان گرجنے لگا، وہی انداز، لہجے کی وہی سختی، وہی غضب ناکی”ہاں، مانتا ہوں کہ میری نصیب میں مایوسی کے سمندر میں غموں سے لدی بے بسی کی نیّا کھیتنا ہی رہ گیا ہے لیکن اب بھی میرے پاس فخر کے لیے بہت کچھ ہے، بہت کچھ، جو کسی کے پاس نہیں، مجھے فخر ہے کہ بلندی میں کوئی میری ہمسری کا سوچ بھی نہیں سکتا، میری قد کا کوئی نہیں، سورج کی کرنیں سب سے پہلے میری چوٹیوں کو سلام کرتی ہیں، ارے ایسے بہت سارے پہاڑ ہیں کہ ان کا پورا جیون میرے سائے ہی میں گزرتا ہے۔۔۔ہے کوئی ایسی ماں کا لال، جسے میں سر جھکا کر سلام کروں، ہے کوئی ایسا جو میری ہمسری کا جسارت کرے۔۔۔میری راز جاننے کے لئے بہت آئے مگر جو بھی آیا بھاڑے کا ٹٹو ثابت ہوا تو یہاں کیا کررہا ہے، چل نکل۔۔۔نہیں تو“کمال! کیا بتاؤں یارا، مجھ پر ویسے ہیبت خیز لرزہ طاری تھا، اب میں کھانپنے لگا، کچھ کہنے، سننے کا سکت باقی نہ رہا، میں نے مزید کریدنا مناسب نہیں سمجھا، وہاں سے رفوچکر ہوگیا، جان بچالی، فخر و تکبر کا نمونہ میرے ساتھ پتہ نہیں کیا کرتاکمال! مدعے پہ آتا ہوں، میں نے ارادہ کرلیا تھا کہ تجھے شاشان کی درد، غصہ اور مایوسی کی ساری باتیں بتاؤں گا اور ہم دونوں مل کر شاشان کی غصے کا سبب ڈھونڈ لیں گے، انہیں راضی کرلیں گے، شاشان کیسا بھی غصیلا ہو، جذباتی ہو، آخر اسی نے تو ہمیں اپنی دامن میں پناہ دی ہے، ہماری کھیت کھلیانوں کا پانی اسی کے ندی نالوں سے آتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ میرے حصے کے پانی میں یار لوگ زہر ملایا کرتے، خیر چھوڑیں اس بات کو، آخر ہماری زندگی کا دارومدار اسی شاشان پر ہے، ہماری ریوڑ اسی چوٹیوں پر چرتے ہیں، ایسے کتنے احسان گنواؤں۔کمال! مجھے یقین تھا کہ تو ساتھ میں ہوگا تو ہم ایسا کر پائیں گے مگر تو کم سن تھا، بچہ تھا، تجھ میں وہ سکت کہاں تھی کہ شاشان چڑھ سکیں، لیکن ارادہ پختہ تھا کہ میں اور آپ مل کر شاشان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے، میں نے آپ کو اپنی پوری مقصد تو نہیں بتایا لیکن بتانے کی کوشش کرتا رہا، کمال یہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ سے بارہا کہا تھا "کمال، اچھے سے پڑھنا، باتوں کو سطحی نہیں لینا، ان کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرنا اور خاص کر اس بات پر زور دیتا کہ کسی کام میں جلد بازی بالکل نہیں کرنا۔۔وغیرہ وغیرہ” یہ سمجھانا یا ہدایات اس دن تک کے لیے آپ کو بچائے رکھنا تھا کہ تو جوان ہوگا اور ہم مل کر شاشان کی کہانی بلکہ کہانیاں سنیں گے، اس کے ارمانوں میں رنگ بھریں گے”مگر۔۔۔کمال تو بڑا بے صبرا نکلا، تو بھی نافرمان ثابت ہوا، ارے تجھے جوان دکھنے والے بوڑھے ماسٹر کا ذرا سا بھی لحاظ نہ رہا، تجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ کتنی بار کہا تھا کہ کچھ بھی کرنا لیکن جلد بازی نہیں، دھیرے دھیرے چلنا اور جوان بن کر کچھ کرنا، میرے بعد، بہت بعد بڑھاپے کے کسی مرحلے میں اس بیچاری شاشان کو وداع کرنا لیکن تو بھی بچے کا بچہ رہا اور میری باتیں، التجائیں، منت سماجت سب رائیگاں۔۔۔اب تو تم خوش ہو، تجھے شانتی ملی ہوگی، لیکن میں ہرگز خوش نہیں ہوں، میرے ارمان تیرے ساتھ چلے گئے، اب خالی آنکھوں سے شاشان کو دیکھتا ہوں اور ہاں شاشان بھی تیری اس بے وقت الوداع سے بہت غمزدہ ہے۔
"شاشان غمزدہ ہے” یہ مجھے کیسے معلوم؟ بتاتا ہوں۔کمال! تیرے وداع کے بعد ایک چاندنی رات دلِ ناکام کے ساتھ پرانی راہوں پر چل نکلا اور ٹھیک وہاں پہنچا جہاں شاشان نے میری أوقات مٹی میں ملا کر مجھے دھتکار دیا تھا، ڈر بھی تھا کہ منع کے باوجود دوبارہ آنا انہیں ناگوار نہ گزرے یا غصے سے بپھر نہ جائیں لیکن وہی انجانی اور بے نام کشش مجھے وہاں لے ہی گیا، وہاں پہنچ کر سادھو سنتوں کی طرح مراقبہ کی سی اندازہ بیٹھ گیا اور دھیان مرتکز کرنے لگا، جانے رات کی کونسی پہر ہوگی لیکن اتنا یاد ہے کہ چاند اوٹ میں چھپ رہا تھا اور تاریکی پھیل رہی تھی کہ ایک شناسا سا آواز سماعت سے ٹکرانے لگا، ارے یہ تو شاشان کی آواز ہے لیکن اب پرانا رعب، داب، غبضناکی نہیں بلکہ آواز میں حزن و ملال تھا، ضعیفی و عاجزی تھی۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عظیم المرتبت شاشان درد کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے، نحیف سی آواز آئی”مجھے معلوم ہے کہ تو یہاں کیوں آیا ہے، آج تو میرے تکبر کا جواب دینے آیا ہے، مجھے نیچ ثابت کرنے آیا ہے“میں بڑا حیران ہوا کہ میں نے ایسی کون سی تلوار ماری ہے کہ عظیم قامت شاشان مرعوب ہوا جارہا ہے، سچ پوچھیں میں خود مخمصے کا شکار تھا۔میں نے ہمت کرکے پوچھا ”شاشان جی، میں نے ایسا کیا کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔“میری بات کاٹ کر شاشان گلوگیر آواز میں کہنے لگا”تو جیتا میں ہارا، سنو آج اپنی شکست کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں، اگرسننا چاہتے ہو تو“میں کہاں نہیں سنتا، میں تو شاشان کا یک طرفہ عاشق تھا، یہ یک طرفہ عشق بھی، خیر چھوڑیں، عشق وشق کو، میں تو سالوں سے وقت بے وقت کوئے جانان کی طواف کو نکلتا، اس نے خود ہی مجھے جھٹک دیا تھا، اب اس کا دل پسیج گیا ہے تو کان تو کیا دل کے کانوں سے سننے کے لیے بیتاب ہوں۔ میں نے حامی تو بھری لیکن اس بات پر ہنوز حیران تھا کہ شاشان جس کا کوئی ثانی نہیں، کوئی مقابل نہیں، کوئی ہمسر نہیں، آج کیسی اور کیونکر شکست کا اعتراف کرنے والا ہے۔
شاشان نے ایک ایسی لمبی آہ بھری جیسا کہ صدیوں بعد آہ بھر رہا ہو۔کمال! شاشان نے درد بھری آواز میں اپنی شکست کا اعتراف کرنا شروع کیا، کہنے لگا ”یار تیرے کمال نے میری تکبر خاک میں ملادیا۔۔۔تیرے کمال نے میری گردن جھکا دی۔۔۔صدیوں سے میں اس فخر میں مبتلا تھا کہ اونچائی میں کوئی میری ہمسری نہیں کرسکتا، میں ہی سب سے بلند، سب سے اونچا ہوں، یہی وہ وجہ تھی کہ میری گردن ہر وقت اکھڑ تھا لیکن تیرے کمال نے کمال ہی کردیا اور بلندی میں مجھ سے بازی لے گیا اور تو اور اب مجھے بھی سر اٹھا کر آپ کے کمال کو دیکھنا پڑتا ہے، سربازی و سر بلندی ہو تو ایسی۔۔۔ذرا سوچو تو سہی جب شاشان سر اوپر اٹھا کر کسی کو دیکھے تو وہ بلندی کیا بلندی ہوگی، اب ایسی بلندی وسرفرازی کے سامنے میری کیا حیثیتم کیا وقعت رہ گئی ہے، اب مجھے زندگی بھر تیرے کمال کے سامنے سر جھکا کر ہاتھ باندھے مودبانہ عرض گزارنا ہوگا“کمال! کیا بتاؤں، تکبر کے نمونے شاشان کا اعتراف سن کر میں تجھ سے سارے گلے شکوے بھول گیا حتیٰ کہ تیری بے وفائی، تیری بے وقت وداع بھی اس وقت ذہن سے اتر گیا، یہ سن کر آپ کو شاید عجیب لگے مجھے یک گونہ خوشی سا محسوس ہونے لگا کہ تو نے بے رحم، بے مروت، اکڑ شاشان کا سر جھکا دیا، کمر خم کردی ہے، میں یہی سوچ رہا تھا کہ پھر شاشان کی آواز آئی۔”مجھے معلوم ہے تمھاری فطرت، میری شکست کا اعتراف کا سن کر تم اندر اندر خوشی سے پھولے نہیں سما پارہے ہو لیکن میرا درد یہ نہیں ہے جو تو تجھ سمجھ رہا ہے۔”کمال! کیا کہوں، تیرے سنکی ماسٹر کی یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی، اب کے شاشان کی آواز میں شکستگی تھا، امیدیں ٹوٹنے کا کرب تھا، شاشان نے منقطع سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا ”میرا درد یہ نہیں ہے کہ کمال ہمسری میں مجھ سے بازی لے گئی، اب علاقے میں مجھ سے بھی کوئی بڑا پیدا ہوگیا ہے بلکہ میرا درد کچھ اور ہے۔۔۔“یہ کہہ کر اس پر اداسی چھاگئی، تھوڑی خاموشی کے بعد گویا ہچکیوں جیسی آواز آنے لگی، مجھے ایسا لگا کہ کوئی رو رہا ہے، غور سے سنا، واقعی یہ عظیم پہاڑ کی ہچکیوں کی آواز تھی۔پھر وہ روتا رہا، اس کی ہچکیاں بندھ گئیں، کافی دیر بعد رونے کی طوفان تھم سی گئی۔کہنے لگا”میری درد یہ ہے کہ میں صدیوں سے پیاس سے تڑپ رہا ہوں، صدیوں سے میرا ایک ہی غم ہے۔۔۔
میرا ایک ہی درد ہےکہ میں پانی سے محروم ہوں، جنم جنم کا پیاسی، سینہ بریاں۔۔۔میری دامن سے لے کر چوٹی تک پانی نایاب۔۔۔زندگی کا بہانہ نایاب۔۔۔کوئی بھی میری اس درد سے واقف نہیں۔۔۔لہٰذا کوئی میرے پاس آتا ہی نہیں ہے کہ پیاس سے مرکھپ جائے گا“یہاں ایک لمبی توقف کے بعد شاشان نے سلسلہ جاری رکھا۔”لیکن کمال بچپنے میں ایک بار میرے پاس آیا تھا، مجھے اس کے ہونٹوں میں ایک حوضِ کوثر نظر آیا، مجھے یقین تھا کہ یہ بڑا ہو کر میرا پیاس بجھائے گا لیکن یہ کیا ہوا۔۔۔اُسے میری پیاس کی پرواہ کہاں تھی، اُسے تو مجھ سے مقابلہ کرنا تھا اپنا سر اونچا کرنے کا۔۔۔مجھے نیچا دکھانے کا۔۔۔ٹھیک ہے، آج میں ہار چکا ہوں تیرے کمال کے سامنے۔۔۔لیکن یارا توخود سوچ کہ جو اس عمر میں مجھے مات دے سکتا ہے، شاشان کو مات دے سکتا ہے، میری فخر سے تنی گردن جھکا سکتا ہے۔۔۔وہ صرف میری نہیں کتنوں کی پیاس بجھا سکتا تھا۔۔۔کتنوں کے ارمانوں کو حقیقت کا روپ دے سکتا تھا۔۔۔کتنوں کا سر اونچا کرسکتا تھا۔۔۔ایسے ساقی کہاں جام چھلکائے روز کہاں پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ارے اُسے تو میری پیاس سے زیادہ ہم سب کے ماتھا کی پیاس بجھانا تھا۔”سنیے! میرا فخر ہمیشہ کے لئے مٹ گیا ہے کہ میں ہی سب سے بلند ہوں، فلک بوس ہوں، اب ساری امتیاز تیرے کمال کے حصے میں جاچکے ہیں، لیکن ، ایک بات اور۔۔۔۔۔۔اب کمال میرا حریف نہ رہا، گوکہ بازی لے چکا لیکن میں شرمندہ نہیں ہوں یہ امتیاز کوئی دشمن مجھ سے نہیں چھین چکا ہے، کمال تو اپنا بچہ ہے، اب میں بھی کمال پر فخر کرتاہوں، مجھے یقین ہے کہ جب کمال پر دشمن نے گولیوں کی کمال پر بوچھاڑ کی تو وہ مسکرا رہے ہوں گے اور مسکرا موت کو گلے لگا ہوگا، وہ تھا ہی ایسا۔۔۔“کمال جان! شاشان ایک ہی سانس میں کہے جا رہا تھا، میں نے سوچا کہ ان باتوں میں سے کچھ تو کاغذ پر منتقل کردوں لرزتے ہاتھوں قلم جیب سے نکالتے ہی گرگیا اور اندھیرے میں غائب، میں ڈھونڈ رہا لیکن رات کی تاریکی گہری ہوچکی تھی، اسی دوران ایک ستارہ چمک اُٹھا تو کچھ روشنی ہوئی پھر کچھ اور ستارے اس طرح چمک گئے کہ دن کا سا سماں ہوگیا، اس روشنی میں قلم صاف نظر آیا، پاس ہی گرا تھا، میں نے قلم اٹھایا کہ اب تو کچھ لکھ دوں گا مگر اس وقت شاشان کی آواز ایک بار پھر ہچکیوں میں ڈوب چکی تھی۔
پسِ نوشت: کمال جان اور مجھ ناچیز کے گھر کے درمیان شاید سو گز کا فاصلہ ہوگا۔ وہ بچپن سے لے کر شہادت تک میری آنکھوں کے سامنے رہا، ناقابل بیان بہادر اور انتھک محنتی۔ 18 ستمبر 2015 کو، کم عمری میں ہی، وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو بچانے کے لیے فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوا۔