بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ کا اجلاس زیر صدارت چیرمین بی ایس او بالاچ قادر منعقد ہوا جسکی کاروائی سیکریٹری جنرل صمند بلوچ نے چلائی۔اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کی گئی ۔اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال،بلوچستان کے تعلیمی مسائل تنظیمی امور و آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین بی ایس او نے قادر نے کہا کہ بلوچستان میں آئین اور قانون کا نفاذ مکمل ختم ہوچکا۔ اظہار رائے آزادی،سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی عمل سے وابسطگی ممنوعہ قرار دےدی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس و سیمنار کو ڈپٹی کمشنر کی این او سی سے مشروط کرنا انتہائی گھناؤنی عمل ہے جسکی نظیر کہیں بھی نہیں ملتی۔ حکمران اب پریس کو تالا لگاکر لوگوں کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں میڈیا مکمل کنٹرول اور زیرعتاب ہے جبکہ ہر فرد کی بولنے، لکھنے پر پابندی ہے۔
انھوں نے بلوچستان حکومت کی جانب سے بلوچستان کے طلباء رہنماؤں،سیاسی کارکنان،سیول سوسائٹی کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں اساتزہ کے نام کو فورتھ شیڈیول میں ڈالنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دے دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں پرامن سیاسی جہدکاروں کو ہمیشہ ہی سے سنگین الزامات،ٹرولنگ جعلی ایف آر اور دھمکیوں کا سامنا تھا جبکہ اب اساتزہ کو بھی مشکوک لسٹ میں ڈال کر انکی نگرانی کی جارہی ہے جو آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
اجلاس میں تنظیمی امور و سابقہ پروگراموں کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ نظریاتی کارکنان کی انتھک جدوجہد سے تنظیم نے مختصر وقت میں بہترین پالیسیوں پر عمل کیا ہے جس میں تنظیمی اسٹریکچر کو نہ صرف منظم کیا گیا ہے بلکہ مختلف زونوں میں پروگرامات انعقاد کیے گئے ہیں۔اجلاس میں کہا گیا کہ تنظیم کے اراکین پر ڈسپلن و آئین کی پابندی پہلا شرط ہے۔ کسی بھی رکن کے خلاف آئین شکنی یا تنظیمی ڈسپلن کی پاسداری نہ کرنے پر بلاتفریق کاروائی عمل میں لائی جائیگی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں نظام تعلیم کاروبار کا شکل اختیار کرچکا ۔انتظامی کرپشن،ناقص منصوبہ بندی اور سفارشی کلچر نے تعلیمی نظام کو تباہ کیا ہے۔ ہائیرایجوکیشن کے نام پر بنائے ادارے مکمل دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ بلوچستان کے تمام جامعات میں اساتزہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی جبکہ مکُران میڈیکل کالج کے اسٹاف کی جانب سے کئی دنوں سے احتجاج جاری ہے۔ حکومتی غیر سنجیدگی اور تعلیم کے ساتھ بھونڈے مزاق سے طلباءکے کلاسز نہیں ہوپارہے۔اس وقت تمام جامعات کے فیسوں میں بے جا اضافہ کردیا گیا ہے جس سے طالبعلم مذید مشکلات سے دوچار ہیں۔
اجلاس میں کہا گیا کہ شہید سکندر یونیورسٹی خضدار مکمل غیرفعال ہے جبکہ رخشان و نصیر آباد یونیورسٹی کی قیام میں دانستہ طور پر تاخیر کی جارہی ہے۔ رخشان اور نصیر آباد بلوچستان کے وسیع ریجن میں شمار ہوتے مگر اب تک ایم اعلیٰ تعلیمی ادارے سے محروم ہیں۔
کوہلو میں گرلز کالج کا قیام 2007 ساتھ کو عمل میں لایاگیا اس کے باوجود وہاں کلاسز شروع نہ ہوسکے جبکہ بوائز کالج کوہلو سمیت بلوچستان کے بیشتر کالجز میں اساتزہ کی فقدان ہے۔
اجلاس میں کابینہ اراکین نے آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر مختلف پروگراموں کی منظوری دے دی۔ بلوچستان میں ناقص تعلیمی نظام و اداروں کی زبوں حالی پر شال میں گول میز کانفرنس کی انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ۔ کوہلو گرلز کالج کی فعالیت،بوائز کالج کوہلو میں اساتزہ کی کمی سمیت دیگر مسائل پر تحریک چلانے کا بھی فیصلہ لیا گیا۔کابینہ اجلاس میں غیرفعال تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل شروع کرانے اور فیسوں میں بے جا اضافے کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس میں کابینہ اراکین نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سی سی ممبر اورنگزیب بلوچ کو معطل کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا جبکہ تمام زونوں کی جنرل باڈی اجلاس منعقد کرنے اور تنظیمی اسٹریکچر کو مذید فعال بنانے کی بھی منظوری دی۔