شہید اسلم شہید علی شہید آدم شہید حسن کی شہادت۔ 27اپریل 2012 کو صبح 6 بجے ایک شخص کی آواز سن کر نیند سے اُٹھ گیا تو وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ شہید علی تھا وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کے والد کہاں ہیں تو میں نے جواب دیا وہ شاید باہر ہونگے ، میں نے پوچھا لیکن کیا ہوا ؟ ۔ وہ گھبراہٹ میں جواب دیا کہ آپ لوگ فوجی محاصرے میں ہو تو میں کچھ سمجھ نہیں پارہا تھا ۔

میں جلدی جلدی باہر نکلا تو پتہ چلا کہ ہمارے گھر فوجی محاصرے میں ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہاں سب لوگ بھاگ رہے ہیں، تو میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے نکل گیا گھر سے تھوڑی دوری پر ہمارے اُوپر گولیاں بارش کی طرح برس رہے تھے ، وہاں سے نکل نے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ قریب میں ایک مسجد تھا ہم لوگ وہا جاکر چھپ گئے، لیکن گولیاں بدستور برس رہے تھے ۔ ہم وہاں تقریبا ایک گنٹھے تک بیٹھے رہے ۔ میں سوچ میں پڑ گیا وہاں گھر والوں کا کیا حال ہوگا ہر طرف گولیوں اور توپوں کی آوازیں تھیں، میں نے گھر میں رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ میرے والد سمیت سارے لوگ وہاں سے نکل گئے ہیں۔
پھر ہم لوگ وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف روانہ ہوگئے بازار سے تھوڑی دور وہاں ہم ایک جگہ پر پہنچ گئے وہاں بیٹھ کر آرام کیا۔ لیکن پھر بھی مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لوگ تو سب نکل چکے ہیں لیکن یہ گولیوں اور بمبوں کی آوازیں تھم نے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ تو میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا کہ اس سے پتہ کروں کہ وہاں پر کیا ہو رہا ہے کیونکہ وہ دوست کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا ۔ فون کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ خود گھر سے نکل چکا ہے اور جنگل میں کہیں چپ گیا ہے اس نے جلدی جلدی یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ میرے قریب فوجی اہلکار کھڑے ہیں ۔
مجھے نہیں دیکھ پا رہے ہیں اگر وہ مجھے بات کرتے ہوئے سن لیں گے تو پھر مسئلہ ہوگا وہ مجھے دیکھ لیں گے ۔ قریب 6 گنٹھے کے بعد گولیوں اور توپوں کی آوازیں آنا بند ہوگئے، ہم لوگ واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئے گھر میں جاکر پتہ چلا کہ کچھ لوگ شہید ہوگئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون شہید ہوا ہے لیکن گھر میں سب گھبرائے ہوئے تھے کہ کس کو شہید کیا گیا ہے؟
وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اسلم کہاں ہے اسلم بھی وہاں فوج کے گھیرے میں آیا تھا ، میں نے جواب دیا نہیں وہ لوگ تو نکل گئے ہیں لیکن کوئی میرا بات نہیں سن رہا تھا اور مجھ سے کہا گیا کہ آپ وہ لوگوں کو فون کرکے پتہ کریں کیا وہ اُن کے ساتھ ہے ۔ تو پھر مجبوری میں مجھے فون کرنا پڑا میں اپنے والد کے ساتھ گئے کسی ایک شخص کو فون کیا تو اُس نے میرا سوال سننے سے پہلے مجھے پوچھنے لگا کہ گھر میں کسی کو نقصان نہیں ہوا ہے ۔ میں نے جواب دیا نہیں لیکن اسلم آپ لوگوں کے ساتھ ہے تو اُس نے جواب دیا ہاں ہم سب ایک ساتھ وہاں سے نکل گئے تھے ۔
شاید اُسے پتہ تھا کہ گھر والوں کے کہنے پر میں اُسے اسلم کا پوچھ رہا ہوں۔ اسلئے اُس نے جواب دیا ہاں وہ ہمارے ساتھ نکل گیا ہے۔ حقیقت میں وہ لوگوں کو پتہ تھا کہ اسلم جان شہید ہو گئے ہیں کیونکہ جنگ کے دوران اسلم جان نے میرے والد سمیت وہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے ۔
میں وہاں گیا جہاں پر گلزمین کے عاشق شہید ہوگئے تھے تو میں دیکھا بازار کے سارے لوگ وہاں اکھٹے ہوگئے تھے اس میں سے کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم کو گھروں سے نکال کر قریب میں ایک اسکول کے اندر بند کیاگیا جنگ ختم ہونے کہ بعد ہمیں چھوڑ دیاگیا۔ اُسی مجمعے میں میں نے اپنے دوست کو دیکھا وہی دوست جب میں جنگل میں تھا تو اُن سے فون پر بات ہوئی تھی۔ میں اُن کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا میں نے فون اس لئے کاٹا تھا کہ فوجی میرے قریب تھے میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے بات کرتے ہوئے سن نہ لیں۔
پھر وہ کہنے لگا کہ تین لوگ شہید ہوگئے ہیں آپ کو پتہ ہے کون کون تھے میں نے کہا نہیں لیکن جہاں پر جھڑپ ہوا تھا وہاں اسلم ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ پھر اُس نے کہا نہیں فوجیوں نے میرے والد کو بھی پکڑا بازار کے بہت سے لوگوں کو پکڑا اور نعشوں کو دیکھایا کہ یہ کون ہیں ؟ پھر وہ کہنے لگا کہ کسی نے نعشوں کو نہیں پہچانا اگر اسلم جان ہوتا تو میرے والد ضرور اُسے پہچان چکے ہوتے۔ تو میں وہاں سے واپس گھر چلا گیا وہاں جاکر پتہ چلا کہ ہمارے گھر میں ایک فرد کو بھی اُٹھا کر لے گئے ہیں۔
کچھ دیر بعد میرے والد سمیت سب لوگ گھر واپس آگئے پھر وہ لوگوں سے پتہ چلا کہ اسلم جان سمیت حسن جان اور آدم جان بھی شہید ہوگئے ہیں اور اسلم کا چھوٹا بھائی حکیم کو گولی لگی ہے وہ زخمی ہے وہ لوگ اُسے محفوظ جگہ پر منتقل کرچکے ہیں۔ پھر وہاں کوئی کہنے لگا کہ ہسپتال میں رابطہ کرنے سے پتہ چلا ہے کہ ایک اور نعش بھی یسپتال میں پڑا ہے ، لیکن پتہ نہیں چل کر رہا وہ کون ہے۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ وہ علی ہے علی وہی شخص تھا جس کی آواز سے میں صبح نیند سے جاگا تھا بعد میں پتہ چلا کہ علی جان ہم سب کو جگا کر خود وہاں سے نکل رہے تھے تو فوجیوں نے ان پر فائرنگ کردی تو وہ وہاں پر ہی شہید ہوگئے۔
تھوڑی دیر بعد دو شہداء کی جسدخاکی آزاد بلوچستان کے پرچم میں لپٹے ہوئے لائے گئے اور باقی دو شہداء کو اُن کی آبائی علاقوں میں روانہ کر دیا گیا ۔ آدم جان کو دشت میں اور حسن جان کو کیچ گینہ میں۔ اسلم جان اور علی جان کو کیچ گیبُن میں سپردے گلزمین کر دیا گیا۔
شہید رسول بخش بلوچ شہید مولا بخش بلوچ شہید حکیم بلوچ کی شہادت۔
اسلم جان کی شہادت کے بعد حالات بہت خراب تھے کبھی رات کو فوجیوں کی گشت تھی تو کبھی سڑکوں پر ناکہ بندی
حالات سے تنگ آکر کچھ لوگ وہاں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جاچکے تھے ۔ اسی حالات میں آٹھ مہینے گزر گئے ۔
میرا اپنے والد کے ساتھ آخری لمحات شہادت سے ایک دن قبل 4 دسمبر 2012 شام کا وقت تھا میں اور میرے والد اور کچھ دوست کہیں بیٹھے تھے اور خبرنامہ دیکھ رہے تھے دوستوں کے ساتھ دیوان تھا پھر رات ہوگئی ہم لوگ گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔نکلنے کے وقت ایک عورت نے ہم لوگوں کو روکا اور کہنے لگی کہ آپ لوگ اُس راستے سے آئے ہو لیکن جاتے وقت رستہ بدلینا تو ہم لوگ مُسکراتے ہوئے بولے ہاں ہم دوسرے راستے سے جائیں گے۔ لیکن ہم وہی راستے سے آئے تھے واپس اُسی راستے سے گئے۔
آدھا گنٹھ سفر کرنے کے بعد ہم گھر پہنچ گئے۔
میں اور والد دونوں تھے۔ میں چائے لیکر آیا تو اباجان نے کہا کہ آپ اتنے کپ کیوں لائے ہو یہاں اور تو کوئی نہیں ہے بس ہم دونوں ہیں۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے اباجان کہنے لگا وہ بھی ایک وقت تھا کہ ہمار ے دیوان خانہ میں اتنے لوگ تھے کہ بیٹھنے کا جگہ کم پڑ جاتا تھا ۔ میں بولا جی ہاں پھر اُس نے کہا ہاں اسلم جان کی شہادت سے پہلے کی بات کر رہا ہوں ۔
تو کافی دیر بعد ہم اُٹھ کر بیٹھک کی جانب روانہ ہوئے وہاں ہمارے باقی لوگ تھے سلام کرنے کے بعد ہم وہاں بیٹھ گئے کچھ دوست ایک ویڈیو دیکھ کر ہنس رہے تھے تو کسی نے وہ ویڈیو میرے والد کو دیکھایا وہ بھی ہنسنے لگا لیکن میں وہ ویڈیو دیکھ کر بھی نہیں ہنسا کیونکہ وہ ویڈیو میں کافی بار دیکھ چکا تھا۔
کافی دیر وہاں گپ شپ کرنے کے بعد رات 4 بجے والد کے ساتھ گھر کی جانب روانہ ہوا۔
5 دسمبر 2012 بُدھ کا دن صبح ساڑھے چار بجے۔
میں گھر میں جاکر سونے لگا تو میں دیکھا باہر بہت شور چل رہا ہے تو میں نے سونے کی کوشش کی۔ باہر اباجان کسی کو بول رہا تھا مجھے اُٹھانے کے لئے میں تو جاگا ہوا تھا تو میں سن کر خود باہر نکلا اباجان کہنے لگا کہ وہاں بہت ساری گاڑیاں آئی ہیں۔ میں نے دیکھا تو تقریبا بیس کے قریب فوجی گاڑیا وہاں گھڑی تھیں۔ جہاں سے ہم تھوڑی دیر پہلے نکل کر گھر سونے کے لئے آئے تھے۔
میں نے والد سے کہا یہ تو فوجی گاڑیاں ہیں ہمیں نکلنا چاہیے تو اُس نے جواب دیا لیکن وہاں باقی لوگ فوجی محاصرے میں آگئے ہیں ایسے میں ہم کیسے نکلیں گے ۔
تو میں نے وہ لوگوں کو فون کرنے کی کوشش کی تو فون نہیں لگا کیونکہ نیٹورک بند کر دئے گئے تھے ۔ ہم وہاں کھڑ تھے کہ وہاں پھنسے ہوئے دوست سب نکل کہ آگئے اور کہنے لگے کہ ہم بچ کر نکل گئے فوجی وہاں مورچہ زن ہوگئے ہیں تو ہم سب ایک ساتھ میں وہاں سے نکل گئے گھر سے تھوڑی دور پہنچ گئے تو میں واپس گھر کی جانب دوڑا وہاں سے کسی نے مجھے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔
میرے پاس جواب دینے کا موقع نہیں تھا اصل میں میں نے ٹوٹا ہوا چپل پہنا تھا تو مجھے چلنے میں دشواری تھی اسلئے واپس گھر جاکر جوتا پہن کر نکل گیا۔ تو دیکھا کہ وہ لوگ آگئے نکل گئے ہیں میں نے دوڑنا شرو کیا تو باقی لوگوں کے پاس پہنچ گیا۔ اتنے میں فوج کو بھی پتہ چل چکا تھا کہ اس جگہ کو ہم نے گھیرلیا ہے یہاں تو کوئی بندہ موجود نہیں ہے سب نکل گئے ہیں۔ تو پورا لشکر گاڑیوں سمیت ہمارا پیچھا کرنے لگا تو میرے والد کہنے لگے کہ ہم سب کو الگ الگ ہونا چاہیے، کیونکہ یہ گاڑیوں سے ہمارا پیچھا کر رہے ہیں ۔ شاید ہم تک پہنچیں ۔
ہم سب الگ الگ ہوگئے میں کچھ دوستوں کے ساتھ ایک طرف بھاگنے لگا تو فائرنگ شرو ہوگئی ہم چپ گئے بہت دیر تک دو طرفہ فائرنگ جاری رہا قریب چار گنٹھ تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا فائرنگ بند ہوتے ہی ہمارے قریب ایک فوجی آفیسر واکی ٹاکی سے کسی کے ساتھ بات کر رہا تھا اور میرے والد کا نام لیکر کہہ رہا تھا کہ ہم نے رسول بخش کو مار دیا ہے تو اُس جواب میں بولا کہ پورا روڑ بلاک کرو آنے جانے کے لئے بند کرو پھر اُس نے کہا جی پورا ہم بند کرکے آئے ہیں پھر کہنے لگا مولابخش کو زخمی کر دیا ہے لیکن ہم اُس کے پاس نہیں جاسکتے تو اُس نے جواب میں کہا اُسے مار دو۔
پھر آپریشن ختم ہوا فوجی نکلنے لگے تو ہم بھی وہاں سے نکل گئے بازار کے قریب پہنچے تو کچھ عورتیں ہم کو آواز دیکر کہنے لگیں وہاں تم جارہے ہو فوجی ابھی تک موجود ہیں تو ہم رک گئے ۔ پھر وہ کہنے لگے یہاں آجاؤ ہم وہاں گئے انہونے ہمیں گھر میں بیٹھایا پانی پلائی چاہیے پلایا اور کہا کہ فوجی ابھی تک موجود ہیں۔ آپ لوگ تھوڑا انتظار کریں۔
ہم نے وہاں انتظار کیا میرے پیر زخم کی وجہ سے بہت درد کر رہا تھا بھاگنے کے وقت چوٹ لگی تھی۔ کچھ دیر بعد ہمارے اور بھی دوست وہاں پہنچ گئے اور ہم سے پوچھنے لگے کہ سب لوگ نکل گئے ؟ کسی کو نقصان نہیں ہوا۔ میں نے کچھ نہیں بتایاں کیوں کہ عورتیں بھی وہاں موجود تھیں میں نے سوچا ابھی کچھ بتا دیا تو عورتیں رونا شرو کردیں گی تو میں نے جواب دیا ابھی تک کچھ پتا نہیں۔
اصل میں مجھے پتہ تھا کہ میرے والد رسول بخش اور موالابخش شہید ہوگئے ہیں ۔کیونکہ میں نے خود اُن کی زبان سے سنا تھا کہ یہ لوگوں کو ہم مار چکے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد کچھ اور لوگ آگئے اور مجھے پوچھنے لگے کہ آپ کا والد ٹھیک ہے اور کہاں ہے نکل گیا یے نہ میں نے جواب دیا پتہ نہیں وہ کہاں ہے۔ کیونکہ گھر سے نکلنے کے بعد ہم سب الگ الگ ہوگئے تھے ۔
پھر اُس نے کہا کہ حکیم کو وہ لوگ گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔تو میں حیران ہوگیا ۔ پھر میں نے جواب دیا شاید کیونکہ حکیم زیادہ چل نہیں سکتا تھا اسلم جان کی شہادت کے وقت اُس کو پیر میں گولی لگی تھی زخم ابھی تک تازہ تھے وہ بھاگ نہیں سکتے تھے۔ اس کے بعد ہم واپس گھر چلے گئے وہاں جاکر پتہ چلا کہ حکیم جان شہید ہوگئے ہیں اور گھر میں ایک فرد کو بھی اُٹھا کر لےگئے ہیں۔
گھر والے مجھ سے پوچھنے لگے کہ والد کہاں ہے۔ وہ ٹھیک ہے ناں میں بولا ہاں وہ ٹھیک ہے تو پوچھنے لگے تو پھر آپ کے ساتھ کیوں نہیں آیا میں نے کہا وہ لوگ بہت دور چلے گئے تھے ، ہم یہاں نزدیک میں کہیں چھپ گئے تھے ۔
پھر وہ مولابخش کا پوچھنے لگے تو میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا میں وہاں سے نکل گیا تو دیکھا گھر کے قریب مسجد کے پاس پورا بازار اکٹھا ہوا تھا وہاں بھی سب لوگوں کو حکیم جان کی شہادت کا معلوم تھا ، باقی دو شہداء کے بارے میں علم نہیں تھا ۔تو میں گیا قبرستان میں دیکھا سب لوگ جمع تھے دو بندے ایک قبر کی کھدائی کر رہے تھے ۔ پھر میں خاموشی سے وہاں سے نکل گیا تو دیکھا ہمارے کچھ رشتہ دار آرہے ہیں آتے ہی مجھے سے پوچھ نے لگے کہ حکیم جان شہید ہوگئے میں نے کہا ہاں پھر پوچھا کہ آپ کے والد کہاں ہے وہ ٹھیک ہے ؟ میں نے جواب دیا وہ مولابخش سمیت شہید ہوگئے یہ بات سنتے وہ لوگ بہت پریشان ہوگئے اور کہنے لگے گھر میں کسی کو پتہ ہے یہ بات میں نے کہا ابھی تک نہیں۔ پھر کہنے لگے آپ کو کیسے پتہ چلا میں نے کہا میں نے خود فوجیوں سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے اُن کو شہید کیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد سب کو پتہ چل گیا کہ حکیم جان سمیت رسول بخش اور مولا بخش بھی شہید ہوگئے ہیں۔
پھر تینوں شہداء کو لایا گیا اُس دن میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھا کہ تین بلوچ شہداء کی نعشیں میرے سامنے پڑے تھے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ گھر والوں کو سنبھالوں یا خود کوقریب شام 6 بجے شہداء کو جنازہ پڑھا گیا ، شہداۓ گیبُن کو گلزمین کے آغوش میں سُلانے کا وقت آگیا ، پہلے شہید حکیم جان کو سپرد گلزمین کردیا گیا تو میں وہاں سے نکل گیا میں وہاں رک نہیں سکا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کل رات تک ہم سب ایک ساتھ تھے ہنسی خوشی کا ماحول تھا آج میرے سامنے وہ گلزمین کے آغوش میں سونے جارہے ہیں میں وہی کھڑا ہوں اور دیکھ رہا ہوں پھر مجھے اباجان کی وہ کل رات والی بات یاد آگئی کہ اُسنے کہا کہ ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہمارے دیوان میں لوگوں کے بیٹھنے کا جگہ بھی کم پڑجاتا تھا آج کوئی بھی نہیں ہے۔
پھر میں سوچنے لگا کہ اباجان شاید آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کل آپ کے دیدار میں لوگوں کا اجتماع آئے گا لیکن آپ وہ منظر دیکھ نہیں سکیں گے ۔
یہ دن ایسے ہی گزرا دوسرے دن ریاستی بے لگام میڈیا اپنا بیانیہ پیش کرنے لگا کہ جی رسول بخش ساتھیوں سمیت ایک مسلح تنظیم کا بندہ تھا۔ اور کچھ بے بنیاد الزامات بھی لگائے۔
وقت گزرتا گیا حالات بہت خراب تھے اس کے بعد کچھ اور دوستوں کی شہادت ہوئی جس میں شہید اعواض جان بھی شامل تھا ۔
ایک دن اچانک مجھے شہید شیک حق شاہ کا فون آیا اور کہنے لگا آپ کہاں پر ہو میں نے جواب دیا گھر سے دور ہوں لیکن کیوں تو وہ کہنے لگا سنے میں آ رہا ہے کہ حیات بیوس پر فائرنگ ہوئی ہے اور وہ زخمی ہے حیات بیوس شہید اسلم جان اور شہید حکیم جان کا چھوٹا بھائی تھا۔ تو میں نے جواب دیا مجھے پتہ نہیں میں گھر میں فون کرکے پتہ کرتا ہو ں تو آپ کو خبر کردوں گا فون کٹ کیا اور گھر میں فون کرنے سے پہلے گھر میں کسی کا فون آیا اور گھبرہٹ میں کہنے لگا حیات کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا گیا ہے ایک اور بندے کو اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہاں پر وہ کہنے لگا بازار میں حیات وہاں کسی دوست کے پاس گیا ہوا تھا وہاں پر چھاپہ ماراگیا ایک بندے کو لیکر گئے ہیں حیات زخمی حالت میں وہاں پر چھوڑ گئے ہیں۔ اور آپ سلامت ہیں ناں میں نے کہا ہاں میں ٹھیک ہوں۔
وہ لوگ گھبرائے ہوئے تھے کہ شاید حیات کے ساتھ میں تھا اور وہ ایک بندے کو لیکر گئے ہیں شاید وہ میں ہوں کیونکہ میں ہر وقت حیات جان کے ساتھ رہتاتھا وہ میرے بچپن کا دوست اور استاد تھا ہر وقت ہم ایک ساتھ ہوتے تھے ۔
ایسے میں حیات کو زخمی حالات میں کراچی لیکر گئے 6 مہینے بعد واپس وہ گھر آگئے تو حیات پہلے کا حیات نہیں تھا وہ معزور ہو چکا تھا چل نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کو ریڈ کی ہڈی میں گولی لگئی تھی وہ معزور ہوچکے تھے ۔
حیات جان کو معزوری کی حالت میں دو سال بعد شہید کیاگیا۔
حالات بہت خراب تھے وقت ایسا ہی گزرتا گیا بہت سے دوستوں کو شہید کیا گیا کچھ دوست جبری لاپتہ ہوگئے ۔
شہید حیات بیوس شہید یحئی شہید اصغر شہید رسولجان
شہید دین محمد کی شہادت۔
حالات اتنے خراب تھے کہ مجھے ملک چھوڑنا پڑا دوستوں نے مشورہ دیا کہ ابھی حالات بہت خراب ہیں آپ کچھ وقت کےلئے باہر جائیں۔ لیکن میں نے باہر جانے سے صاف انکار کردیا لیکن دوست مجھے بہت مجبور کر رہے تھے کہ میں جاؤں باقی دوستوں سے سلاہ مشورہ کرنے کے بعد میں کراچی روانہ ہوگیا۔
شام کو نکلا اگلے صبح پہنچتے ہی دیکھا موبائل میں ایک مسج آیا ہے کہ کل رات کیچ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 14مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔ بعد میں ایک مسلح تنظیم نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بیان دیا کہ ہمارے سرمچاروں نے FWO کے ہلکاروں پراسے حملہ کرکے 14 ہلکار ہلاک کئے ۔ پھر وہی خبر کو لیکر پاکستانی میڈیا سمیت سیاستدان پروپکنڈہ میں مصروف ہوگئے۔ اُس وقت کے وزیر علئ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا ایک بیان دیکھا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ دہشتگردوں کا پیچھا کرکے انکو انکی منتطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ بعد میں بقول اُن کے اپنے مزدور شہیدوں کو کندھا دیں گے۔ پھر رات ہوگئی۔ میرا شہید حیات سے بات ہوئی وہ کہنے لگا کہ کچھ لوگوں پر ایف آئی آر کیاگیا ہے جس میں ڈاکٹر اللة نزر کا نام بھی شامل ہے تو ہم دونوں ہنسنے لگے پھر بات ختم کرکے میں سوگیا ۔
اگلے دن 13 ایریل 2015 پیر کی صبح فون بجتے ہی میں نیند سے اُٹھ گیا فون اُٹھایا دیکھا گھر سے فون آرہا ہے بات کیا تو وہ کہنے لگے کہ فوج نے چھاپہ مارا ہے حیات کو شہید کیاگیا ہے اور ایک کو اُٹھا کر لےگئے ہیں۔میں پریشانی میں سوچنے لگا پھر جاکر ٹی وی چالو کی نیوز دیکھنے لگا نیوز میں خبر چل رہی تھی کہ کیچ کے علاقے گیبُن میں آپریشن کرکے مزدوروں کے قتل میں ملوث تیرہ افراد کو ہلاک کیاگیا ہے۔ پھر میں نے دوبارہ گھر میں فون کرکے پوچھا کہ حالات کیسے ہیں پتہ چلا کہ حیات کو شہید کرکے لاش کو اپنے ساتھ لیکر گئے ہیں حیات کو شہید کرنے کے بعد وہ ایک گنٹھے تک فائرنگ کرتے رہے۔ میں نے فون کاٹ دیا اور کچھ دوستوں کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ لوگ سب ٹھیک ہیں وہ کہنے لگے ہم سب ٹیک ہیں پھر وہ پوچھنے لگے آپ کے پاس کیا معلومات ہیں کیونکہ ہمارا رابطہ نہیں ہورہا میں نے کہا کہ حیات جان کو شہید کیاگیا اور یہاں نیوز میں دیکھا رہا ہے کہ اور 13 بندوں کو مار دیا ہے تو وہ کہنے لگے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں میں نے کہا شاید ۔ پھر بعد میں معلوم ہوا کہ حیات سمیت چار اور لوگوں کو شہید کیاگیا ہے۔ بعد میں اُن چاروں کی شناخت جبری لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی اس میں یحئی فضل حیدر اصغر داد رسولجان اور دین محمد بگٹی شامل تھے۔
ایک دن بعد حکومت بلوچستان کی جانب سے بیان آیا کہ یہ سب لوگ مزدوروں کے قتل میں ملوث تھے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوگیا کہ اقتدار کی لالچ میں لوگ اتنے اندھے ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر مالک کو یہ اچھی طرہ سے پتہ تھا کہ حیات بلوچ پچھلے دو سال سے معزور ہے وہ خود وزیر اعلی بننے سے پہلے اُن کی عیادت کرچکے ہیں۔ اور اُس کو یہ بھی پتہ تھا کہ یحئی اصغر دین محمد اور رسولجان پہلے سے لاپتہ تھے۔ یہ جاننے کے باوجود اُس نے اپنے آقاوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے یہ بیان دیا تھا۔
اگلے دن کراچی پریس کلب کے سامنے گیبُن واقعے کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا ۔ اُس واقعے سے چند ماہ بعد میں بیرونی ملک چلا گیا۔
شہید ملارفیق اور شہید حنیف کی شہادت۔
میں بلوچستان سے باہر تھا کھبی اُن شہداء کو یاد کرتے ہوئے خود کو سوال کرنے لگا کہ مجھے اُن شہداء کی قربانیوں چھوڑ کر یہاں بیٹھنا زیب نہیں دیتا تو کبھی خود کو تسلی دیتا تھا دن ایسے ہی گزرتے گئے ایک دن جمعہ کا دن تھا سال 2017 ۔24 فروری صبح 7 بجے مجھے کسی نے دو تین بار فون کیا میں نے نہیں اُٹھایا بار بار فون بجنے سے میں نے فون اُٹھایا اور پوچھا خیر ہے وہ کہنے لگا کہ ملارفیق کو فوج نے گھیرلیا ہے پورا بازار فوجی محاصرے میں ہے لیکن ابھی تک کوئی فائرنگ کی آوازیں نہیں آرہی ہیں۔
تو میں نے پریشانی کی عالم میں فون کاٹ دیا تھوڑی دیر بعد پھر فون آئے اور کہنے لگا کہ رفیق وہاں سے نکل چکا ہے لیکن فوجی ابھی تک وہاں پر موجود ہیں میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور فون کاٹ دیا ایک گنٹھے بعد پھر کسی کا فون آیا اور کہنے لگا کہ شدید فائرنگ جاری ہے اور ملا رفیق بھی وہا پر پھنس گیا ہے۔ تو میں نے فون کاٹ دیا اور دوستوں کو فون کیا وہ کہنے لگے کہ ہمارا وہاں رابطہ نہیں ہو رہا ہمیں پتہ نہیں وہاں کے حالات کیسے ہیں ۔ میں حیران پریشان ہوکر بیٹھ گیا تو دوگنٹھے بعد کسی نے مجھے مسیج کیا اور کہہ رہا تھا کہ رفیق جان شہید ہوگئے اور حنیف کو اُٹھا کر لےگئے ہیں۔ تو میں کر بھی کیا سکتاتا پریشانی میں پتہ نہیں چلا کہ دن سے کب رات ہوئی اگلے دن میں نے گھر رابطہ کیا کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ تو پتہ چلا کہ حنیف جان کی نعش برآمد ہوا ہے اسکو ٹارچر کر کے شہید کیاگیا ہے۔
یہی داستانیں تھی ریاستی جبر کی یہ کہانی میں ایک شیر زال کے چاروں بیٹے اسلم حکیم حیات اور رفیق مادر وطن کے لئے نمیران ہو گئے تھے ۔
یہ ظلم کی داستانیں آج پورے بلوچستان کی ہیں آج ہر ماں سے اُنکا بیٹا بہن سے اُنکا بھائی بیٹے سے اُنکا باپ چھینا گیا ہے بلوچستان میں ہر گھر میں ماتم ہے۔