بلوچ ملا کے نام(مختصرگذارش)پہلا حصہ- تحریر: دل مراد بلوچ

نئی صدی کے آغازکے ساتھ ہی بلوچ قومی تحریک کا نیا (جاری) فیز شروع ہوا اس میں ایک خوبی یہ تھی کہ قیادت اور نوجوان کارکن دونوں اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ آج کا بلوچ ملا معروضی حقائق سے ناآشنا ایک خیالی دنیا کا باسی بن چکاہے ـ پاکستان کی شاطر اسٹیبلشمنٹ نے اسے اپنا پیادہ بنالیا ہے لہٰذا معروضی حالات کو بدلنے کی جدوجہد میں بلوچ ملا سے کوئی توقع نہ رکھی جائے ـ یہ ملا محمد عمر پڑنگ آبادی نہیں بن سکتا ـ ہرسیاسی سرکل میں اس بات کاخاص اہتمام ہوتا رہا کہ نوجوان کوخصوصی طور پر سمجھایا جائے کہ اس "آگ” سے اپنا دامن بچائے رکھیں ـ ملا کو ” موضوع "کے خمار میں مبتلا رہنے دیا جائے ـ معروضی تغیر و تبدل کے جھٹکوں سے اس کا خمار خود ٹوٹ جائے گا ـ


پالیسی بنائی گئی کہ ملا سمیت بلوچ سماج میں موجو ددیگر غیر مخاصمانہ تضادات پر توانائی صرف کرنے کی بجائے بنیادی تضاد پر توجہ مرکوز رکھی جائے ـ غیر مخاصمانہ تضادات کوچھیڑنے سے سیاسی توانائی کا ضیاع تو ہوگا ہی اس کے ساتھ ساتھ اس کا براہ راست فائدہ بھی پاکستان کو ہوگا۔

آج کا ہر سیاسی طالب علم اس واضح اور اظہرمن الشمس حقیقت سے واقف ہے کہ پاکستانی ریاست کے لیے مذہب ایک کارگر ہتھیار ہے ـ پاکستان کووجود میں لانے ،چلانے، محکوموں کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے اور پنجابی مفادات کے تحفظ کے لیے مذہب کااستعمال ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ پاکستان کی اس کامیابی کا بہرکیف اعتراف کرنا چاہئے کہ پاکستان بلوچ ملا کو قوم و سماج اور معروض تقاضوں سے لاتعلق کر چکا ہے ـ
ریاست نے ملا اور جہدکار کو مقابل لانے کی بھی کوشش کی ـ آج کابلوچ لیڈر زیادہ ذہین نکلا اس لئے پاکستان اس باب میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکا ،البتہ بلوچ سماج میں ملا کے روایتی احترام نے تیزی سے تنزلی کا سفر شروع کیا۔

ملا اور جہدکار گوکہ آپس میں دست وگریبان نہ ہوئے لیکن پاکستان نے مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کبھی بھی ترک نہیں کی ـ انسان کی آج تک کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مذاہب "خام ذہن” کے استحصال کا سب سے آسان ، سستا لیکن موثر ہتھیار ہے ۔ مذہب کا استعمال پاکستان کی تزویراتی حکمت عملی اورمنصوبہ بندی کا لازمی جز ہے ۔ملک،ریاست آسانی سے اپنے تزویراتی حکمت عملی یاڈیپ اسٹیٹ پالیسی میں آسانی سے تبدیلی نہیں لاتے،یہ اس کی ملکی سلامتی یابقا کامسئلہ ہے، پاکستان اس موثر،آسان اورنہایت ہی کم خرچ حکمت عملی سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوگا ،لہٰذاس باب میں خوش فہمی میں رہنا دانشمندی نہیں۔

ہم سالوں سے بلوچ سیاسی جدوجہد کاحصہ ہیں ، ہزاروں پالیسی بیان لکھے ،پڑھے اوردیکھے ہیں ـ اپنی پارٹی اور دیگر تنظیموں کے ، کبھی محسوس ہی نہ ہوا کہ خانماں برباد بلوچ آج کے ملا سے کوئی توقع رکھتا ہے ـ بلوچ سماج نے کبھی یہ توقع نہیں رکھا کہ آج کے ملا کو پکارے کہ”جس ماں نے تمہیں جنم دی ہے،اس کی آنچل سلامت نہیں، آپ کے ہمسایے،محلے دارکاجوان بیٹے کوفوجی اٹھاکراس کے سینے پرڈرل مشین چلارہے ہیں ،

ملا ایک آذان اس باب میں بھی بلندکریں ،لیکن نہیں کبھی نہیں ،کیونکہفکری خلیج بعدالمشرقین بن چکا ہے ـ ملا نے بھی ثابت کردیا کہ جی وہ پاکستان کے ہاتھوں بیعت کرچکا ہے لہٰذا کسی غلط فہمی میں نہ رہیں ـ بلوچ مرے سو مرتا رہے ـ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جہاں جہاں پاکستانی فوج نے گھر جلائے ،وہاں قرآن کے نسخے بھی نذرآتش ہوئے ، پاکستانی فوجیوں نے قرآن کا میڑھ لانے والی خواتین سے قرآن چھین کر پھینک دیے لیکن ملا کی زبان پر انسان ،انسانی جان و مال اور عزت و آبرو پر تالے پڑے رہے ـ دوسری جانب یہی ملا دنیا بھر کا نام نہاد محافظ ہے ـ اپنے معروض سے بیگانہ طبقات ایسے ہی ہوتے ہیں ـ ان کا اپنی قوم اور سماج سے کوئی ربط نہیں ہوتا ـ وہ اسی قوت کے پیچھے چلتا ہے جس منصوبہ سازنے دل ودماغ پرنکیل ڈال کر اس کو سدھایا ہوا ہے ـ

حد ہے اور بے حد ہے کہ بلوچ ملا آج تک ادراک نہیں کر پایا کہ تیل کی دولت سے مالا مال عیاش عرب شیوخ بلوچستان میں مسجد و مدرسوں پر اتنی سرمایہ کاری کیوں کر رہے ہیں ـ درھم و ریال کا سیلاب بلوچستان کے ایک مخصوص شعبے میں کیوں بہتا چلا جارہا ہے ـ اب جبکہ سعودی ریاست نے مذہبی تزویراتی سرمایہ کاری کے بجائے جدید معاشی پالیسی اوردفاع کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر انحصاراور خرچنے کافیصلہ کیا ہے تو ملا کاسعودی نوالہ آہستہ آہستہ بند ہی ہوجائے گا ـ اس کے محرکات کیا تھے یا کیا اور کیوں ہیں، اس پر سوچنا ملا کا کام نہیں ـ

نام نہاد ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری دوستی والا چین اپنے الحاد کے باوجود بذعم خود اسلام کے نام پر بنے "اسلامیہ جمہوریہ پاکستان” کا دوست کیسے بن سکتا ہے؟ ـ ان دونوں میں کون سی قدر مشترک ہے؟ اس دوستی پر سوال اٹھانا ملا کے بس سے باہر ہے ـ اسے رہنے دیں لیکن کل تک "مشرقی ترکستان” کہلانے والی ایغور مسلمانوں کا خطہ اچانک "سنکیانگ” کیوں اور کیسے بنا، اسے بھی جانے دیں لیکن اسی سابق مشرقی ترکستان اور موجودہ سنکیانگ میں قرآن اور دیگر مذہبی کتب سرعام جلائے جاتے ہیں، اسلامی شعائر پر مکمل پابندی ہے، اس پر بس نہیں بلکہ لاکھوں ایغور مسلمانوں کو چین کی لادین ریاست نازی طرز کے کیمپوں میں کیوں قید کر رہا ہے؟ مسلمان عورت چینی حکومت کی اجازت کے بغیر بچہ کیوں پیدا نہیں کرسکتی ۔۔کبھی سنا ہے کہ ملا نے اس پر بولنے کی جرات کی ہے؟ نہیں ایک لفظ بھی نہیں، کیوں، اس لیے کہ ملا بیچارہ خود ہی ذہنی و فکری استحصال کا شکار بن کراپنی خودی اور انسانی اوصاف حمیدہ کھوچکا ہے ـ اسے اس کا احساس تک نہیں۔۔۔

دورِ حاضر کے بلوچ قومی جہدکار اور بلوچ ملا کے درمیان ایک قسم کاخاموش اور غیرتحریری معاہدہ ہے کہ ملا کسی بھی حوالے سے پاکستان کے لیے کام کرے کوئی مضائقہ نہیں ـ وہ اپنا”رزق” حلال کرے لیکن اپنی حدوں میں رہے ـ قومی جہدکار بلوچ ملا کا روایتی احترام برقرار رکھے گا کیوں کہ ملا بھی سماج کا حصہ ہے اسے بھی اپنی سوچ یا فکرکے مطابق زندہ رہنے کا حق حاصل ہے ـ

یہ غیراعلانیہ، غیرتحریری معاہدہ سالوں سے یوں ہی چل رہا ہے ـ پاکستان نے جب دیکھا کہ اس طرح ملا طویل المدتی منصوبے کے طور پر کارگر سہی لیکن قلیل المدتی یا فوری ردعمل دینے سے قاصر ہے تو فوج نے مختلف علاقوں میں بعض ملاؤں کو مسلح کرکے بلوچ کشی کا لائسنس تھما دیا ـ ملا کے ایک ہاتھ میں فتویٰ اور دوسرے ہاتھ میں پاکستانی فوج کی دی ہوئی بندوق ـ زمانے کے داؤپیچ سے واقف جہدکار نے یہ چال بھی کسی حدتک ناکام ہی بنا دی ـ ایسے ملا "ڈیتھ سکواڈ” کا حصہ بن کر سماج میں اپنی وقعت کھو چکے ـ

بلوچ سماج میں جست اور مزاحمت کے نئے طرز نے جہاں دیگر طبقات یا مکتبہ فکر کوخوف زدہ کردیا وہاں ملاکی پریشانی یا اضطراب بھی بعید از قیاس نہیں ـ تاک میں بیٹھے ملا نے ایک نوجوان بلوچ سیاسی کارکن کے خطاب میں استعمال عام سے جملے کو بہانہ بنا کر محاز کھول دیا ـ ملا اور ملا کے مالکان کو یقین ہے کہ اس باب میں ان کا وارخالی نہ جائے گا ـ سماج میں مذہبی حساسیت کو مورچہ بنا کر مزاحمت کوکمزور یا متنازع بنایا جاسکتا ہے ـ بلوچ دانش اس پاکستانی سازش کو بھانپ چکا ہے لہذا یہ تیر بھی خالی ہی جائے گا ـ

بوچستان کے ہردشت و دمگ میں مہینہ ،دومہینہ بعد کوئی نہ کوئی کتب میلہ لگتا ہے ـ غریب اور پسماندہ علاقوں میں پچاس ساٹھ لاکھ کی کتابیں بک جاتی ہیں ـ کسبِ علم کے شوق میں مبتلا نوجوان کو جہالت کے مینار پر ایستادہ ملا کسی بھی صورت اپنے جال میں نہیں پھانس سکتا ـ شرم ناک شکست اس کا مقدر ہے۔

جوانی عموماً دیوانی ہوتی ہے ـ گرم خون جلدی ابلتا ہے ـ مگر نوجوان جہدکار نے یہاں دیوانگی اور وقتی ابال سے گریز کرکے "نازک و حساس” قرار دیے گئے موضوع سے بڑی مہارت کے ساتھ خود کو دور رکھا ـ میں اسے بہرحال نوجوانوں پر ” جبر” کی ایک قسم سمجھتا ہوں لیکن حالات کے تناظر میں فوج اور اس کے بغل بچوں کے میدان میں جانے سے گریز کرنا ایک اچھی حکمت عملی ہے ـ فوج اور اس کے گماشتہ ملاؤں کو جواز اور بہانہ فراہم کرنا یقیناً وقت کا تقاضا نہیں ہے ـ

جاری ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

عالمی ریڈکراس ، بزرگ بلوچ رہنماء استاد واحد کمبر کی بازیابی اور بطور قیدی ان کے قانونی اور انسانی حقوق دلانے میں کردار ادا کرے۔ بی این ایم

منگل اگست 20 , 2024
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ واحد بخش عرف استاد واحد کمبر ولد عالی’ بلوچ قومی تحریک آزادی ‘ کے ایک سرخیل و سرکردہ رہنماء ہیں جنھیں پاکستانی خفیہ اداروں نے 19 جولائی 2024 کو ہمسایہ ملک ایران سے اغواء کے بعد جبری لاپتہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ