گرین بیلٹ میں راجی مچی کیوں ضروری ہے؟ ۔ ظہیر احمد بلوچ

موجودہ گرین بیلٹ بلوچ قومی تاریخ میں ایک وسیع مقام رکھتا ہے۔ اسے صرف پٹ فیڈر اور کھیرتھر کینالز کے میگا پروجیکٹس تک محدود نا رکھا جائے۔ اگر دانشوروں اور تاریخ دانوں کا دعویٰ ہے کہ مہر گڑھ کی نوادرات ہزاروں سال پرانی تہزیب درحقیقت بلوچ تہذیب ہی ہے۔ تو ہم ناڑی واسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ چار دریاؤں کی زمین ناڑی ہی مہر گڑھ ہے۔ کوہ سلیمان کے کھور سے بہتا دریا چھتر، ہرنائی اور ژوب کی پہاڑوں سے بہتا دریا ناڑی سے ہینگڑ اور قبولہ ندی، جبکہ دریا بولان سے پھوٹنے والے چشمے و جھرنے اور جھالاوان کا دریا مولا اسی ناڑی کے میدان میں آکر کھلتے ہیں۔ اور یہاں ناڑی کی زرخیز زمین کو ہزاروں سال سے آباد کرتے رہے ہیں۔ یہیں ناڑی مہر گڑھ سے لیکر چاکری ریاست اور ریاست قلات تک سب کو غزائی ضرورت فراہم کرنے کا اہم مرکز رہا ہے۔

جدید دور میں بھی جیکب آباد انگریز سامراجی ایڈمنسٹریشن قائم ہوا تو وہ خطے کی اہمیت خوب جانتے تھے۔ تبھی 1932 میں پہلی بار mega imperial project کے زریعے کھیرتھر کینال سے ان وسیع اراضیوں کو آباد کیا گیا۔ یہیں سے موجودہ گرین بیلٹ میں روائتی جاگیری نظام دم توڑ کر جدید نہری نظام کے زریعے زرعی سرمائے داریت کو فروغ ملنا شروع ہوا۔ موجودہ ریاست نے پٹ فیڈر اور کچھی کینال کے منصوبے سے اب پوری ناڑی کی بنجر زمینیں آباد کرکے اپنے لئے وفادار نیم قبائلی اور نیم سرمایہ دارانہ جاگردار طبقہ پیدا کیا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ طبقہ بہت طاقتور ہوا اور جس طرح گوادر کے ٹرالر مافیا نے چھوٹے مچھیروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا، اسی طرح بڑے جاگیرداروں نے چھوٹے کاشتکاروں کی زمین ہڑپنے شروع کئے۔ نتیجتاً موجودہ گرین قبائلی تنازعوں کا بھی مرکز بن گیا ہے۔ یہ قبائلی تنازعے زمینی تنازعے سے شروع ہوکر عام عوام میں قبائلی شناخت کی بنیاد پر نفرت کی سیاست میں جا تبدیل ہوتا رہا۔
قبائلی لوگوں میں یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ دیگر قبائل کے جاگیردار برے جبکہ انکے اپنے قبیلے کا جاگیردار فرشتہ ہے۔ اور اسکی ہر قول پر انکھیں بند کرکے مرنا اور مارنا جائز ہے۔ یہ تنازعے معمولی نہیں ہوتے، صرف 2022 کی سیلاب سے خشک سالی ٹوٹا تو قبائلی جھگڑے شروع ہونے پر درجنوں لوگ ایک ماہ میں قتل ہوئے۔

ماحولیاتی نکتہ نظر سے دیکھیں تو ریاست پاکستان کی موجودہ تمام تر ترقیاتی منصوبے انہیں چار دریاؤں کا راستہ کاٹ کر بنائے گئے ہیں جہاں سے قدرتی بہنے والے ان دریاؤں پانی کے گزر گاہ تھے، اب وہ تمام تر راستے بلاک کردیے گئے۔ متواتر سیلابوں کی سب سے بڑی وجہ بھی یہیں ریاستی ناکارہ ترقیاتی منصوبے ہیں جو صرف نفع کمانے کے غرض سے رکھے گئے تھے۔ صرف 2022 کے سیلاب میں ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، انکے انگنت جانور مرے اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑے فصل تباہ ہوئے۔

بلوچستان میں cpec سے طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا، وہیں زرعی سرمائے داریت سے بھی بلوچ سماج میں مزید طبقاتی تقسیم پڑنے کی واضح نشانیاں مل رہی ہیں۔ موجود طبقاتی کشمکش آئے روز کے ساتھ واضح شدت اختیار کررہا ہے تو وہیں یہ بھی دکھنے کو مل رہا ہے کہ بلوچستان میں uneven development مختلف قسم کے نفرت اور جنگوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ بلوچستان میں قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے ہمشیہ یہیں نفرت خانہ جنگی کا بھی ایندھن بنتا ہے۔ اور ریاست ایسا ہی ماحول پیدا کرکے عام عوام کی بیگانگی کو بڑھاتا ہے۔

گرین بیلٹ کی قومی تحریک سے بیگانگی کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہیں نیم قبائلی اور اور نیم جاگیردارانہ سیاست کے بائث پیدا ہونے والے نفرت بھی ہے۔ جس میں زبان اور طبقاتی بنیادوں پر کشمکش قومی رجحان کو کم کرنے اور نفرت کا ماحول پیدا کرنے کے باعث بنتے ہیں۔ یہ سب روئیے موجودہ گرین بیلٹ کے سیاسی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں جوکہ بہت بڑا ناسور بھی ہے۔

اس خطے میں ایسے کسی قسم کے خانہ جنگی کو پروان چڑھانے کے بجائے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جانا چاہئے مگر یہاں موجود پارلیمانی سیاست نفرت کو جنم دیتا ہے۔ ناڑی میں قومی تحریک کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب یہاں سارے اقوام کے نوجوان، کسان، مزدور اور دیگر طبقہ فکر کے لوگ اس نفرت کی سیاست کو دفن کرکے بلوچ قومی شناخت کی بڑھوتری پر توجہ دیتے ہوئے ایک ہی "بلوچ راجی مچی” میں جمع ہوں۔ خانہ جنگی، لسانی تعصب اور قبائلی نفرت ریاستی پالیسیوں کے سبب سے ہیں کہ جس میں یکسر ترقی نا ہونے کے سبب مقابلے کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور نفرتوں کو جنم دیتا ہے۔ ریاستی ترقی کا یہ راستہ خوشحالی نہیں بلکہ مزید قبائلی نفرتوں کا باعث بنتا جارہا ہے۔

ہمیں حکمرانوں سے نفرت کرنی چاہئے، ہمیں جاگیرداروں کے خلاف بھی جنگ لڑنی ہے، ہمیں محنت کش چرواہوں اور کسانوں کو ان جاگیرداروں کے چنگل سے بچانا بھی ہے مگر ساتھ ہی ہمیں ایسی نفرت کی سیاست کا بھی کھل کر مقابلہ کرنا ہوگا جو خانہ جنگی کا سبب بنتے ہوں جسکا فائدہ ہمیشہ مختلف زبان بولنے والے جاگیرداروں ہی کو ہوتا ہے۔ اس سب بچاؤ کا واحد راستہ political agitation کو تیز کرنا ہے جسکے لئے گرین بیلٹ میں بھی "بلوچ راجی مچی” بے حد ضروری ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

خاران : دو نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے لواحقین کا ریڈزون میں دوسرے دن بھی دھرنا جاری

جمعرات اگست 15 , 2024
خاران : بلوچستان کے ضلع خاران میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں دو نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے خلاف ریڈزون خاران میں لواحقین کا دھرنا دوسرے دن بھی جاری ہے۔ لواحقین کے مطابق پاکستانی فورسز نے گزشتہ روز خاران بازار سے دو نوجوان لکھمیر ولد حاجی صالح اور خدا داد ولد […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ