شال بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ داکٹر ماه رنگ بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں کا قافلہ کا کوئٹہ پہنچنے پرتپاک استقبال کیا گیا، جس کے بعد شایوانی اسٹیدیم سریاب میں استقبالی جلسہ منعقد ہوا ہزاروں شرکاء نے فلک شگاف نعروں کیساتھ راجی مچی کے مزاحمتی رہنماؤں کا استقبال کیا۔ گوادر سے دھرنا ختم کرنے کے بعد تربت، پنجگور، گریشه، سوراب، قلات اور نوشکی سمیت کوئٹہ میں تاریخی استقبالی جلسے منعقد ہوئے ہیں جس میں شرکا کی کثیر تعداد نے شرکت کرکے یکجہتی کا اظہار کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر ماه رنگ بلوچ نے کوئٹہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے قید اور لاپتہ افراد کا فیصلہ بلوچ راج کریگی شال کے لوگوں کے بہت اورحوصلہ کو سلام پیش کرتی ہوں ۔ آپ کے ہمت اور جدوجہد ہمیں توڑنے نہیں دیگی۔
مجھے بلوچ قوم کی بیٹی ہونے پر فخر ہے کیونکہ مجھے مہربان اورحوصلہ مند قوم ملی ہے جو پچھے ہٹنا نہیں جانتی آگے بڑھنا جانتی ہے جو بلوچ منزل 200 سالوں سے روکی ہوئے منزل ہے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں مجھے آپ پرفخر ہے ۔ آپ تمام لوگوں کو آج سوغند لینا ہوگا اورفیصلہ کرنا ہوگا کہ ہزار مشکلوں اور ہزارو سختیوں کےباوجود آپ لوگوں نے رکنا نہیں ۔ آج سے سات ماہ پہلےہم اسی جگہ پر موجود تھے اور یہ اسٹیڈیم بھری ہوئی تھی اور میں نے کہا تھا کہ بلوچ قومی مزاحمت میں شامل ہوجاتو آج چه ماه بعد میں کہوں گی کہ مجھےفخر ہے کہ لوگ اپنی حلف میں کھڑے رہے لوگونےکہا کہ بلوچ قوم جذباتی ہے اور پیچھے رہ جائیں گےلیکن میں ان کو کہنا چاہتی ہوں کہ بلوچ کبھی جذباتی نہیں تھا بلکہ بلوچ نظریاتی ہے ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچ قوم کے خون میں مذاکرات کرنا اور سودا کرنا نہیں ہے بلوچ ایک دفعہ قول لیں اس پر کھڑی رہتی ہے تو پیچھے نہیں ہٹتی ۔ آج بلوچ راجی مچی کےتحریک کی پوری دنیا میں اس کی تعریفیں کی جارہی ہے ۔ آج ریاست حیران ہے کہ بلوچ قوم جو اس کو پیچھے بٹانے کی کوشش کی گئی تمام قوتیں استعمال کی مگر وہ پیچھے نہیں ہٹیں، خواتین کی عصمت دری کی گئی مردوں کو ٹارچر سیلوں میں بندکردیا گیا بلوچ نوجوانوں کو نشے کا عادی بنا دیا گیا ان میں منشیات عام کر دیا گیا اور کسانوں سے ان کی زمینیں چھین لی گئیں اور بلوچ ماہی گیروں سے ان کی سمندر چھین لی گئی جو دو وقت کی روٹی کے لئےمحتاج ہو گئے اس کے باوجود بلوچ قوم رکنے کا نام نہیں لے رہی جس کی وجہ ہماری مزاحمت ہے اور شہیدوں کو خون سے سات ماہ پہلے سے اب تاریخ بدل گئی ہے ، آج بلوچوں نے ثابت کردیا کہ بلوچ جنگ میں
اپنی جان دے دیتا ہے اور اسی طرح ہی سیاسی تحریکوں میں اپنی جان دے سکتا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیاء اور پوری دنیا میں ایک ایسی تحریک اٹھی ہے
اور اس تحریک کو دیکھ کے پورا دنیا حیران ہے ۔ بلوچ بغیر وسائل کے ایک طاقتور اور خونخوار ریاست جو صرف طاقت استعمال کرنا جانتی ہے اس کا خالی ہاتھ مقابلہ کررہاہے ۔ظلم ہونے کے کے باوجود بھی وه پیچھے نہیں ہٹتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کارواں جب گوادر سے نکلا تو پورے بلوچستان جہاں جہاں تک ہم گئے وہاں وہاں تک لوگوں کی بڑی تعدادنے ہمارا استقبال کیا ۔ ہمیں بہت محبت دی گئی ، جومائیں اپنی گدانوں سے نکل کر آئے ہمیں خیر سگالی کاپیغام دیا اور دعائیں دی اور ہمارے شہیدوں کے یکجان ہوگئے اور انہوں نے سوغند اٹھایا کہ ہم اپنی منزل پرضرور پہنچیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی پر آپ کااعتماد کرنے پر آپ کی شکر گزار ہوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک بلوچ نسل کشی کے خلاف ہے اوربلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک ہی مقصد ہے کہ وہ بلوچ قوم کو متحد کریں وہ بلوچ جو چاغی میں ہے مکران میں سیستان میں ہے ان پر جو ظالم و زیادتی ہورہی ہےاسے منظر عام پر لایا جائے اور ہم نے اس کو پوری دنیامیں کے سامنے لائیں یے ، اس تحریک کی سربراہی بلوچ قوم کر رہی ہے اگر یہ تحریک کامیاب ہوگی تو آپ لوگوں کی وجہ سے کامیاب ہوگی۔
ڈاکٹر نے کہاکہ اگر میں یہاں پر گوادر کےلوگوں کے بات نہیں کروں تو ان کے ساتھ زیادتی ہوگی جس وقت تمام بلوچستان کے شاہراہوں کو بند کر دیا گیا
ہے اور 28 جولائی کو گوادر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا پورے گوادر شہر میں فورسز گلی گلی گھر گھر چھاپے مار رہی تھی کسی کو باہر نکلنے کے لئے نہیں
چھوڑا جا رہا تھا اور بلوچ خواتین اور جو بلوچ نوجوان نکلے اور وہ ماہی گیر اس تحریک کے لئے گھروں سےاپنے نکل آئے جب آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ بورہی تھی اسی ٹائم گوادر کے لوگ کھڑے تھے 13 دن گوادر میں پینے کا پانی نہیں تھا تمام راستے دکانیں سیل کردی گئیں اورلوگ اپنے آپ کے تحت اشیاءخوردونوش لائیں یہ اس تحریک کی کامیابی ہے کہ فورسز کے کیمپوں جہاں پر روز ہماری تذلیل کی جانی تھی کہ کہاں سے آرہے ہو کہاں جا رہے ہو آج وہ کیمپ والے بلوچ قوم سے خوفزدہ ہے کہ وہ پوچھتے رہے کہ راجی مچی کا کارواں کہاں تک پہنچا ۔ یہی ہماری کامیابی ہے یہ ایک عوامی تحریک ہے اور جب عوام اٹھی ہے تو 7لاکھ نہیں 7 ارب کی فوج بھی ان کی راستہ نہیں روک سکتی ۔
بی وائی سی سربراہ نے کہاکہ گزشتہ 70 سالوں سے ریاست یہی کرتی آرہی ہے اور بلوچوں کو آپسی جھگڑوں نشہ بیروزگاری میں الجھائے رکھا ہے کہ بلوچ کسی صورت بھی متحد نہ ہو ان اس بات کا بخوبی علم ہےکہ طاقت عوام کے پاس ہے ۔ یہ اس تحریک کی سربراہی آپ لوگ کر رہے ہیں میں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ جب گوادر میں یکجہتی کمیٹی کے سینئر رہنماء بغیر انثر نیت کے اور وہ یر غمال تھے تب پورے بلوچستان کوبلوچ قوم نے بند کر دیا تھا پورے بلوچستان میں دھرنامانوں اور بہتوں نے دھرنے دیدیتے پاکستانی وزراء، انتظامیہ اے سی ڈی سی پر دھرنے میں گئے اور پراحتجاج میں گئے انہیں گرانے کی کوشش کی مگرہمارے بھائیوں سے اپنی جانوں کی قربانی دیں اور انکے اہلخانہ کو بھی ڈرانے کی کوشش کی مگر بلوچ قوم نے ڈرنے سے انکار کردی اور یہ آپ کی کامیاب ہے یہ کامیابی کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے ۔ انہوں نے کیا کہ بلوچ قوم اپنی بچیوں کو پڑھانے کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون ایک نسل کو باشعور بناتی ہے ، ہر بھائی کوچاہیے کہ وہ اپنی بہن کو اپنی طاقت بنائے پر باپ کو
چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو بھی وہ حقوق دے جو ایک بیٹے کو دیتا ہے ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہماری
تحریک بلوچ قوم کی تحریک ہے اور ہماری بقاء کی جدوجہد کو ہماری مائیں اور بہنیں آگے لیکر بڑھ رہی ہیں، اس ظلم کیخلاف اب بلوچ قوم نے خود اٹھنا ہے۔