شال جیری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5542 دن ہو گئے۔

اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم کے کارکنان شمس ہوتک خان اور دیگر نے کیمپ اگر اظہار یکجہتی کی ۔
دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ فرزندوں کی شہادت اور قید و تشدد کی سامراجی روایات اگر چہ نئی نہیں ہیں تاہم اس بار یہ گھناونی درندگی، حیوانیت کی تمام حدیں پار کر چکی ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے اور بلوچ نسل کشی ، پاکستانی فورسز اور اُن کے خفیہ اداروں کی مہم کا حصہ بنادیا گیا ہے ۔
انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی قابض قوتیں نہ صرف بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ بلوچ قوم کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینے یا انہیں اپنی سر زمین سے بیدخل ہے کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس کے علاوہ درندہ صنعت سفالیت کا چنکزی عمل پاکستانی بالا دست طبقے کا بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت اور عداوت کو بھی آشکار کرتا ہے اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنوں طلبا نو جوانوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کی اغوا نما گرفتاریوں ، جبری گمشدگیوں کے بعد اُن کی تشدد زدہ سخ شدہ لاشوں کی ویرانوں سے برآمدگی کے انسانیت سوز المیوں کی صورت میں سامنے ہے۔ گذشتہ مہنیوں میں ہزاروں بلوچوں کی جبری گمشدگی اور ماورائے قانون عدالت گرفتار
کیا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کی یہ سفاکیت کئی سوال پیدا کر رہی ہے۔ بعض حلقے حیران ہیں کہ وہ کون سی ایسی وجو ہمت ہیں کہ پاکستانی حکمران قبضہ تو اپنی جگہ بلوچوں کو اذیت ناک طریقے سے مٹانے کے درپے ہیں۔ اس سوال کا جواب کئی پہلوں کا حامل ہے۔