بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے طلباء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ26 جولائی کی رات کو بی ایس او کے مرکزی چیرمین جیہند بلوچ ، مرکزی وائس چیرمین شیرباز بلوچ، کے ہمراہ دیگر ساتھیوں کو گوادر میں ہونے والی "بلوچ راجی مچی” کے موبلائیزیشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ یاد رہے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ کو اس سے قبل نومبر 2018 کو بھی مہینوں تک جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا ۔جبکہ رواں ہفتہ کے دوران بلوچستان بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں طلبا و سیاسی کارکنان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ مستونگ، تلار، بالگتر، ہنگول، میں بلوچ راجی مچی کے قافلے پر فائرنگ کے سبب درجنوں مظاہرین شدید زخمی ہوئے جبکہ ان پرتشدد کاروائیوں میں ایک نوجوان شہید ہوچکا ہے۔وہی دوسری جانب بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ نیٹورک معطل کردئیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ سیاسی کارکنان کو اپنی سیاسی سفر میں مختلف نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے وہ غیر معمولی جدوجہد کے درخشاں ستارے ہیں جو انسانی آزادی کے حصول کیلئے کئی مصائب سے گزرتے ہوئے مایوسی کو روندنے کا ہنر جانتے ہیں، اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ انہیں جبری طور پر حراست میں لے کر ان کے حوصلے پست کردے گا تو وہ انکی خام خیالی ہے ۔ہم یہ باور کراتے چلیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنماؤں پر حملہ ہم بی ایس او کے عظیم سیاست پر حملہ تصور کرتے ہیں اور مادرِ علمی درسگاہ کی دفاع کے لئے کسی بھی ردعمل کے اظہار کی قوت رکھتے ہیں. ہم حکومتی اداروں پر یہ گوش گزار کرانا چاہتے ہیں کہ اگر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ و مرکزی سنئیر وائس چیئرمین شیرباز بلوچ کی بازیابی کو فوری بنیادوں پر یقینی نہیں بنایا گیا تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنے دیگر ہم خیال سیاسی قوتوں کے ہمراہ ملک گیر احتجاج کا آغاز کریگی ۔
ہم بالادست سیاسی قوتوں کو گوش گزار کرانا چاہتے ہیں کہ آج بلوچ قومی جدوجہد کی قیادت وہ بلوچ نوجوان نسل کررہی ہے، جس کی پرورش جنگی وحشت کی خوفناک تاریکیوں میں ہوئی ہے۔
اس نوجوان نسل کو طاقت کے زور پر خاموش کرنا محض ریاستی توانائیوں کا زیاں ثابت ہوگا ۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی قیادت کی جبری گمشدگی کا عمل بلوچ نوجوانوں کی اجتماعی سیاسی شعور پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ جو بلوچ طلبہ و نوجوانوں کے لیے قطعاً قابل تسلیم نہیں۔
انھوں نے کہاکہ آج کی عالمی سامراجی دنیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی افراتفری، پراکسی خونی جنگوں میں اضافہ،سامراجی طاقتوں کی آپسی چپقلش، عالمی سیاسی و معاشی عدم استحکام، عوامی تحریکوں کا ابھار عالمی منظرنامہ پر غالب مناظر کے طور پر خود کو منوا رہی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کے نتائج کو اگر ایماندارانہ طو پر تسلیم کرے تو یقیناً ہماری شعور پر یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ عالمی دنیا کا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔
پریس کانفرنس میں طلباء نے کہاکہ مملکت خداد پاکستان جس کی بنیاد ہی ایک سامراجی پراجیکٹ کے طور پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کا 75 سال پہلے ایک نیو کلونیل کرایہ دار فوجی ریاست کے طور پر ظہور ہوتا ہے۔ اسی سبب اپنی تمام تر عمر یہ ریاست ایک ملٹری اسٹیٹ کے طور پر نشونما پاتی ہے ۔ جس کا مقصد ایک طرف عالمی استحصالی پراجیکٹس کی معاون کار کے طور پر سامراجی مفادات کا تحفظ تھا۔ دوسری جانب اس ریاست نے گزشتہ 75 سالوں میں محکوم اقوام کے جیل خانہ کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھا ہے ۔
آج جہاں عالمی سامراج سیاسی و معاشی طور پر انتہا درجے کے بحرانات کی زد میں ہے ۔ وہی پاکستان جو اس عالمی سامراجی نظام کی سیاسی و معاشی بیساکھیوں پر قائم ہے اس میں یہ تضادات و بحرانات زیادہ تندی سے مسلسل اپنا ظہار کر رہی ہیں ۔ آج پاکستان جہاں جوڈیشری، سیاسی و انتظامی طور پر شدید قسم کے تقسیم و چپقلش کا شکار ہے وہی اس ریاست کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی و شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستانی مقتدر قوتیں ان بحرانات پر قابو پانے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کے استعمال کو درست حل کے طور پر دیکھ رہی ہیں ۔
دنیا میں عرب بہار سے لیکر اب تک تیسری دنیا میں عوامی تحاریک ایک غالب منظرنامہ کے طور پر گزشتہ دھائی پر چھائی رہی۔ اس کے تازہ ترین مثال رواں ماہ کانگو اور بنگلہ دیش میں حالیہ ابھرنے والی تحریکیں ہے۔ عالمی دنیا کی طرح پاکستان بھی تحریکوں کی لپیٹ میں ہے ۔ جو اپنا اظہار محکوم قومیتوں کے تحریکوں کی صورت میں کررہی ہے ۔ کشمیر میں بجلی کے بلوں کے خلاف اٹھنے والی تحریک، بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک، آپریشن عزمِ استحکام کے خلاف بنوں کی تحریک ریاست کی سیاسی و معاشی نظام کی بدحالی کا برملا اظہار کرتی ہیں ۔
بلوچ قوم کی اس ریاست کے اندر اگر تاریخ کو درست طریقے سے بیان کیا جائیں تو وہ یقیناً فوجی آپریشنز ، بلوچ وطن کے وسائل کی لوٹ مار، بلوچ شناخت و ثقافت پر قدغن اور انسانیت کو شرما دینے والی خوں آلود داستانوں پر مبنی ہے ۔ اس جبر کے خلاف بلوچ قوم تاریخی طور پر سراپا مزاحمت ہے۔ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے خلاف ابھرنے والی حالیہ تحریک بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے ۔ بلوچستان جو گزشتہ دو دھائیوں سے ریاست کی طرف سے مسلط ایک وحشتناک جنگ
میں مبتلا ہے اب تک لاکھوں انسانی جانوں کو اپنا لقمہ اجل بنا چکی ہے ۔ حالیہ بلوچ عوامی تحاریک ریاستی نسل کش پالیسیز کے بر خلاف عوامی غم و غصہ کا اظہار ہے ۔ لیکن مقتدر قوتیں اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے مسائل کو سنجیدہ طور پر حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کو زیادہ درست راہ سمجھتی ہیں ۔
بی ایس او کے طلباء نے کہاکہ اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس بلوچ، پشتون، سندھی و دیگر مظلوم اقوام کے مسائل کے حل کیلئے نہ کوئی وسائل ہے، نہ نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی درست سنجیدہ حکمت عملی ہے ۔ ان سیاسی بحرانات پر قابو پانے کے لیے مقتدر قوتیں زیادہ پرتشدد ہو کر اپنی ماضی کی روش پر قائم ہے ۔ جو عوامی اجتماعات پر فائرنگ اور سماجی و سیاسی کارکنوں کی جبری گرفتاریوں سے واضح ہے ۔