ملک ناز پدا زندگ بُوت ۔عزیز سنگھور

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ڈنُک سے تعلق رکھنے والی شہید ملک ناز ایک مرتبہ پھر زندہ ہوگئی کیونکہ ان کی شہادت سے جنم لینے والی "بلوچ یکجہتی کمیٹی” کی تحریک جو ایک خودرو انداز میں چل رہی تھی۔ اس کو مکمل تنظیمی ڈھانچہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ اعلان گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب بلوچ، کور کمیٹی کے ارکان واجہ صبغت اللہ بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، عارف بلوچ، عبدالحفیظ بلوچ سمیت دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ ان کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کورکمیٹی کااجلاس کراچی میں منعقد ہوا جس میں تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔ اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ مرکزی آرگنائزر اور لالہ وہاب بلوچ ڈپٹی آرگنائزر منتخب ہوگئے ہیں۔ یہ حقیقت ہےکہ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا جنم مئی 2020 میں بلوچستان کے ضلع کیچ میں "برمش یکجہتی کمیٹی” کے نام سے ہواتھا۔ اس کی بنیاد کسی جماعت نے نہیں رکھی تھی بلکہ بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ یہ سب خود رو انداز میں ہوا تھا اور یہ وقت کی بھی ضرورت تھی۔

کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اور ایک بلوچ ماں ملک ناز کے خون سے اس تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ آغاز اس وقت ہوا جب ضلع کیچ کے علاقے ڈنُک میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے ایک گھر میں گھس کر ڈکیتی کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران گھر میں موجود ملک ناز نامی خاتون نے مزاحمت کی۔ جس کے دوران ان کی شہادت ہوئی اوراس دوران ان کی بیٹی برمش کو شدید زخمی کردیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب پورا مکران ڈاکو راج کی لپیٹ میں تھا۔ مسلح افراد آزاد گھومتے تھے۔ سرِعام اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ پرامن لوگوں کو حراساں کیا جاتا تھا ۔کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی۔

چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا تھا۔ ان مسلح افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم تھی۔ پورے مکران ڈویژن میں ایک خوف کا سماں تھا۔ ہر کوئی اپنی عزت کےڈر سے چُپ رہتا تھا۔ کیونکہ ان مسلح افراد کو سرکاری پشت پناہی حاصل تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ یہ ڈر اور خوف اس وقت ختم ہوا۔ جب ملک ناز نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔ اس کی شہادت نے بلوچ سماج کو ہلاکر رکھ دیا۔ پورے مکران ڈویژن سمیت بلوچستان، کراچی، کوہ سلیمان، ہلمند اور سیستان میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ اس طرح خوف کی کیفیت کا خاتمہ ہوا اور لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا کہ چند مراعات یافتہ اور حمایت یافتہ مسلح افراد سے ان کی طاقت کئی گنا زیادہ ہے۔ اس دوران شہید ملک ناز کی زخمی بیٹی برمش کے نام سے یعنی برمش یکجہتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

بلاآخر نامزد ملزمان کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ ڈنُک واقعہ میں زخمی ہونے والی بچی برمش کے نام سے بننے والی برمش یکجہتی کمیٹی نے اپنا ہدف پورا کرلیا۔ بلوچ قوم کو مستقبل میں اس پلیٹ فارم کی اشد ضرورت تھی۔ جس کے باعث برمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے چلنے والی تحریک کا نام تبدیل کرکے بلوچ یکجہتی کمیٹی رکھا گیا۔

مختصر عرصے میں اس کمیٹی نے بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا۔ یہ کامیابی اس وقت ممکن ہوئی جب شہید بالاچ کی بہن، نجمہ بلوچ نے اپنے بھاائی شہید بالاچ کے خون کا سودا کرنے سے انکار کردیا اوراس بہادر بہن نے سرکار اور اس کےحمایت یافتہ آلہ کاروں کی جانب سے دیئے گئے چار کروڑ روپے کو ٹھکرادیا اور اپنے بھائی بالاچ بلوچ کی لاش کو دفنانے کی بجائے تربت کے شہید فدا چوک پر رکھ دیا اور لاش کو بلوچ قوم کے حوالے کردیا۔ اس طرح ملک ناز کے خون سے تحریک کا جنم اور نجمہ بلوچ کی ہمت و حوصلےسے تحریک کو تقویت ملی۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ تحریک بلوچ خواتین کی مرہون منت ہے۔ تو یہ ہرگز غلط نہیں ہوگا۔ اور بلوچ قوم نے بھی اپنی ماؤں اور بہنوں کو کھل کر لبیک کہا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رضاکارانہ کال پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ اتنے بڑے مظاہرے پاکستان کی بڑی بڑی جماعتیں نہیں کرپائیں جو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کرکے دکھائے۔ اس عوامی مقبولیت نے کمیٹی کو ایک تحریک میں تبدیل کردیا۔

شہدا کے لہو سے ابھرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک نے بلوچ معاشرے میں خواتین کو سیاسی میدان میں دھکیل دیا اور بلوچ عورتوں نے بھی اپنی سیاسی بصیرت سے دنیا کو یہ باور کرایا کہ وہ مردوں سے کمتر نہیں ہیں بلکہ مردوں سے کئی زیادہ طاقتورہیں۔ ان کی طاقت کا اندازہ ریاست کے تخت اسلام آباد سے پوچھا جائے۔ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ ان عورتوں نے اپنی ہمت و حوصلے سے اسلام آباد کے محلوں کی دیواروں کو ہلاکر رکھ دیا۔ جس سے حکمرانوں کی چیخیں نکلیں۔ بلوچ عورتوں نے پنجابی پولیس کو دبوچ لیا تھا۔ ان کو جانے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ پاگل پن کے عالم میں وہ کبھی بلوچ خواتین کو بسوں میں ڈال کر پنجاب بدر کررہے تھے تو کبھی ان کے لاؤڈ اسپیکر چوری کررہے تھے۔ انہیں سمجھ کچھ نہیں آرہا تھا کہ کرنا کیا ہے۔

اب ہر فرد کو یہ ماننا پڑیگا کہ عورت کی شناخت کسی کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ عورت کا وجود اس کا اپنا ہوتا ہے۔ اورعورت کی طاقت ایک حقیقت ہے۔ اس طاقت کو بلوچ قوم نے اس وقت تسلیم کیا جب بلوچ خواتین نے اسلام آباد کی سرکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا اور اسلام آباد کو لات مارکر واپس اپنے مادروطن بلوچستان پہنچ گئیں۔ جہاں بلوچ قوم کی جانب سے بلوچ یکہجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو بلوچی پاگ پہنایا گیا۔ یہ ایک طرح کی بلوچی دستاربندی تھی۔ یعنی قوم نے انہیں اپنا سردار (قومی لیڈر) چنا۔ اب یہ سر کٹ سکتا ہے۔ مگر جھک نہیں سکتا۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

گوادر: جبری لاپتہ ہونے والے بلال بلوچ کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی دھرنا روڈ بلاک

ہفتہ جون 15 , 2024
گوادر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے والے بلال بلوچ ولد رضا محمد کے اہل خانہ نے بلال بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف سربندن دوراہی میں سی پیک روڈ بلاک کرکے احتجاجا دھرنا دے دیا ۔ احتجاجی دھرنے میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہے۔ احتجاج میں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ