شال جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5479 دن ہوگئے ۔

آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم کے سینٹر کمیٹی کے ممبر آغا زبیر شاہ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ میں شرکت کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور پشتونوں کو ٹارچر سیلوں میں اذیتیں پہنچا کر دل کی بھڑاس ختم نہ ہوتی جارہی ہیں بعد ازاں وہ بیابانوں میں ہمارے رہنماؤں کی نعشیں پھینکی جارہی ہیں۔ کبھی ہمارے نوجوان کو خفیہ اغوا کر کے ٹاچر سیلوں میں مقید بنایا جارہا ہے جب انہیں کوئی تدبیر سوجھتی ہے وہ یکدم ہمارے فرزندان وطن کو بطور دہشت گرد کے سامنے لایا جاتا ہے اور الزامات جھوٹ پر مبنی مختلف پروپیگنڈوں کو میڈیا کے زریعے لگائی جاتی ہے ۔
ہم گلہ مند نہیں کھبی وہ ہمارے ان سجیلے نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں سے نکال کر میدانوں میں اسکو ڈیتھ اسکواڈ شوٹ کے ذریعے ان کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کیاجاتا ہے بعد ازاں یہی ڈرامہ رچایا جاتا ہے کہ انہیں پولیس یا سی ٹی ڈی مقابلہ میں ہلاک کردیا ان کے کا تعلق کالعدم تنظیموں سے بنائی جاتی ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ معاشرہ میں ہرشخص ہر قوم کے مرد کو سیاسی مذہبی سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے کا بنیادی حق حاصل ہے لیکن ہمارے سیاسی کارکن جبری اغواء ہو جاتے ہیں اہل و عیال شدید زہنی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں بلوچ سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا وہ گونگا بناہے بہرا بنا ہوا ہے کان پر جوں تک نہیں رینگتی بے حرمتی کا اندازہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ شہید کر کے چہرے کو تیزدار نوک سے جسم کے چمڑے پر مردہ باد اور ذندہ باد کے نعرے لکھا جاتا ہے ہزاروں کارکنوں سیاسی غیر سیاسی فرزندان وطن کو خفیہ اداروں والے جبری اغواء کر کے ٹاچر سیلوں کی زینت بنایا جاتاہے جن کا تا حال ہتہ پتہ نہیں آیا وہ یا شہید کرچھکے ہے۔