جبری لاپتہ افراد شہدا کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5473 دن ہو گئے ۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے سابقہ چیئرمین سابق سینٹر میر مہیم خان بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں قابض ریاست کی جانب سے ظلم اور بربریت کا سلسلہ بدستور جاری ہے سیاسی سیاسی کارکنوں نوجوانوں کو ماورائے آئین قانون جبری لاپتہ کرنا ، ان کی گولیوں سے چھلنی مسخ نعشیں پھینکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور روز کا معمول بن چکا ہے ۔
انھوں نے کہاکہ بلوچوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کے خلاف ورزی کی مرتکب ریاست کے خلاف کسی قسم کاروائی کی بجائے مختلف ممالک اور عالمی برادری اس کا ساتھ دے رہے ہیں ، جو باعث تشویش ہے ۔ جس کی تازہ مثال چین کی بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے اور آئین قانون جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
آج بھی 70 ہزار بلوچ فرزندان ریاستی عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں کئی ہزار نوجوانوں کی گولیوں سے چھنی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا چکی ہیں ۔ بلوچستان ریاستی ظلم جبر اور بربریت کی وجہ سے لاکھوں افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں نے وہاں تک انکا تعاقب کرنا نہیں چھوڑ دیاہے اور انہیں جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے ۔
انھوں نے کہاکہ وی بی ایم پی نے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے اور عالمی اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ وہ بلوچستان میں ماورہ ائین قانون جبری گمشدگیوں ریاستی ظلم جیبر بربریت اور انسانی حقوق کی پائمالی کا نوٹس لیتے ہوئے بلوچ قوم کو نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں نے اس حوالے سے مکمل طور خاموشی اور چشم پوشی اختیار کر لی ہے ، جو باعث تعجب ہے۔ ہم ایک مرتبہ پھر اقوامتحدہ عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پائمالی کا نوٹس لیں۔