خاصاََ اُردو زبان کو اردو کہنا نیا معاملہ ہے کیوں کہ زبان تو یہی تھا مگر کبھی اسے ہندوستانی، کبھی ہندوئی اور کبھی ریختہ بولا جاتا تھا۔
اردو زبان کی ناقدین اور محبان بہت زیادہ ہیں بہرحال یہ بات تو واضع ہے کہ ہندوستان کی شمالی علاقے جو اب بشمول پاکستان کی جغرافیے میں آتے ہیں اُردو زبان رابطے کا موثر ذریعہ ہے۔
پاکستان میں اُردو زبان کو سرکاری درجہ حاصل ہے جبکہ ہندوستانی دستور میں بھی اُردو کےتشخص کو تسلیم کیا گیا ہے۔ جب کہ متعدد بھارتی ریاستوں میں اس کو سرکاری تشخص حاصل ہے۔ نیپال میں بھی اردو کو ایک علاقائ لہجے کا درجہ حاصل ہے ۔ برصغیر میں اردو کو فارسیانہ معیار کی حامل ہندوستانی زبان کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
نئی زبان کی طلوع :
اردو زبان کی ابتدا کی کڑیاں چھٹی سے تیرویں صدی میں (شاؤراسینی زبان) میں جوڑی جاتی ہیں۔ کیونکہ ( شاؤراسینی زبان) میں اُردو کی کچھ الفاظ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
امیر خسرو کی ہندوی:
جدید اُردو زبان کی کڑیاں تیرویں صدی عیسوی میں امیر خسرو کی ہندوی زبان میں موجود شائری میں ملتے ہیں۔ ” چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نینا مِلائ کے” سکھی پیاں جو میں نہ دیکھو تو کیسے کاٹو اندھیری رتیاں“
ایسی بہت سی شائری ہے جو اُردو کی جھلک نمایاں ہے۔
مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان میں ہندوستانی زبان کو تیزی سے ترقی کی۔ گو کہ مغل دور میں سرکاری زبان فارسی تھی۔ تاہم عام افراد کے درمیان رابطے کے لیے ہندوستانی زبان کا استعمال تیزی سے بڑھا۔
قدیم ہندی زبان میں فارسی،عربی اور ترکی زبانوں کے الفاظ نے جگہ بنائی اور یوں گنگا جمنا کی تہزیب ہندوستانی زبان کا گہوارہ بن گیا ۔
اس کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ہندوستانی زبان کے مختلف رنگ ابھرنے لگے۔ تیرھویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک اس زبان کو ہندوستانی،دہلوی اور لاہوری جیسی ناموں سے بھی پکارا گیا۔تاہم محققین متفق ہیں کہ مغلیہ دور میں ہندوستانی زبان میں فارسی کے الفاظ تیزی سے شامل ہوئے۔
لفظ اردو کب:
کہا جاتا ہے کہ فارسی کہ الفاظ کی حامل ہندوستانی زبان کے لیے لفظ اردو کا استعمال پہلی مرتبہ شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780 کے قریب کیا ۔ اس زبان کی گرائمر مقامی ہندوستانی لہجے ‘کھڑی بولی’ سے ماخوذ رہی جب کہ اس کے لئے فارسی سے ماخوذ نستعلق خط کا استعمال کیا گیا۔
برطانوی دور میں اردو:
ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں شمالی ہندوستان میں اردو کو رابطے کی سب سے موثر زبان کے طور پر تسلیم کی گئی اور یوں سرکاری طورپر اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔1837 میں اردو کو انگریزی کے ساتھ سرکاری درجہ حاصل ہوا۔ یہ زبان مسلمانوں اور ہندوں کے درمیان موثر ترین پل کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
یہ بات واضع ہے کہ اس دور میں ہندوستانی زبان نستعلیق رسم الخط ہی میں لکھی جا رہی تھی اور اس وقت اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طورپر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تاہم ایسے میں آریا سمائی احتجاج شروع ہوا ۔ہندوستان کے لیے مقامی دیوناگری رسم الخط پر زور دیا گیا۔ اسی تناظر میں ہندوستانی زبان کو دو الگ الگ رسم الخط میں لکھا جانے لگا اور یہیں سے اردو اور ہندی کی راہیں جدا ہوئیں۔
زبان پر سیاسی اور مذہب کا رنگ:
رسم الخط ہی پر موجود جھگڑا ‘اردو برائے مسلم ‘اور’ہندی برائے ہندو۔ جیسے مذہبی نعرے میں تبدیل ہوا۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اردو زبان کو پاکستان میں سرکاری درجہ حاصل ہوا۔