تاریخ ، قربانی اور جہدِ آزادی- تحریر: باگی بلوچ

نظریاتی انسان جب بھی اپنی زمین اور قوم کےلیے قربان ہونے کےلئے تیار ہوتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے روک نہیں سکتا۔ آج بلوچ نوجوانوں نے فیصلے کیا ہے کہ کب اور کہاں خود کو وطن پہ فدا کرنا۔ اس فیصلے کو دشمن ریاست نہیں پورے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ فدائی حملے میں اتنی طاقت ہے جس سے پاکستانی مقتدرین کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ یہ غیر فطری ریاست پاکستان دنیا سے بھیک مانگ کر یا پھر ترکی ، سعودی عرب ، چین ،امریکہ و آئی ایم ایف سے قرضے لے کر بلوچ قوم کو نیست و نابود کرنے پہ تلا ہوا ہے ،  لیکن نظریاتی طور پر مستحکم بلوچ جدوجہد کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

جب بھی انسانیت اور جمہوریت کی بات ہوتی ہے تو ایسی ریاست جمہوریت کی پامالی کرکے مظلوموں کو اپنا غلام بنانے کےلئے انتہا تک جاتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ ریاست اسلام کے نام پر بننے کا دعویدار ہے لیکن ہر کام اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ یہ شاید واحد ریاست ہو جہاں مسلمان کا قتل عام بھی جائز قرار دیا جاتا ہے، جو فرقہ طاقت میں حکومت بھی اسی کی۔ ایسی غیر ذمہ دار ریاست نہ صرف اسلام  کا نام بد نام کررہا ہے بلکہ اس کی تاریخ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کا اس سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ، بلکہ ہر طاقت کے سامنے یہ خود کو سرنگوں کرتے ہیں۔

پاکستان  جیسے ملکوں نے جمہوریت کو  مزاق بنا رکھا ہے ، اور آج ہر کوئی یہ باور کرتا ہے کہ یہ جمہوریت کے نہیں طاقت اور ڈالر کے غلام ہیں۔ کیا آپ کو اسلام نے  یہ سکھایا ہے؟ علاوہ ازیں اس کے چند ایک اسلامی اتحادی ریاستیں جن میں سعودی اور ترکی قابل ذکر ہیں جو مظلوم مسلمان اور مظلوم قوموں کو ختم کرنے کےلئے پاکستان جیسے غیرذمہ دار ریاست کی مدد کررہے ہیں۔ اگر دنیا امن چاہتی ہے تو ریاست پاکستان کو ختم و صفحہ ہستی سے مٹانا ہوگا۔ 
پاکستان نہ صرف بلوچ کےلئے ، بلکہ پوری دنیا کےلئے وبال ہے۔

بلوچ قوم کے نوجْوانوں کا عظیم فیصلہ جو فکرِ شہادت ہے ، اس نظریہ کو دشمن کھبی ختم نہیں کرسکتا۔ بلوچ قوم میں اتنی جرات ہے کہ دشمن کو شکست دے سکیں۔ آج بلوچ قوم اپنے فدائین اور سرمچاروں کی شہادت پر فخر کرتاہے ، خوشی مناتے ہیں ، کیونکہ منزلیں شہادت سے حاصل ہوتی ہے۔ اپنے آنے والی نسلوں کےلئے قربان ہوکر بلوچ دنیا کے باقی قوموں کی طرح ایک آزاد قوم اور اپنے زمین کے مالک بن سکتے ہیں۔

  مجید لانگو نے 1974 میں بھٹو پر فدائی حملہ کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ مجید بریگیڈ فدائی حملے بھی نسل در نسل آزادی تک جاری رہیں گے۔ مجید اول کے 37 سال بعد درویش جان نے 30 دسمبر2011 کو شفیق مینگل کے گھر پر حملے کرکے یہ پیغام دیا کہ  پاکستانی  فوج اور ان کے زرخرید غداروں کی اوقات نہیں کہ بلوچ سرزمین پر راج کریں۔ پھر جنرل استاد اسلم بلوچ کی لخت جگر ریحان نے دوہزار اٹھارہ میں  دالبندین میں چینیوں کو پیغام دیا کہ یہ نرمزاروں کی زمیں ہے سونے اور چاندی نہیں ، بلکہ یہاں بارود سے آپ چینیوں کا استقبال ہوگا۔ 

دو سال بعد شہید سلمان حمل ، شہید یاگی جان،  شہید تسلیم جان اور شہید کوبرا جان نے پاکستانی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرکے پاکستانی معشیت کی تباہی کی بنیاد  رکھ دیا۔ رئیس جان شہید ازل جان ،  شہید رازق جان چینی کونسل خانہ میں فدائی حملہ کیا پھر ایک ایسی ابھار اٹھی کہ ہر بلوچ فرزند کے  ذہن میں یہ تھا کہ میں فدائی کرلوں ، یہی سلسلہ چلتا رہا اور گْوادر میں چار بلوچ فدائی نے تین دن تک دو بدو لڑائی جاری رکھا۔ پاکستان اور چین کی کافی عسکری بندے مارے گئے۔  شہید اسد بلوچ عرف بی ایس او ، شہید حمل جان ، شہید منصب جان عرف  براو ، شہید کچکول جان عرف کمانڈو سرزمین کی دفاع میں قران ہوئے ، اسلئے آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر جہدکار دشمن کےلیے فدائی بن چکا ہے۔

پھر بلوچ گودیِ وطن بانک شاری بلوچ نےعظیم فیصلہ کرکے چینیوں کے کچھ نام نہاد ٹیچر جو چین سے آکر بلوچ کو چینی زبان سکھاتے تھے ، لیکن بلوچ قوم کے لیے اپنی سرزمین بلوچستان میں اسکولوں میں بلوچی زبان پر پابندی ہے۔ پھر کراچی میں فدائی حملہ کیا بلوچ قوم اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بلوچ بہن اپنے وطن کی خاطر اپنی جان قربان کرسکتی ہیں ، پھر پنجگور نوشکی حملہ ہو یا گوادر کی یا تربت میں بہن سمعیہ کی ، یہی ہے  قومی سوچ اور پختہ نظریہ کے مالک۔ اس قوم کو  پنجابی کبھی غلام نہیں بنا سکتا لیکن کچھ  بلوچ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے باجگزار بنے ہیں۔ یہ نام نہاد بلوچ  آج تک پاکستانی سیاست اور جہموریت کی بات کرتے ہیں ، لعنت ہو ان پر اور پاکستانی جمہوریت پر پاکستان میں سیاست صرف ایک فیشن ہے ، بلکہ پاکستانی سْیاست اور  جہموریت دنیا کے ملکوں اور جہموریت کےلئے ایک سیاہ دھبہ ہے۔

غلامی کا احساس اُس وقت انسان کو ہوتا ہے جب آزادی اور غلامی کا فرق جانتا ہو ، لیکن ایک بات انسان کو بار بار سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ غلامی ہے کیا ؟جب انسان اپنی قوم کو اس حال میں  دیکھ کر اور دشمن کی ظلم و جبر اور بلوچ فرزندوں کو اُٹھا کر سالوں سال ٹارچر سیلوں میں غیر انسانی تشدد میں رکھا جاتا ہے اوراُن کے خاندان  والے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر روزانہ سردیوں اورگرمیوں کی پرواہ کئے بغیر  پریس کلبوں اور سڑکوں پر بے بس و لاچار اپنی چیخ و پکار انسانی حقوق ، یو این او اور دنیا کو اپنی فریاد سناتے رہے لیکن کوئی ان کی فریاد سُننےوالا نہیں۔ بس پاکستان میں جہموریت ، انسان دوستی اور اسلامی نظریہ کچھ بھی نہیں ، ہر کوئی اقتدار میں آئے روز کہہ دیتا ہے کہ بلوچ دہشتگرد ہیں۔

پاکستان دراصل فوجی ریاست ہے ، پاکستانی آئین نامی پرچی پاکستانی فوج کی جیب میں ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم عمران خان ہر وقت ریاست مدینہ کی بات کرنے والے آج خود کہہ رہا ہے کہ ہم غلام ہیں۔  ایک بات ہی یاد آتا ہیں غلامی تو یہی ہے ، غلاموں کی زندگی اور ظالم کی ظلم لیکن قوم کیوں منتشر ہے پھر انسان تو سوچنے پر مزید زیادہ کوشش کرتا ہے کیوں یار قوم اکٹھا نہیں ہوتا، اگر قوم کی حالت زندگی سڑکوں پہ اور زندانوں میں گزر رہی ہے ان زندانوں ، ٹارچر سیلوں میں بند انسان کیوں اپنی عمر زندانوں میں گزارنا پسند کرتے ہیں، وجہ کیا ہے؟ اس ظلم اور جبر کو برداشت کرنا اپنے آنی والی نسل کو خوشحال آزادی اور بلوچ کو دنیا کے قوموں میں سے ایک عظیم قوم بنانا ہے۔ اگربلوچ قوم آج یکجاہ ہوتا تو غلام نہیں ہوتا ، پاکستان نے نہ سردار کو معاف کیا نہ عام بلوچ کو معاف کیا ہے ، غلامی کی لعنت اور مردہ ضمیر بلوچ جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قوم کے اندر خوف اور دہشت پیدا کرتے ہیں کہ یہ جنگ کچھ لوگ کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ پرست منافق صرف پاکستانی دلالی، لالچ اور ضد و انا سے بلوچ کی تاریخ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، لیکن وہ دن دور نہیں جب ہم آزاد ہوں گے۔ 

آج ہم سب یہ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی لعنت تو غلامی ہے ، اس لئے کہ قوم منتشر ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بلوچ جو ایک مقصد اور ایک ہی دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ شہیدوں کی قطار اور زندانوں میں بند بھائیوں کی تعداد معلوم نہیں ، لیکن وہ بلوچ جو قوم کےلیے قربانی دینے کو تیار ہیں اور ہر روز بلوچ نوجوان شہید ہو رہے ہیں، آخر منتشر کیوں؟ مقصد تو ہمارا ایک  قومی جدوجہد  نعرہ  آجوئی ہے ، لیکن بلوچ نوجْوانوں نے دنیا اور بلوچ قوم کو یہ پیغام دیتے ہوئے  دشمن کے خلاف بلوچ اپنی تاریخ خود لکھ کر آج اسی دن اور اسی جگہ دشمن کو جہنم واصل کررہے ہیں اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی ہے ، دوسری طرف کچھ ایسے دوست ہیں جو دشمن کی چالبازیوں میں شریک ہیں۔

  بلوچ کا درد وار عظیم مقصد اور بلوچ قوم کےلیے اپنا سر قربان کرتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی انا کو پہاڑ بنا کر آنکھوں میں سْیاہ پٹی باندھ کر نظریں قربانی روگردانی کررہے ہیں۔ یہ دور بلوچ قوم کو اکٹھا کرنے کی ہیں ۔ لیکن کچھ دوست اکٹھا کر نے کی بجائے قومی طاقت کو  منتشر کررہے ہیں ، اگر کسی نے اس قومی طاقت کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو تاریخ اس شخص کو کیا نام دیگا ، یہ فیصلہ آنے والی نسلیں خود کرینگے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

ژوب میں فوج کشی، 5 افراد ہلاک، ایک شخص زخمی،تمپ میں فورسز کی فائرنگ

پیر مئی 6 , 2024
بلوچستان کے ضلع ژوب میں قابض پاکستانی وحشی فورسز نے فوج کشی کرتے ہوئے 5 افراد کو ھلاک ایک کو زخمی کردیا ۔  تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز نے ژوب کے علاقہ  سامبازہ میں فوجی کشی کرتے ہوئے  5 افراد کو ھلاک ایک شخص کو زخمی  کرکے حراست میں لیکر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ