میرے الفاظ بولتے ہیں :ھمل اسھاک

"جب ناانصافیاں قانون بن جائیں تو خوددار قوموں پر بغاوت فرض ہو جاتی ہے۔جسطرح ظلم وجود میں آئی تو لوگوں نے بغاوتیں کرنا شروع کردیلیکن مارخوروں نے کہی انسانوں کو موت کہ منہ میں لپیٹ لیا مگر سچ کی باتیں اکثر دل میں جگہ بنا لیتی ہےجس نے ظلم کی وہ صفا ہستی سے مٹ گیا۰

مگر رستروں کی ظلم بھری داستانیں کتابوں میں بھی نقش ہے لیکن اس ظلم کو اسلوب کرنے کو کہی باغیوں نے جنم لیا تاکہ محکوم لوگوں کی مدد کرنے کو اور ظلم کو اسلوب کر سکےتاریخ گواہ ہے جہاں ظلم ہوئی وہاں باغیوں نے اسرار کر کہ جانیں قربان کرنے سے کسر نہ چھوڑا ۰

لیکن ہم ظلم کی کتابیں مطالعہ کرنے کو ملتا ہے جس سے ہر بنی نوع واقف ہے اور کہی لوگوں نے اِیسے کتابوں کو پڑھ کر دوسرے لوگوں کو سمجھایا کہی نے اِس کو اگاہی کی طورپر شعوری پیغام کو برجستہ کرکے لوگوں کو مسلح کرنے کا عمل زور و شور سے شروع کیا۰لیکن ہم نے کہی ظلم دیکھیں اور محسوس کیں تو یقینََی ظلم حد سے گُزر جائے تو ناقابِل فراموش کی صف میں نظر آتی ہے اگر ہم نظریں دوڑائیں تو اِن گنت درد اور ظلم بلوچ ماوں نے بھی اپنے سینے میں رکھ کر چلے آرہے ہیں لیکن کہی نے مسکراہٹوں سے اپنے لبوں کو مجبور کر کہ مسکرا کر مزحمت کی نشان بن چکے ہیں لیکن زندگی سے ہار نہ مانگی بلکہ جینا کا حوصلہ و مزحمت سے جوڑ کر اور عقوبت لے چُکے ہیں تاریخ بزات خود اس طرح کہ دنوں کو کبھی بھی رائیگا نہیں کرنے دے گا لیکن اُسی دونوں میں سے ایک دن پھر واپس دورایا گیا

جس نے کثیر تعداد میں لوگوں کو بانُک کریمہ کی دی گئی نظریات بابا خیربخش کی اُمید اور اکبر خان بگٹی کی مذحمت کو دوبارہ رنگوں سے بھردیااور جاننثاروں کی یادوں کو اور مظبوط بنادیا وہ سوچ جس کی ہمیں طلب تھی وہ زمین کو اکھاڈ کر کہ دوبارہ خود بنی جس نے کہی مرد عورت اور بچوں کو ایک صف میں کھڑا کیا ۰کہی ایسے ناقابل فراموش ظلم کی داستان لے کر آتی ہے تو قابل یاد بن جاتے ہیں جس کو بھولنا دشوار ہوتا ہےلیکن غلام سماج میں سامراج کی ظلمیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کہانیاں بن چُکے جن کو نسل در نسل پڑھ کر بھی اور زیادہ ہوجاتے ہیں وہ سفاکت جس نے بلوچستان میں لاکھوں لوگوں کو شھید کیا ہے وہ دن ہر روز سُنے اور دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک اور ناقابل واقعہ رونما ہوتی ہے یہ وہ جگہ جس کہ سینے میں جاننثاروں کی یادیں چُھپی ہے وہ جگہ جسمیں شھیدوں کی آزادی کی پُکار زمین خود گواہی دیتا ہے جہاں چیرمین گلام مھمد جیسے نڈر انسان جان کی بازی کو مدنظر رکھ کر آزادی کی بات کر کہ آخرکار اپنے آپ کو اِس سرزمین میں اُمر ہوجاتا ہے اور کمبر چاکر جیسا نونہال لڑکا جس نے ہاتھ میں قلم رکھ کر لوگوں کو غلامی کی بدبو بوہ سے دور رکھا

جس عورتوں کی بہادری ہم نے کتابون میں پڑھ کی یقین کیا اور عملی شکل میں آکر بلوچستان کی بیٹیوں شمار کیا گیابجہاں ایک عورت جنم لیتی ہے جس نے گلامی کو سمجھ کر انکلاب کی پیاس کو محسوس کر کہ لوگوں کو درس دیتی رہی کہ ہمیں مرنا قبول ہے مگر غلام بن کہ رہنا ہرگز قبول نہیں جس کی لبوں پر بس ایک بات زینت ہواکرتھی وہ تھی بانُک کریمہ جس نے عورتوں کو شعوری طور پر آگے دکھیل دیا۔ یہ واقعہ رونما ہوتا ہے بلوچستان کے خوبصورت شہر جس نے کہی کلمار ادیب شاعر اور وطن دوست اور مزحمتی کا شہر تُربتجہاں ایک اور بالاچ نامی بلوچ کو قتل کیا جاتا ہے وہ بلاچ نامی شخص جس کہ نام لیکر ابھی تک کاہان کہ پہاڈ بہادری کا عکاسی کرتے ہیں لیکن بالاچ وہ بالاچ نکلا جس کہ بہادری کا قصہ ابھی بھی سُنے کو ملتے ہیں یہ بالاچ جو تُربت کہ شہر آبسر کا رہائش پزیر تھا جس کو نامعلوم افراد نے اٹھا کر لاپتہ کر کہ پھر کچھ دنوں بعد فیک اکاونٹر کہ نام پر شھید کیا گیا جو بلوچی تاریخ میں اَمر ہوگیا اِسطرح کہ دن کہی ماؤں نے ماتم مناہی اور کہی نے اپنے بیٹاوں کہ شھید ہونے کہ بعد خوشی کا اظہار مسکراہٹوں سے استقبال کیا گیا کہ میرا بیٹا راے وطن میں اَمر ہوگیا یاد رہے گا

جب یہ واقعہ نے جنم لی تو لوگوں نے میت کو شھید فدا چوک پر رکھ کر احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ خوشی کی بات ہے کہ لوگوں نے کثیر تعداد میں بھر پور شرکت کی جس میں عورتیں بھی شامل تھی دوسری طرف جوانی کی انداز سے نوجوانوں نے بلند آواز سے نعرہ لگایا جس سے احتجاجی لوگوں نے آواز میں ہر نعروں کا جواب عورتوں نے لبے آزادی کی طرح دیالوگوں نے رونما واقعہ دیکھ کر ظلم بھری داستان کو اپنے آپ کو محکوم محسوس کرکہ آزادی کی پیاس کو ختم کرنے کہ لئے لوگوں میں جزبہ نظریات بنے جارہا تھا اور بانُک کریمہ کی نظریات اور دی گئی درس دوبارہ زہینوں میں اُبھر آیاجس سے شھیدوں کی معنی خیز خواب لوگوں نے دل میں محسوس کیا ایک ایسا تحریک نے جنم لی تھی جس نے پورے بلوچستان کو آگاہی دی محکومی سمجھ لیا زیر لب تھی آواز جو تھے پاسبان ہمارے وہ نکلے غدار ہمارےیہ تحریک مکُران سے شروع ہو کر جھالاوان تک پہنچ گیا اور پھر وہاں سے روان ہو کر بہارخان اور پنجاپ کہ شہر ڈی جی خان اور پُہنچ گیا جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھیلیکن پنجاپ کہ باسیوں نے استقبال لاٹھوں سے کی نفرت کی آگ کو جلایا اِس تحریک کو برطرف کرنا چاہتے تھے ہر طرف ظلم کیا گیا تاکہ اِس تحریک کو ثبوتاج کرسکے لیکن یہ وہ ماہیں تھی جہنوں نے اپنی سینے سے مزحمت کی نشان تھی اُن کی اندر اہلیت تھی

جس کی تعریفیں میکسم گورکی نے اپنے کتاب میں دی ہے وہ ماہیں اور بہنیں جن کا لیڈر ماہ رنگ جیسا شجاعت اور ہمت اور حوصلا سے بندھا ہوا تھا اور جس نے اِن گت ظلم اپنی سینے سے چُھپا کر مسکراتا ہوا تھا۔تو یقیََنی جس کا یقین بلند ہو اُس کو شکست دینا ناممکن ہے ۰شاہد پنجاپ کے لوگ ایسے نظم اور داستانیں پڑھنے سے قاصر ہیں لیکن یہ تحریک عقبوبت لے کر اُسبے حس شہر میں جاکر دو مہنے گزار کر پردیسوں کی طرح لیکن کہتے ہیں جہاں دوشمن ہو وہاں اپنے دوست نہیں پلتے ہیں دوسری بات خوش اسلوبی کی جگہ انہوں نے بدتمیزی اور بدسلوکی سے پیش آنا اُن کا روزمرہ کی طرح عملی زندگی حصہ بن گیا تھا ہر دن لوگوں کو ہراساں کیا گیا اور ایک انمول حربہ استمال کرکہ تاکہ لوگ بے بس ہوکر یہاں سے جائیںلیکن لوگوں نے دل میں آس رکھ کر اِس ریاست سے ناامید ہوکر بلوچستان کی طرف روانہ ہوگئے یاد رکھیں

!ریاست اگر ماں ہوتی تو انصاف کا دروازہ کب کا کُھلا ہوا تھا اور ظلم کی پکارتا ہوا آوازیں پاکستان کی ہر شہر میں گنجتا ہوا ہر کسی نے سنایہ ظلم کی داستان کو لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی جب تحریک بلوچستان کی طرف لوٹ آیا تو ہر سمت میں لوگ آنے لگےجسمیں جوان بوڑھے پچے اور عورت تھی جہاں اُن لوگوں کا استقبال پھولوں سے ہوا جسطرح ہمیں یاد ہے جب بابا خیربخش افغان استان میں دیرانہ سفر سے واپس کویٹہ کی طرف آتے ہے تو کثیر تعداد میں استقبالہ کے لئے لوگ جمع ہوہے تھے ایسا لگا کہ وہ تاریخ خود سامنے آگیا وہ تحریک جس نے خود تاریخ بنا لی وہ تحریک بلوچستان میں پہنچ کر جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی پھولوں کی بارش لبوں میں آزادی جیسا مسُکراہٹطویل نما قطاریں ظلم کو ختم کرنے کی خواہشیکجہتی کی نشان جب جلسہ کا انعقد کیا گیا جس طرح فیصل ریحان اپنے نظم میں لکھتے ہیں اگر امن ہوتا یار بلوچستان میں خاک میں رلتی جوانیاں نہ دیکھتا ہر سوغم کی کہانیاں نہ دیکھتا تو آزادی کی گیت اور مختلف نعروں کا آوازیں گونج اُٹھا ہر طرف ظلم کی داستانیں سنے کو ملا کیسی نے رو کہ چلایا کیسی نے برجستہ سوال مَن میں رکھ کر خاموشی کی گونٹ لی یہ تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک دن پھر اُبھر آئے گا

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

کراچی بی وائی سی کے ممبران کے گھروں پر فورسز کا چھاپہ اور فائرنگ قابل مذمت ہے ، پریس کانفرنس

ہفتہ اپریل 20 , 2024
کراچی : بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے 19 اپریل کو فورسز کے چھاپوں اور فائرنگ پر تشویش اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کل رات 11:30 کے قریب ملیر کے علاقے جلال مراد […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ