اختلافات اور ان کا سدِ باب: تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

اختلافات اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس نے انفرادی طور پہ خود سے اختلاف رکھا جس نے درختوں سے غاروں اور غاروں سے مکانات میں رہنے کی راہ ہموار کی۔ جب انسان نے گروہی زندگی کی بنیاد رکھی تو موضوع کی نوعیت بھی بدلتی رہی، مسائل بھی مختلف عکس لیے سامنے آتے رہیں اور سلسلہ ہنوز جاری ہے ،پہلے پہل اگر یہ خاندان یا مخصوص گروہی زندگی تک محدود تھا تو آج کے جدید دور میں اس نے اپنے پر اس قدر پھیلا یا کہ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس عمل سے مبرا نہیں۔ اسی لیے آج کے دور میں اختلافات کوعلمی دنیا میں ایک علیحدہ مضمون کی حیثیت حاصل ہے ۔اس مضمون کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نت نئی راہوں کا انتخاب یا کہہ سکتے ہیں کہ تخلیق کے در کھولنے میں اسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

بہرحال ہم دیگر سماجی و سائنسی یا علمی اختلافات کو نظرانداز کرکے فقط اس کے سیاسی پہلوکو موضوع بناتے ہیں ۔ سیاسی عمل میں سیاسی کارکنان کو بنیادی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھے، تا کہ ان کی رائے لوگوں کے سامنے آسکے۔ اس ضمن میں کارکنان اپنی سوچ کودرست ثابت کرنے کے لیے منظق کی بنیاد پہ بحث و مباحثے اور مکالمہ بھی کرتے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اختلافات دوافراد کے درمیان رائے کا اختلاف نہیںبلکہ نظریات ، پالیسی، پروگرام اور طریقہ کا ر کا اختلاف ہے۔ اختلاف یا اختلافات کب رونما ہوتے ہیں یا وہ نظریہ اور سوچ کب اختلاف یا تنازعہ میں تبدیل ہوتا ہے؟۔اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جب ہم منطق کو پس پشت ڈال کر اپنے آپ کو صحیح اور ددوسروں کو یا مدمقابل کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں یا، یوں کہہ سکتے ہیں کہ اصولوں کوپائوں تلے روندھتے ہوئے ہم خود اختراعی نقطہ نظر سے خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ مسئلہ جنم لیتا ہے۔

سیاست ایک وسیع سوچ کا نام ہے جس میں کوئی جماعت مقصد کی تکمیل کے لیے نہ صرف مشترکہ مفادات کے حصول میں برسرپیکار افراد کے لیے راہوں کا تعین کرتا ہے بلکہ ان کے حصول کے لیے طریقہ کاریااصول بھی وضع کرتا ہے ۔اسی لیے سیاست قیاس آرائیوں اور مفروضات پہ نہیں بلکہ طریقہ کار پہ زور دیتا ہے اور جوں ہی ہم طریقہ کار یا سیاست کے بنیادی اصولوں کی پامالی کرتے ہیں تو اس سے اختلافات وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ سیاسی عمل ’’کُن فیکون‘‘ والے فارمولے کے برعکس آہستہ آہستہ سماج میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے اور بسا اوقات نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ہم جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سیاست کی فطرت کے منافی ہے ۔ سیاست وہ عمل ہے جو سماج کو اس وقت اپنا زیرِ اثر بنانے میں کامیاب ہوتا ہے جب وہ ان تمام لوازمات کو اپناتا ہے جو مقصد کی کامیابی کے لیے ضروری خیال کیے جاتے ہیں ۔ سیاست نام ہے سماج کے مشاہدے کا وہ چاہے اپنا سماج ہو یا دنیا عالم، جو آج کے زمانے میں سکڑ کر عالمی گائوں بن چکا ہے جس سے الگ ہوکر کوئی گروہ یا سماج تعمیر و ترقی کا خواب تو دیکھ سکتا ہے لیکن ان خوابوں کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں۔

جب کسی جماعت یا سماج میں موجودہ بالا سوچ سے متضاد کوئی نظریہ قائم ہو تو ایسی صورتحال میں اختلافات کا وقوع پذیر ہونا فطری عمل ہے۔اگر بروقت یا طریقہ کار کے مطابق ان کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہ اختلافات تضادات کی شکل بھی اختیار کرسکتے ہیں ، کیوں اور کیسے اس پہ آگے چل کر بات کریں گے۔ ا

ختلافات یا تنازعات کی نوعیت مختلف ہوتی ہیں لیکن سماج کے ساتھ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ایک حقیقی سیاسی کارکن کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ جہاں اختلافات نہ ہوں وہاں جمود طاری رہتاہے جو تخلیقی راہیں مسدود کرتی ہیں ۔بسا اوقات اختلافات تضادات کی شکل بھی اختیار کرتے ہیں، یہ اسی صورت ممکن ہے جب اداروں میں اختلافات کے سدباب کاکوئی نظام موجود نہ ہو۔ ویسے عمومی طور پر جماعتوں میں اختلافات کے سدباب کا نظام موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان اختلافات اور تنازعات کو ختم کرنے کے لیے مسئلہ کی نوعیت دیکھ کر طریقہ کار وضع کرتے ہیں

ایسے معاشروں میں جو سیاسی بلوغیت کی ابتدائی زینہ چڑھ رہے ہوں ، وہاں جب یہ عمل وقوع پذیر ہو یا سر چڑھ کر بولے تو ایسے موقعوں پہ رہنمائوں کا غیر دانشمندانہ عمل انتہائی تباہ کن صورت اختیار کرسکتا ہے ، جس کے رد عمل میں گروہی سیاسی کلچر فروغ پانے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ چونکہ سیاست کا ابتدائی مرحلہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ادارے اتنے مضبوط نہیں ہوتے البتہ اگر رہنما ئوںمیں منطقی فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو وہ تقسیم و انتشار کے اس عمل کا سدباب کرسکتے ہیں جس کے بعد جماعت یاجماعتوں کا عمل واپس اپنے معمول پہ آجاتاہے ۔ اور اگر دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا جس کی اہم ذمہ داری رہنمائوں کے سر ہوتا ہے تو انتشار اور تضادات جنم لیتے ہیں جن کی وجہ سے پورا عمل زوال پذیری اور تقسیم در تقسیم کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔

اختلافات کے حوالے سے یونیورسٹی آف سیکس کے انٹرنل ریلیشنشنزکے پروفیسر ، مائیکل نکلسن کا کہنا ہے ’’ ایک ایسی سرگرمی جس میں شعوری طور پر افراد یا گروہ اپنی خواہشات کو انجام دینے کے لیے ضرورتوں اور ذمہ داریوں سے باہمی متضاد عمل کو انجام دینے کے خواہاں ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ اس عمل کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ’’اختلافات ایک ایسا عمل ہے جو جماعتوں یا گروہوں کے اندر یا ان کے درمیان عدم مطابقت یا عدم اتفاق سے ظاہر ہوتا ہے ۔‘‘پہلی تعریف کی رو سے ایک فریق یا فریقین خود کو درست اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوششوں میں اپنی توانائی صرف کریں، اس موقع پہ بنائے گئے قوانین اور وقت و حالات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ۔ یعنی کہہ سکتے ہیں کہ انسان پہ غیر منطقی رویہ جب غالب آجاتا ہے تو تنازعات یا اختلافات کا ظہور ہوتا ہے۔دوسری تعریف کی رو سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے اختلافات جنم لیتے ہیں، جو مزید دوریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ اختلافات کے بنیادی اسباب :۔۱:۔ سیاسی عمل اس وقت تک سماجی جمود کو توڑنے کے قابل نہیں ہوتا جب تک ادارتی طرز سیاست کو پروان نہ چڑھایا جائے۔ روایتی طرز سیاست سے چوں کہ سماج متحرک ہی نہیں ہوتا تو اختلافات کا سامنے آنا فطری عمل ہے۔ اس دوران ادارتی طرز سیاست کو پسِ پشت ڈالنے والے گروہ یا سوچ اپنی بات کو مختلف زاویوں سے سچ ثابت کرنے کی کوششیں کرنا شروع کرتی ہیں ، لیکن مباحثوں کا یہ دور لاحاصل بحث پہ متنج ہوتا ہے ۔ چوں کہ اداروں کو فعال بنائے بغیر سیاسی عمل مضبوط خطوط پہ استوار ہی نہیں ہوسکتا لہذا اپنی بات کو سچ ثابت کرنے یعنی اداروں کو اہمیت نہ دینے والی سوچ کی وجہ سے سیاسی عمل تقسیم در تقسیم کا شکار ہوسکتا ہے، یہ تقسیم کبھی اندرونی طور پہ گروہی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو کبھی علیحدگی کی صورت اختیار کرسکتا ہے اور کبھی مقصد سے روگردانی بھی وجہ بنتی ہے۔یعنی روایتی طرز سیاست کو ہم اختلافات کا بنیادی محرک کہہ سکتے ہیں۔

۲:۔ سیاست مقصد کی کامیابی کے لیے ہمیشہ طریقہ کار پہ یقین رکھتا ہے، نہ کہ نتائج یا نتیجے پہ۔ بسا اوقات سیاسی کارکنان عارضی نتائج کے حصول کے لیے طریقہ کار کو پسِ پشت ڈالتے ہیں جس سے مختصرمدت کے لیے جماعت مستفید توہوسکتا ہے لیکن اس کے دور رس نتائج برآمد نہیں ہوسکتے جس کی وجہ سے آنے والا وقت مزید پیچیدگیوں کا محرک بنتا ہے ، اور یوں ایک ہی جماعت میں رہتے ہوئے کارکنان کی سوچ منقسم ہوجاتی ہے۔اختلافات کی یہ صورت کثیر الجماعتی سماج میں مزید دوریوں کا سبب بنتا ہے ۔ سماج میں اگر ایک جماعت طریقہ کار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی خودکو طریقہ کار سے مبرا سمجھتا ہے جس کی وجہ سے ایک مقصد کے حصول کے لیے متحرک رہتے ہوئے بھی متحد رہنے کا عمل شدید متاثر ہوتا ہے۔

۳:۔ جدت سے انحراف جسے رجعت پرستانہ سوچ کہاجاتا ہے۔ جماعتیں چوں کہ مختلف مکتبہ فکر(نظریہ تو ایک ہے لیکن ان کی علمی و عملی(تجرباتی) معیاریا سپشلائزیشن الگ ہوتے ہیں) کے حامی افراد پہ مشتمل ہوتا ہے لہذا ایسی سوچ کی وجہ سے جماعت یا جماعتوں میں موجود کارکنان کی سوچ منقسم ہوجاتی ہے، جس سے اختلافات کا ایک ایسا دور شروع ہوجاتا ہے جو بسا اوقات تضادات کا عکس لیے نازل ہوتا ہے ۔ جب وقت و حالات کی مناسبت سے جماعت یا جماعتیں خودکو منظم کرنے کی تگ و دو نہیں کرتے تو جدت کے حامی کارکنان ، سیاسی عمل کو دوام بخشنے کے لیے ایسی تحریک شروع کرتے ہیں جس میں نت نئی تبدیلیوں کی نہ صرف قبولیت بلکہ عملی طور پر نفاذ کو سیاسی عمل کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس تحریک سے سماج میں یا جماعت وجماعتوں کے کارکنان میں نئی بحث شروع ہوجاتی ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ اختلافات کا ایک اور دور شروع ہوتا ہے۔ جدت چوں کہ تعمیر و ترقی کی راہیں کھولتی ہیں اس لیے روایتی سوچ کے حامی افراد اس نظام میں خود کو ’’بونا ‘‘تصور کرنے لگتے ہیں اسی لیے وہ پرزور طریقے سے اس کی مخالفت کرتے ہیں جس کے لیے بسا اوقات سماج کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں، یا روایتی تقابلی سیاست کے نظریے کے تحت بعض دیگر روایتی معاشروں یا چھ ، سات عشرے قبل کی کسی تحریک یا سیاسی نظام کی مثالوں کا انبار لگاتے ہیں ، اور دوسری جانب جدت کے حامی افراد یا کارکنان نئی سوچ کو منطقی زاویے سے پروان چڑھارہے ہوتے ہیں۔ ایسے دور میں جہاں کارکنان جو سیاسی علم سے نابلد ہوتے ہیں یا ان کی علم و تربیت غیر معیاری ہوتی ہے تو وہ ذہنی الجھائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تبدیلی یا سیاسی نظام میں جدت کی یہ تحریک کسی ایسے سماج میں جو فرسودہ سیاست کی آماجگاہ ہو ، ایک ایسا سماج جس کی سیاست کا محور ہمیشہ شخصیات رہے ہوں کوئی سہل عمل نہیں ہوتا بلکہ راستے میں شدید قسم کی مشکلات حائل ہوسکتے ہیں ۔ ایسی تحریک کو جو کامیابی کا پیش خیمہ ہوتا ہے سرانجام دینے کے لیے سیاسی علم، کمٹمنٹ، اور سیاسی تبدیلی کے عمل میں متحرک کردار بنیادی عنصرہوتے ہیں، نہیں تو عام سا کارکن دالبرداشتہ ہوکے چپ سادھ لیتا ہے۔ درج بالا مختصر بحث میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہیں ان میںادارتی طرز سیاست ، نتائج سے زیادہ طریقہ کار اور جدت کے اصولوں پہ کار فرما رہنا وغیرہ ۔ المختصر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی عمل میں شخصیات کی اجارہ داری ختم کرنے اور اداروں کو پروان چڑھانے کی جدوجہدشروع ہوتی ہے ،تو یہ سیاسی عمل کی بلوغیت کو ظاہر کرتا ہے ، اس دوران اختلافات کا جنم لینا فطری عمل ہے ، کیوں اس دور میں کارکنان کی ایک بڑی اکثریت سیاسی شعور کی جانب گامزن ہورہاہوتا ہے، لہذا ان کے لیے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے اسی لیے وہ مقصد کے حصول کے لیے سیاسی عمل کو وقت و حالات کی مناسبت سے تبدیل کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کرتے ہیں،اور ان کی ثابت قدمی اور منطقی کوششیں اور ان کا یہی کردار دراصل سیاسی عمل میں اختلافات و تنازعات کے اسباب کی تخصیص اور ازاںبعدانہیں ختم کرنے کی کامیاب کوشش ہوتی ہے ۔ اس سے انہیں یہ جانکاری حاصل ہوتی ہے کہ اب سیاسی عمل مربوط خطوط پہ استوار ہورہا ہے لہذا جدت کے اس عمل کے ثمرات سے کارکنان سیاسی عمل میں شئہ تصور نہیںکیے جائیںگے بلکہ ان کی صلاحیتیوں کے مطابق ان کی خدمات حاصل کی جائے گی۔اختلافات کا سدِ باب:

اختلافات کے سدِباب کا ایک وسیع نظام موجود ہے لیکن ہر عمل میں سدِباب کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے ۔ سیاست وہ بھی نوآبادیاتی نظام کے خلاف متحرک تنظیموں ، جماعتوں کے اندرونی تنازعات ہوں یا ان اداروں کا ایک دوسرے کے طریقہ کار وغیرہ پہ اختلاف ۔ چوں کہ ان کا نظریہ ایک ہی مقصد کے گرد شاں رہتا ہے لہذا ان کو ایسے اختلافات یا تنازعات کے لیے اول الذکر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کوئی تنظیم یا جماعت جس سے عوام کی امیدیں وابستہ ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر کرکیا رہا ہوتا ہے۔؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا منطقی جواب تلاش کرنے میں اختلافات کا سدِباب پنہاں ہے ، اور جو جماعت اس عمل میں کامیاب ہوتا ہے یعنی جماعت یا جماعتوں میں موجود فریقین کوجب یہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ غلط ڈگر پہ محوسفر ہیں اور ان کے اس عمل سے سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے یا پڑرہا ہے یا پڑسکتا ہے ، تو وہ موجودتنازعات کو حل کرنے کی جانب مائل ہوتے ہیں جسے حرفِ عام میں اختلافات کا سدباب(Conflict Resolution) کہا جاتا ہے۔ جس میں پرامن بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔۔ اور اولذکر وہ اختلافات یا تنازعات کا اہم پہلو تلاش کرتے ہیں یا وہ بنیادی نقطہ ڈھونڈھتے ہیں جو اختلافات کی اہم وجہ ثابت ہوئی اور یہاں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ دلائل کی بنیاد پہ وہ بنیادی نقطہ دونوں فریقین کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کامیابی اس وقت یقینی ہے جب اختلافات کو ہوا دینے والا بنیادی نقطہ تلاش کیا جائے۔اس بنیادی نقطے کی نشاندہی کے ثمرات یہ ہیں کہ انہیں مقصد کے حصول میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی جو جماعت یا جماعتوں کی کامیابی کی جانب دلیل ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

نوشکی فورسز پہ حملہ اور ناکہ بندی 8 افراد ہلاک

جمعہ اپریل 12 , 2024
نوشکی سلطان چڑھائی پہ مسلح افراد کا ناکہ بندی اور تلاشی، تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے علاقے نوشکی میں مسلح افراد کا سلطان چڑھائی اور گردونواح میں ناکہ بندی کی ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے شناخت کے بعد 8 افراد کو ہلاک کردیا، جبکہ خیصار میں فورسز کے کیمپ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ