Type
جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5369دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرپرسن نے اپنے کابینہ کے ساتھ کیمپ آکر اظہار یکجتی کی۔
دوسری جانب جاری کیمپ سے بیان جاری کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ بلوچ فرزندوں کی بیش بہا قربانیوں کی بدولت آج بلوچ قومی بقاء اپنے پچھتر سالہ تاریخ میں ایک ایسے مقام پر جا پہنچی ہے کس کا تصور شاہد کچھ سال پہلے ممکن بھی نہیں تھا ۔دوستوں کی پر امن جدوجہد اور ثابت قدمی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی ۔جو وقت کی آزمائشوں اور تیز آندھیوں کو تند ہی سے برداشت کرتی آرہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ جن لوگوں کی پر امن جدوجہد کو کچھ تاریخی مایوس کن سب کثرت اف سوسائٹی نے جذباتی نوجوانوں کی بے عقلی اور وقتی ری ایکشن قرار دیا ۔آج انہی نوجوانوں کی پر امن جدوجہد اور بہادری کے باعث انھیں مایوس افراد تحریک کے سر خیل قرار دے رہے ہیں۔ انہی قربانیوں کے عوض آج نہ صرف پاکستانی پارلیمنٹ تھر تھر کانپ رہی ہے اور ہر دن نئے آپریشنز کو تیز کررہی ہے بلکہ بلوچ قوم کی پر امن جدوجہد کی بازگشت بیرون ممالک کی ایوانوں میں بھی سنائی دے رہی ہے ۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا ہےکہ انسان جب بھی اپنے حال کا جائزہ لینے کی کوشیش کرتا ہے تو یقیناً ماضی کو دیکھتا ہے اور اسی ماضی میں اپنے مشابہ لوگوں کو بھی دیکھنے کی کوشیش کرتا ہے ویسے ہی کسی بھی تحریک پر تبصرہ کرنے کی بات آتی ہے تو دنیا کے گزرے ہوئے تحاریک کی یادیں ابھر کر سامنے آئی ہی جاتی ہیں اور بالخصوص جب آپ کسی قوم پر یا ملک کے قبضے کو قائم رکھنے کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوں تو زیادہ تر ایک ہی جیسی حکمت عملی نظر آتی ہیں۔مثلاً دیسی باشندوں زمین کے حقیقی وارثوں کو ان کی شناخت سے بیگانہ کرنا ان کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا ان پر تشدد کرکے خاموش کرنے کی کوشش کے ساتھ جتانا کہ قبضہ گیر ان کا حقیقی خیر خواہ ہے وغیرہ وغیرہ اور یہ سارے حربے منظم اداروں کے ذریعے ہی بہترین انداز میں بروے کار لائے جاسکتے ہیں۔۔