
تحریر: محبت بلوچ
کچھ جدائیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اور گہری ہو جاتی ہیں۔ شہید اقبال کی جدائی بھی ایسی ہی ہے۔ یہ وہ دکھ ہے جو صرف آنکھوں سے نہیں بہتا، بلکہ دل کے اندر اتر کر ہمیشہ کے لیے بس جاتا ہے۔ اقبال کا نام آج بھی لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فضا میں ایک اداس سی خاموشی پھیل جاتی ہو، جیسے دل خود بخود جھک جاتا ہو۔
شہید اقبال کوئی عام انسان نہیں تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل دنیا تھا۔ اس کی موجودگی سے محفلیں زندہ ہو جاتی تھیں، اور اس کی غیر موجودگی نے زندگی کو خاموش بنا دیا۔ وہ زیادہ بولنے والا نہیں تھا، مگر اس کی خاموشی میں بھی معنی ہوتے تھے۔ اس کے الفاظ کم تھے مگر اثر گہرا رکھتے تھے۔ وہ بات کرتا تو لوگ غور سے سنتے تھے، اور جب مسکراتا تو سامنے والا اپنا غم بھول جاتا تھا۔
اقبال کی شہادت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت نے بھی اپنا رخ بدل لیا ہو۔ دن وہی ہیں، راتیں وہی ہیں، مگر ان میں وہ رونق باقی نہیں رہی۔ گاؤں کے راستے آج بھی اسی طرح پھیلے ہوئے ہیں، مگر ان پر چلنے والی وہ پہچانی ہوئی آواز اب سنائی نہیں دیتی۔ وہ درخت، جن کے نیچے بیٹھ کر اقبال دوستوں کے ساتھ باتیں کرتا تھا، آج بھی کھڑے ہیں، مگر ان کے سائے میں ایک اداس سی خاموشی بسی ہوئی ہے۔
وہ پہاڑ، جو کبھی اقبال کی ہنسی کی گونج سنا کرتے تھے، آج خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ وہ جھونپڑی، جس کے دروازے پر اقبال کی موجودگی زندگی کی علامت تھی، اب صرف یادوں کا مرکز بن چکی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر اینٹ، ہر لکڑی اور ہر دروازہ اقبال کے نہ ہونے کا نوحہ پڑھ رہا ہو۔
شہید اقبال کی سب سے بڑی خوبی اس کا انسان ہونا تھا۔ وہ دوسروں کے دکھ کو اپنے دل میں جگہ دیتا تھا۔ کسی کے چہرے پر پریشانی دیکھتا تو خود بے چین ہو جاتا۔ کسی کے گھر غم ہوتا تو اقبال وہاں سب سے پہلے پہنچتا۔ اس کی دوستی صرف لفظوں تک محدود نہیں تھی بلکہ عمل میں نظر آتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی جدائی ہر دل پر بھاری ہے۔
گاؤں کے بزرگ آج بھی کہتے ہیں کہ اقبال نے ہمیں جینا سکھایا۔ وہ عزت، صبر اور محبت کا پیکر تھا۔ بچے آج بھی اس کا نام لیتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں سوال ہوتا ہے کہ وہ واپس کیوں نہیں آتا۔ دوست جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو ہنسی کے بیچ اچانک خاموشی چھا جاتی ہے، اور سب جان لیتے ہیں کہ یہ خاموشی اقبال کی یاد کی ہے۔
شہادت نے اقبال کو ہم سے جدا ضرور کیا، مگر اس کے مقام کو اور بلند کر دیا۔ وہ اب صرف ایک شخص نہیں رہا بلکہ ایک مثال بن چکا ہے۔ اس کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسان اپنے اخلاق، اپنے رویّے اور اپنی محبت سے پہچانا جاتا ہے۔ شہید اقبال نے اپنی مختصر زندگی میں وہ مقام حاصل کیا جو بہت سے لوگ پوری عمر میں بھی حاصل نہیں کر پاتے۔
اقبال کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ کسی چیز سے پُر نہیں ہو سکتا۔ یہ خلا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ زخم شاید بھر جائیں، مگر نشان ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اقبال کی یاد بھی ایسا ہی ایک نشان ہے جو ہر دل میں موجود ہے۔
شام کے وقت جب گاؤں پر خاموشی اترتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے فضا خود اداس ہو گئی ہو۔ ہوا کے جھونکے جیسے کسی نام کو پکار رہے ہوں۔ دل بے اختیار کہتا ہے کہ کاش اقبال آج ہمارے درمیان ہوتا، کاش وہ ایک بار پھر مسکرا دیتا، کاش وہ خاموشی توڑ دیتا۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ شہید کبھی مرتے نہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں، دعاؤں میں اور یادوں میں زندہ رہتے ہیں۔ شہید اقبال بھی زندہ ہے—اپنے کردار میں، اپنی محبت میں اور ان آنکھوں میں جو آج بھی اسے یاد کر کے نم ہو جاتی ہیں۔
شہید اقبال کو ہم بھلا نہیں سکتے، کیونکہ کچھ لوگ یاد بننے کے لیے نہیں، مثال بننے کے لیے آتے ہیں۔
اور اقبال… ایک ایسی مثال ہے جو کبھی مٹ نہیں سکتی۔
