
تحریر: مہردر بلوچ
اگرچہ بظاہر ماما قدیر خاموش ہوگئی لیکن یہ خاموشی عام خاموشی نہیں۔ یہ وہ خاموشی ہے جو شور مچاتی ہے۔ ماں کی خاموشی، جس کے اندر سمندر کی گرج دفن ہو۔ ما ما قدیر آج اگر جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئی لیکن یہ سمجھ لینا بڑی غلطی ہوگی کہ ایک آواز خاموش ہوگئی۔ دراصل آواز نہیں، جسم تھکا ہے شریر بے روح ہوگئی ہے ۔ آواز اب راستوں، نعروں، تصویروں اور سوالوں میں منتقل ہو چکی ہے۔
جب ایک باپ اپنے بیٹے کی لاش پہچاننے کے مرحلے سے گزر جائے تو دنیا اس کے لیے پہلے جیسی نہیں رہتی۔ اس کے بعد جو جدوجہد شروع ہوتی ہے وہ انصاف کے لیے نہیں ہوتی، وہ وجود کے ثبوت کے لیے ہوتی ہے۔ ما ما قدیر نے اپنے بیٹے کی لاش کے بعد موت کو ذاتی سانحہ نہیں رہنے دیا، اسے اجتماعی سوال بنا دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ میرا بیٹا کیوں شہید کیا گیا ، سوال یہ تھا کہ یہ نوآبادیاتی طاقت ہمارے لال بچوں کے لاشین ہمین کیون بھیجتا ہے
یہاں سے ما ما قدیر ایک فرد نہیں رہے، ایک استعارہ بن گئے۔ ایک چلتا پھرتا ضمیر۔ وہ فٹ پاتھوں پر چلے، شاہراہوں پر رکے، پریس کلبوں کے باہر بیٹھے اور ریاست کے دروازے پر سوال رکھ کر لوٹ آئے۔ ان کے پاس نہ طاقت تھی، نہ عہدہ، نہ ادارہ۔ ان کے پاس صرف ایک ہتھیار تھا: تسلسل۔ اور ریاستیں عموماً تسلسل سے ہار جاتی ہیں۔
جبری گمشدگی محض کسی شخص کا غائب ہو جانا نہیں ہوتی۔ یہ پورے خاندان کو معلق کر دینے کا عمل ہے۔ ماں انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہے، بچے شناخت کے سوال میں الجھ جاتے ہیں، اور سماج رفتہ رفتہ عادی ہو جاتا ہے۔ ما ما قدیر کی جدوجہد اسی عادت کے خلاف تھی۔ وہ ہمیں یاد دلاتے رہے کہ جو معمول بن جائے، وہی سب سے خطرناک ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقتور نظام کمزور آوازوں کو سننے کا ہنر نہیں رکھتے۔ وہ یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا تھکا دینے کی حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔ ما ما قدیر کو بھی تھکایا گیا، برسوں چلایا گیا، انتظار میں رکھا گیا۔ مگر وہ اس سوال پر ڈٹے رہے جو کسی فائل میں فٹ نہیں ہوتا: اگر ریاست ماں کو اس کے بچے کا حال نہ بتا سکے تو ریاست کا اخلاقی جواز کہاں کھڑا ہوتا ہے؟
آج اگر ما ما قدیر خاموش ہیں تو یہ خاموشی شکست نہیں۔ یہ اس دوڑ کا اختتام نہیں جس میں وہ اکیلے نہیں تھے۔ ان کے ساتھ وہ سب مائیں تھیں جو تصویریں اٹھائے کھڑی رہیں، وہ سب باپ تھے جو قبروں پر بھی سوال لے گئے، وہ سب نوجوان تھے جنہوں نے سیکھا کہ انصاف مانگنا جرم نہیں ہونا چاہیے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تحریکیں افراد سے بڑی ہوتی ہیں۔ فرد جاتا ہے، سوال رہ جاتا ہے۔ ما ما قدیر بھی ایک سوال چھوڑ گئے ہیں۔ ایک ایسا سوال جو ہر اس شخص کا پیچھا کرے گا جو طاقت کو جواب دہی سے بالا سمجھتا ہے۔
الوداع کہنا شاید درست لفظ نہیں۔ ما ما قدیر کہیں گئے نہیں۔ وہ اب ایک راستہ ہیں، ایک حوالہ ہیں، ایک یاد دہانی ہیں
یہ خبر نہیں تھی، ایک خلا کی اطلاع تھی۔ ماما قدیر بلوچ کی وفات نے صرف ایک انسان کو ہم سے جدا نہیں کیا، اس نے بلوچ سماج کے ایک ایسے ستون کو گرا دیا جس کے سہارے برسوں سے سینکڑوں نہیں، ہزاروں خاندان اپنے دکھ کو زبان دیتے رہے۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کسی مقصد کے لیے وقف کرتے ہیں، ماما قدیر نے اپنی زندگی خود مقصد میں بدل دی تھی۔
یہ سفر کسی نظریاتی کتاب سے شروع نہیں ہوا تھا۔ یہ سفر ایک باپ کے دل سے نکلا تھا، جس کے بیٹے جلیل ریکی کو سن 2012 میں جبری گمشدگی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس مقام پر اکثر انسان ٹوٹ جاتا ہے، خاموش ہو جاتا ہے یا دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ مگر ماما قدیر نے ذاتی غم کو اجتماعی سوال میں بدل دیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی لاش کو انجام نہیں، آغاز بنایا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک متاثرہ باپ، ایک تحریک کی ریڑھ کی ہڈی بن گیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ محض ایک خیمہ نہیں تھا، یہ ایک متوازی عدالت تھی۔ وہاں فیصلے نہیں سنائے جاتے تھے، سوال رکھے جاتے تھے۔ ماما قدیر سولہ برس تک بلا ناغہ اس خیمے میں موجود رہے۔ عمر، بیماری، تھکن اور سیکیورٹی خدشات سب ایک طرف، اور وہ سوال ایک طرف جو ہر صبح ان کے قدموں کو وہاں لے آتا تھا: لاپتہ کہاں ہیں؟
جبری گمشدگی کسی فرد کا مسئلہ نہیں، یہ ریاست اور شہری کے رشتے کا بحران ہوتی ہے۔ ماما قدیر اس بحران کی چلتی پھرتی یاد دہانی تھے۔ وہ ہمیں یہ باور کراتے رہے کہ اگر ریاست کسی ماں کو یہ نہ بتا سکے کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا مردہ، تو یہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں، ایک اخلاقی ناکامی بھی ہے۔ اور اخلاقی ناکامیاں وقتی نہیں ہوتیں، وہ نسلوں تک اپنا بوجھ منتقل کرتی ہیں۔
شال سے اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر کا لانگ مارچ محض ایک احتجاجی مارچ نہیں تھا، یہ جغرافیے کو ضمیر سے جوڑنے کی کوشش تھی۔ وہ سفر جس میں پاؤں چھل گئے، جسم تھک گیا، مگر سوال کمزور نہ پڑا۔ اسی مارچ نے بلوچ قومی مسئلے کو علاقائی فریم سے نکال کر عالمی انسانی حقوق کے بیانیے میں داخل کیا۔ دنیا نے پہلی بار اس مسئلے کو اعداد و شمار نہیں، چہروں کی صورت میں دیکھا۔
ماما قدیر کی طاقت نعروں میں نہیں تھی، تسلسل میں تھی۔ ریاستیں نعروں سے نہیں گھبراتیں، وہ تسلسل سے پریشان ہوتی ہیں۔ سولہ سالہ احتجاج نے یہی ثابت کیا کہ کمزور کے پاس اگر کوئی ہتھیار ہے تو وہ مستقل مزاجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماما قدیر ایک فرد نہیں رہے، ایک حوالہ بن گئے۔ وہ بلوچ قوم کے لیے ہی نہیں، ہر اس محکوم قوم کے لیے مثال تھے جو انصاف کے لیے لڑتی ہے مگر اس کی آواز طاقت کے ایوانوں تک نہیں پہنچتی۔
ان کی وفات سے واقعی ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ مگر تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ خلا ہمیشہ کسی ایک شخص کے جانے سے نہیں بنتا، خلا تب بنتا ہے جب سوال مر جائے۔ ماما قدیر سوال چھوڑ گئے ہیں، اور سوال زندہ ہیں۔ اب امتحان ان کے ساتھیوں کا ہے کہ وہ اس سوال کو زندہ رکھتے ہیں یا اسے تعزیتی بیانات کے ملبے تلے دفن ہونے دیتے ہیں۔
ماما قدیر کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے کام کو جاری رکھا جائے۔ کیمپ کو قائم رکھا جائے، سوال کو دہراتے رہیں،
ماما قدیر بلوچ شاید اب ہمارے درمیان نہیں، مگر وہ ایک راستہ چھوڑ گئے ہیں۔ ایک ایسا راستہ جو بتاتا ہے کہ فرد کمزور ہو سکتا ہے، مگر اس کی استقامت نہیں۔ اور جب تک جبری گمشدگی ایک حقیقت ہے، ماما قدیر کی جدوجہد ایک زندہ حوالہ رہے گی۔
